صبیح احمد
پڑوسی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ امیر اور غریب بھی نہیں ہوتا۔ وقت پڑنے پر پڑوسی ہی کام آتے ہیں۔ مصیبت میں جب تک کسی رشتے دار، دوست یا مدد گار کو خبر ہو، کام تمام ہوجاتا ہے لیکن وہ پڑوسی ہی ہوتا ہے جو وقت پر کام آتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ آزمودہ حقیقت ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ بہرحال دنیا میں غرور اور گھمنڈ نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے جو عقل و خرد کو 100 پردوں میں چھپا دیتی ہے۔ سامنے کی چیز بھی اسے دکھائی نہیں دیتی۔ اگر غرور اقتدار اور اختیارات کا ہو تو پھر کیا کہنے!
ابھی کچھ دنوں قبل مغربی بنگال اسمبلی الیکشن کی انتخابی مہم کے دوران ہمارے معزز وزیر داخلہ نے ایک جلسہ عام میں اپنی تقریر کے دوران اپنے حریفوں کو نیچا دکھانے اور خود کو بہتر متبادل ثابت کرنے کی کوشش کے تحت ہندوستان کے بہترین پڑوسی دوست ملک کے شہریوں کے حوالے سے ہتک آمیز لہجہ میں ایک ایسی بات کہہ دی کہ وہ کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ امت شاہ نے کہا تھا کہ بنگلہ دیش کے وہ غریب لوگ جنہیں اپنے ملک میں کھانے کو کچھ نہیں ملتا، بھاگ کر ہندوستان آجاتے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا میں شائع ہونے والے اس بیان پر جب بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن کا ردعمل جاننے کی کوشش کی گئی تو ان کا ہندوستانی وزیر داخلہ کے بنگلہ دیشی عوام سے متعلق بیان کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہنا تھا کہ امت شاہ کی بنگلہ دیش سے متعلق معلومات محدود ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات بہت گہرے ہیں اور ایسے میں امت شاہ کا بیان غلط فہمی پیدا کرتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ دنیا میں بہت سے ’عقل مند‘ لوگ ہیں جو دیکھنے کے بعد بھی نہیں دیکھنا چاہتے اور جاننے کے بعد بھی نہیں سمجھنا چاہتے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ بنگلہ دیش میں بھوک سے کوئی نہیں مرتا اور بنگلہ دیش کے شمالی اضلاع میں غربت اور بھوک کا وجود نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں ہندوستان جانے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اس کے برعکس ایک لاکھ سے زائد ہندوستانی شہری بنگلہ دیش میں کام کرتے ہیں اور بنگلہ دیش کئی شعبوں میں ہندوستان سے آگے ہے۔
یہ صحیح ہے کہ اس طرح کے بیانات سے سرکاری سطح پر تعلقات اور تزویراتی رشتوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن عوامی سطح پر اس کا اثر یقینی طور پر پڑتا ہے۔ گزشتہ دنوں کی سی اے اے مخالف تحریک کے دوران ہمارے سیاستدانوں کے اسی طرح کے بیانات کے خلاف اور فی الحال وزیراعظم مودی کے دورۂ بنگلہ دیش کے موقع پر بنگلہ دیش کے عوام کا جو ردعمل سامنے آیا، اس پر سنجیدگی سے غور کیے جانے کی ضرورت ہے۔ عوامی سطح پر یہی بدگمانیاں دھیرے دھیرے کہیں ناسور نہ بن جائیں۔
بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ کا یہ دعویٰ بادی النظر میں بے بنیاد نہیں لگتا۔ اس میں کافی دم ہے۔ بنگلہ دیش اس سال اپنے قیام کی گولڈن جبلی منارہا ہے۔ اس کی آزادی کے 50سال مکمل ہو گئے ہیں۔ پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ان 50 برسوں میں بنگلہ دیش نے کیا کھویا اور کیا پایا، یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔ اس ملک کا اپنے وجود کے اولین 50 برسوں کے دوران ایک انتہائی غریب ملک سے دھیرے دھیرے ایک متوسط آمدنی والے ملک میں خود کو تبدیل کرنے کا پر اعتماد سفر واقعی قابل تقلید ہے۔ اپنے قیام کے 50 سال کے عرصہ میں بنگلہ دیش نے کئی عروج و زوال دیکھے ہیں، تاہم حالیہ ایک دہائی کے دوران ماہرین کے بقول معاشی میدان میں بنگلہ دیش نے کئی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ 16 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک بنگلہ دیش کا شمار اب جنوبی ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشت میں کیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق 50 سال کے دوران قحط، غربت، بے روزگاری، فوجی مداخلت اور سیاسی تشدد سے نبرد آزما رہنے کے بعد اب بنگلہ دیش نے اپنی برآمدات میں اضافہ کیا ہے جبکہ اس نے اپنی نوجوان آبادی کو ترقی دینے میں قابل تعریف پیش رفت بھی کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش نے لاکھوں افراد کو غربت سے نکالا اور اب اس کی معیشت جنوبی ایشیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت شمار ہوتی ہے۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد 1972 میں بنگلہ دیش کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا حجم محض 6.2 ارب ڈالر تھا جو 2019 میں بڑھ کر 305 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ بعض معاشی ماہرین کا اندازہ ہے کہ اگر ترقی کی یہی شرح برقرار رہی تو 2030 میں بنگلہ دیش کی جی ڈی پی 600 ارب ڈالرز سے بڑھ سکتی ہے۔ شیخ حسینہ واجد کے دور میں بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی میں تقریباً 3 گنا اضافہ ہوا ہے۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق بنگلہ دیش میں خواندگی کی شرح بھی مسلسل بہتر ہو رہی ہے جبکہ لڑکیوں کی تعلیم کو بھی فروغ مل رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک ہندوستان اور پاکستان کے مقابلے بنگلہ دیش بچوں کی غذائی قلت جیسے مسائل کا بھی بہتر طور پر مقابلہ کر رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں اوسط عمر 72 برس ہے جبکہ پاکستان میں یہ 67 برس ہے۔ یہ کہنا بے جا نہیں لگتا کہ بنگلہ دیش کی ترقی کا ماڈل خطہ کے دیگر ممالک کے لیے ایک مثال ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش کی روح اور نبض قلا بازی مار کر ابھرنے کی قوت میں پنہاں ہے۔ نومبر 1970 میں آنے والے آن ریکارڈ دنیا کے سب سے ہلاکت خیز سمندری طوفان ’بھولا‘ نے بنگلہ دیش کے سمندری سواحل کو تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا۔ اس کے 50 سال بعد آج اس ملک نے تباہی کے خطرات میں کمی لانے میں علمبردار کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ بنگلہ دیش ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ کی فرنٹ لائن میں ہے۔ سائیکلون بھولا سے 3 لاکھ سے زائد لوگوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔ اس کے50 سال بعد خلیج بنگال کے ساحل پر اسی شدت کے سائیکلون کے نتیجے میں تقریباً 3,000 زندگیاں ضائع ہوئیں یعنی جانی نقصان میں 100 گنا کمی آئی ہے۔ یہ نمایاں کارکردگی بنگلہ دیش کی گزشتہ دہائی میں اس شعبہ (ابھرنے کی قوت) میں منظم طریقے سے سرمایہ کاری کا نتیجہ ہے۔ تباہی خیز آفات سے زندگیوں، ذریعہ معاش، روزی روٹی اور اثاثوں کا تحفظ بنگلہ دیش کی ترقیاتی حکمت عملی کی کلید بن گیا ہے۔
ہمارے ہندوستان میں بھی دیگر مسائل سے قطع نظر اسی طرح کے سائیکلون، طوفان اور ہر سال برسات کے دنوں میں سیلاب کا قہر برپا ہوتا ہے۔ ملک کی طویل ساحلی پٹی ہے، خاص طور پر خلیج بنگال کے سواحل پر ہندوستان کی بڑی آبادی رہتی ہے جو اکثر آفات سے متاثر ہوتی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف میدانی علاقوں میں چھوٹی بڑی ندیوں کا جال بچھا ہوا ہے جن میں ہر سال سیلاب آتا ہے اور لاکھوں لوگوں کو موت کی نیند سلا دیتا ہے۔ اقتصادی نقصانات بھی بے پناہ ہوتے ہیں لیکن اس مسئلہ کو ابھی تک حل نہیں کیا جا سکا ہے۔ آزادی کے 70 سال بعد بھی ہندوستان کے پاس سمندری طوفانوں اور سائیکلون سے نمٹنے کی حکمت عملی تو دور کی بات، ندیوں میں ہر سال آنے والے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو روکنے کا بھی کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش کو آزادی دلانے میں ہندوستان کا اہم کردار رہا ہے اور بنگلہ دیش کو اس بات کے لیے ہمارے ملک کا احسان مند ہونا چاہیے۔ ہمارے قریب ترین پڑوسی ملک نے اسے فراموش بھی نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی گولڈن جوبلی تقریبات کے افتتاح کے موقع پر ہندوستان کے وزیراعظم کو خاص طور پر مدعو کیا تھا۔ دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج ہندوستان کو اس نئے اور چھوٹے سے ملک سے سبق حاصل کرنے کی نوبت آ گئی ہے۔ بنگلہ دیش آج زندگی کے تقریباً تمام اہم شعبوں میںترقی کے حوالے سے صرف ہندوستان ہی نہیں، خطہ کے تمام ملکوں سے آگے نکل گیا ہے۔
ہمارے سیاست داں اب بھی اس زعم میں ہیں کہ بنگلہ دیش ایک چھوٹا سا اور پسماندہ ملک ہے جس کی ہمارے ملک کے سامنے کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ وقت کا پہیہ پوری طرح گھوم چکا ہے۔ بعض لوگ سیاستدانوں کے اس طرح کے بیانات کی لیپا پوتی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ زبان پھسل جانے اور انتخابی تقاریر جیسے بے وزن جواز پیش کرنے لگتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اس طرح کے بیانات سے سرکاری سطح پر تعلقات اور تزویراتی رشتوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن عوامی سطح پر اس کا اثر یقینی طور پر پڑتا ہے۔ گزشتہ دنوں کی سی اے اے مخالف تحریک کے دوران ہمارے سیاستدانوں کے اسی طرح کے بیانات کے خلاف اور فی الحال وزیراعظم مودی کے دورئہ بنگلہ دیش کے موقع پر بنگلہ دیش کے عوام کا جو ردعمل سامنے آیا، اس پر سنجیدگی سے غور کیے جانے کی ضرورت ہے۔ عوامی سطح پر یہی بدگمانیاں دھیرے دھیرے کہیں ناسور نہ بن جائیں۔
[email protected]