مولانا نورقاسمیؔ سدھارتھ نگر
رابطہ نمبر:7754893767
اللہ تعالی کاارشادہے’’اورتمہیں سربلند رہوگے بشرطیکہ مومن رہو‘‘(آل عمران)اس کے باوجود مسلمانوں کی بے چارگی، مظلومیت اور ذلت ونکبت سے لگتا ہے کہ جس طرح کا ایمان اللہ تعالی کو مطلوب ہے مسلمان اس پرقائم نہیں ہیں۔ اورمن رأی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہٖ الخ کے مدنظر جو لوگ جو لوگ برائی کو اپنے ہاتھ سے بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے اس برائی کا بہتر متبادل لاکر دوسروں کو اس سے بچالیں یا پھر زبان و بیان اور بہتر ین پرپزنٹیشن (Presentation) کے ذریعہ برائی کا برا ہونا باور کرائیں، مگر خاموش مذمت پر قناعت کمزور ترین درجہ ایمان پر اکتفا کرنا ہے۔(حدیث)
مثلاً عام طور پر ہماری مجلسوں میں اس بات کے چرچے ہوتے ہیں کہ میڈیا جانبداری ہے، تعصب پرست ہے، ملک کے غریبوں، مظلوموں اور اقلیتوں کے مسائل سے اسے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔البتہ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کی شیطانی باتوں اور ملک میں نفرت پھیلانے والوں کو ہائی لائٹ کرنے میں اسے بڑا مزا آتا ہے۔
اور یہ بھی کہ میڈیا جرائم بالخصوص سیکس کو بڑھاوادے رہا ہے۔جس کے نتیجہ میں ملک کو باحیا کلچر اور ہماری تہذیب دم توڑتی نظر آرہی ہے۔حالانکہ اسے توسیکولر اور حق کا آئینہ دار ہی ہونا چاہئے تھا،نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور محروم انصاف لوگوں کا حق دلانے اور خواتین کی عصمت و عفت کے تحفظ اور وطن عزیز کو سماج دشمن عناصرکی سازشوں سے بچانے میں یہ بہتر رول ادا کرسکتا تھا،لیکن اسے کو صرف ہماری داڑھی اور نقاب کی پڑی ہے۔
مگر کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ ان امور کے تئیں ہماری بھی کچھ ذمہ داریا ں ہیں؟کیا ہم اس کا کوئی بہتر متبادل پیش نہیں کرسکتے ؟کیا یہ کام جس کی امید ہم نے مغربی میڈیا (یہودی میڈیا ) اور اس کے متبعین سے لگا رکھی ہے۔خود نہیں کرسکتے ؟کیا ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اسی ٹیکنا لوجی (الیکٹرانک میڈیا) کے ذریعہ وہ سب کام کریں جن کی امید ہم نے دوسروں سے باندھ رکھی ہے؟ کیا ہمارے پاس سرمایہ کی کمی ہے؟News کی رپورٹ کے مطابق ہندستانی مسلمان ہر سال محض شادیوں اور عمرے کی ادائیگی میں ۱۲؍ہزار کروڑ روپئے خرچ کرتے ہیں۔(۹۹۰۰ کروڑ شادیوں اور ۲۱۰۰کروڑ عمرے میں)۔
آخر ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ غیر ضروری امور میں ہم پانی کی طرح پیسے بہارہے ہیں مگر بنیادی کاموں میں ذرا بھی دلچسپی نہیں ہے۔جبکہ ’’انہ یراکم ھووقبیلہ من حیث لا ترونھم‘‘ (الاعراف) کے بمصداق شیطانی لشکر ہمارے اوپر کس کس طرح سے حملہ آور ہے ہمیں اس کا اندازہ نہیں ہے۔بات تو اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ سربراہانِ قوم و ملت بھی بلا تفریق و انتشار کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔اور ہم کہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔اللہ کی مساجد تک کو نفرت و نعصب کا سینٹر بنا لیاگیاہے۔جس اسلام نے مختلف دور کے انبیاء کرام اور ان کے متبعین کو (جب کہ ان کے نبی،ان کی شریعتیں اور زندگی کے قوانین الگ تھے، مگر چونکہ وہ سبھی توحید ،رسالت آخرت کے بنیادی عقیدے پر قائم تھے۔)ایک امت کہا(ابنیاء:آیت ۹۱)اسی دین کے موجودہ نام لیوا ایک اللہ ،ایک رسول اور ایک قرآن پر ایمان رکھنے والوں کو کا فر قرار دیتے ہیں۔
ہائے افسوس ہمارا اسلامی میڈیا سینٹر (مساجد) جہاں سے ایکجہتی کا پیغام جانا تھا وہاں سے بھی انہیں کا مشن پاس ہورہاہے۔ جنھیں ہم اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کرتے ہیں۔
۱۸۹۷ء میں سوئزر لینڈ کے شہر بالا میں ۳۰۰ یہودی دانشوروں نے پوری دنیا پر حکمرانی کا منصوبہ تیار کیا تھا،جس کی بارہویں دستاویزمیں کی صراحت کچھ اس طرح ہے۔
’’اگر ہم یہودی پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے سونے کے ذخائر پر قبضہ کو مرکزی اور بنیادی اہمیت دیتے ہیں تو ذرائع ابلاغ بھی ہمارے مقاصد کے حصول کے لئے دوسرا اہم درجہ رکھتا ہے۔ہم میڈیا کے سرکش گھوڑے پر سوار ہوکر اس کی باغ ڈور کو اپنے قبضہ میں رکھیں گے ،ہم ایسے اخبارات کی بھی سرپرستی کریں گے جو انتشار و بے راہ روی اور اخلاقی انار کی پھیلانے کا کام کریں اور ہم استبدادی حکومتوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی مدافعت و حمایت کریں گے۔ ہم جب اور جہاں چاہیں گے قوموں کے جزبات کو مشتعل کردیں گے اور جب مصلحت دیکھیں گے پر سکون کر دیں گے۔ہمارے اخبارات ورسائل ہندوں کے معبودوں وشنوں کی طرح ہونگے جس کے سیکڑوں ہاتھ ہوتے ہیں ہمارے پریس کا بنیادی کام ہوگا کہ وہ مختلف موضوعات پر مکالموں کے ذریعہ رائے عامہ کی نبض پر ہاتھ رکھیں رہیں یہودی ذرائع ابلاغ میڈیا کو خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعہ کنٹرول کریں گے۔ہم دنیا کو جس رنگ کی تصویرں دیکھانا چاہیں گے وہ پوری دنیا کو دیکھنا ہوگا۔(مغربی میڈیا اور اس کے اثرات)
آج مسلمانوں کے موجودہ حالات ۱۰۰؍ سال بیشتر مضبوط منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔کیا ان بدترین حالات میں بھی ہمیں ہوش میں نہیں آنا چاہئے؟اپنے تشخص ،اپنی تہذیب کی بقا اور تحفظ کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟
دوسروں کی بیساکھی کے سہارے ہم کب چلیں گے ہمیں بہر حال تک ایک معیاری سیٹلائٹ نیوز چینل (Satel Lite News Channel) قائم (Stablish) کرنا ہوگا جو ملک کے ہر انصف پسند اور سیکولر شہری کے دل کی آواز ہو ،فطری ،مشرقی تہذیب و ثقافت اور اس کی باحیا روایات کا سچاترجمان ہو۔منفی پروپیگنڈوں سے پیدا شدہ غلط فہمیوں کو دور کرکے حقائق کی صحیح تصویر پیش کرے۔قومی ،ملی ایجنڈوں کو فورس میں لانے کا کام کرے۔اور مسائل کو حل کرنے اور تعلیم کو عام کرنے میں دلچسپی لے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس طرح کا کوئی چینل وجود میں آئے تو خیالات سے ہمیں ضرور آگاہ فرمائیں