محمد فاروق اعظمی
ملک کے 15ممتازسیاسی رہنمائوں کے نام مغربی بنگا ل کی وزیراعلیٰ اور ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتابنرجی نے تین صفحات کا ایک مکتوب لکھا ہے جس میں ملک کی جمہوریت پر منڈلارہے خطرات کے سلسلے میں اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے حزب اختلاف سے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ اپنے خط میں ممتابنرجی نے بھارتیہ جنتاپارٹی کی جانب سے ملک میں ایک پارٹی کی ’آمرانہ حکومت‘ قائم کرنے کی بے لگام خواہش کو ملکی جمہوریت کیلئے خطرہ اور دور استبداد کے آغاز سے تعبیر کیا ہے اور لکھا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ تمام اپوزیشن پارٹیاں متحد ہوکر جمہوریت اورآئین پر ہونے والے حملوں کا دفاع کریں۔ترنمول کانگریس کی سپریمو کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی، آئین میں دیے گئے حقوق اور آزادی کا استعمال دوسر ی پارٹیوں کیلئے ناممکن بنانے کی کوشش کررہی ہے۔غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں کے اختیارات میں عمل دخل اور اسے بلدیات و پنچایت تک محدود کرنے کی سازش کررہی ہے۔اس سلسلے میں انہوںنے تقریباً نصف درجن مثالیں بھی لکھی ہیں کہ کس طرح بی جے پی دوسری پارٹیوں اور خود ان کی پارٹی ترنمول کانگریس کا ناطقہ بند کیے ہوئے ہے۔
اتحاد چاہے سیاسی ہو یا معاشرتی اس کیلئے خلوص نیت شرط ہوتی ہے۔فریقین میں اشتراک عمل ضروری ہوتا ہے مگر ممتابنرجی کے معاملات میں یہ دونوں چیزیں مشکوک نظرآرہی ہیں۔ایسے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ اپوزیشن لیڈران دیدی کی چٹھی کو سنجیدگی سے لیں گے۔
ممتابنرجی کے اس خط کا اپوزیشن لیڈروں نے اب تک نہ تو کوئی جواب دیا ہے اور نہ ہی کسی ردعمل کا اظہار کیا ہے لیکن بھاریہ جنتاپارٹی نے دیدی کے اس خط کو بوکھلاہٹ اور ہار کے خوف سے تعبیر کیا ہے۔وزیراعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ بنگال میں ہورہے الیکشن میں ہارکے ڈر سے دیدی نے اپوزیشن لیڈروں کی مدد مانگی ہے۔ پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا کا بھی کم و بیش یہی کہنا ہے کہ اپنی ڈوبتی کشتی بچانے کیلئے ممتابنرجی ہاتھ پائوں ماررہی ہیں۔
ممتابنرجی کی شکایت کسی تصدیق کی محتاج نہیں ہے۔یہ حقیقت سبھی جانتے ہیں کہ بھارتیہ جنتاپارٹی ہندوستان کو ’اپوزیشن مکت ‘ بناناچاہتی ہے اوراس کیلئے وہ سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ اس کا ہرقدم اپنے اسی مقصد کے حصول کیلئے ہی اٹھتا ہے۔دیکھاجائے تو ہرگزرنے والا دن بی جے پی کوا س کے ہدف سے قریب پہنچارہاہے۔حالیہ برسوں میں ہندوستان میں آنے والی سیاسی اور معاشرتی تبدیلیاں یہ گواہی دے رہی ہیں کہ بی جے پی اپنے مقصد میں کامیاب ہے۔اکثریت کے ذہن میں سیکولرزم کے خلاف بغض و عناد کا لاوا پکنے لگا ہے اور گنگاجمنی کہی جانے والی ملک کی تہذیب اب ماضی کا قصہ بن رہی ہے۔اس کی جگہ قوم پرستی اور حب الوطنی کے نام پر تعصب اور فرقہ پرستی کا زہر سرایت کرگیا ہے۔ بی جے پی اس تبدیلی کو سیاسی قوت کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ عالمی برادری بھی ہندوستان میں اس بدلتے منظرنامہ سے تشویش کی شکار ہے۔ امریکہ اور یوروپ کی مختلف تنظیموں کی جانب سے کیے جانے والے جائزے اور سروے بھی یہ بتارہے ہیں کہ ہندو قوم پرستی تیزی سے بڑھتی ہوئی’سیاسی قوت ‘بن گئی ہے جو ہندوستان کی جمہوری روایات اور اقدار کیلئے تباہ کن ہے۔کانگریشنل ریسرچ سروس(سی آر ایس) نے بھی اپنی رپورٹ میں گزشتہ دنوں یہی معاملہ اٹھایاتھااور کہاتھا کہ ریاست کی سطح پر مذہبی شدت پسندی کو ہوادی جارہی ہے۔ تبدیلی مذہب قانون،لو جہاد قانون، تحفظ گائو قانون اور آئین میں ہونے والی حالیہ ترامیم ہندوستان کی جمہوری روایت کیلئے سنگین خطرہ ہیں۔برطانوی استعمار سے آزادی کے بعدزمانے کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کے سارے شہریوں کو قانون کے مطابق مساوی حقوق دینے اور نسلی،لسانی ومذہبی امتیازات سے بالاتر ہوکر یکساں شہری کا درجہ دینے کیلئے سیکولرریاست کا قیام عمل میں آیا تھااور اب 70سال بعد اس سیکولر ریاست کو ’ آریہ ورت‘ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور سیکولرزم کا حلف اٹھانے والی حکومت اس کوشش میں پیش پیش ہے۔ ہندو برہمنی نظریات کے احیاء نو اور ہندوستانی معاشرے کو ہندومت میں تبدیل کرنے، اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے، ان پر ظلم و ستم اور تشدد کیلئے ہندو قوم پرست تنظیمیں سرگرم ہیں اور انہیں حکمرانوں کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے۔یہ کام پہلے بھی ہوتے رہے تھے مگر وہ درون خانہ تھے۔ عوامی سطح پر انہیں غلط سمجھا جاتا تھا اور سیاسی پارٹیاں بھی ایسی تنظیموں کی کھلے عام سرپرستی کو معیوب سمجھتی تھیں مگر اب بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکمرانی میں یہ سب کھلے عام ہورہاہے۔ بی جے پی کی کوشش ہے کہ وہ اس کیلئے مطلوب مینڈیٹ بھی حاصل کرے اور پھر جمہوریت اور سیکولرزم کو اس ملک سے چلتاکردے۔اب ایسا ہوگا یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
لیکن یہ ضرور ہے کہ اس شکایت کیلئے دیدی نے جو وقت منتخب کیا ہے، اس پر لوگوں کے اپنے اپنے تحفظات ہیں۔ ممتابنرجی نے جس وقت یہ خط لکھا اس وقت بنگال میں دوسرے مرحلہ کی پولنگ شروع ہوئی تھی،جس کی وجہ سے اس کی معنویت بالکل ہی بدل کر رہ گئی ہے۔ اگر یہ خط مغربی بنگال اسمبلی انتخاب سے پہلے یا پھر انتخاب کے بعد لکھاجاتا تو اس کی معنویت ہی دوسری ہوتی۔یہ کہاجاسکتا تھا کہ ممتابنرجی اپوزیشن پارٹیوں کو متحدکرکے بی جے پی کو روکنا چاہتی ہیں مگر انتخاب جاری رہنے کے درمیان لکھاجانے والا یہ خط لوگوں کی بدگمانی کو ہوا دے رہا ہے کہ ممتابنرجی بھارتیہ جنتاپارٹی سے ہراساں ہوگئی ہیں۔
انتخاب سے قبل جب مغربی بنگال میں کانگریس، بایاں محاذ کا اتحاد قائم ہورہاتھا اور نوتشکیل انڈین سیکولر فرنٹ بھی اس کا حصہ بن رہی تھی تو اس وقت ممتابنرجی نے اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوئی بات نہیں کہی بلکہ آئی ایس ایف کی جانب سے اتحاد کی شمولیت کو بھی پائے حقارت سے ٹھکرا دیا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سے قبل انہوں نے بنگال میں انتخاب کیلئے کسی دوسری پارٹی سے اتحاد نہیں کیا ہو۔سابقہ دو اسمبلی انتخابات میں بھی وہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کرچکی ہیں، ماضی میں ان کا اتحاد خود بھارتیہ جنتاپارٹی کے ساتھ بھی رہ چکا ہے، جس کے خلاف آج وہ تلوار سونتے ہوئے ہیں اور وہ اپوزیشن سے پاک ہندوستان بنانے کے جو الزامات بھارتیہ جنتاپارٹی پر لگارہی ہیں، خود وہی کام وہ مغربی بنگال میں بھی کرچکی ہیں۔ اپوزیشن سے پاک بنگال بنانے کیلئے کانگریس اور سی پی ایم کو انہوں نے دیوار سے لگادیا۔ کوئی ڈر اور خوف کی وجہ سے ترنمول کانگریس میں شامل ہواتوکوئی ترغیب اور لالچ کے زیر دام آیا۔ حتیٰ کہ مالدہ کی مشہور زمانہ کانگریس کی غنی خان فیملی کو بھی انہوں نے دو حصوں میں تقسیم کردیا۔سی پی ایم کے عبدالرزاق ملا اور عبدالستار سے لے کر کانگریس کی موسم بے نظیر نور تک کو انہوں نے ترنمول کانگریس کا حصہ بناکر جنوبی24پرگنہ سے مالدہ تک اپوزیشن کا صفایاکردیا۔اس وقت ممتابنرجی کو نہ تو جمہوریت پر حملہ یادآیاتھا اور نہ آئین حقوق کی دہائی یاد رہی تھی۔ آج وہی کام بھارتیہ جنتاپارٹی ملک گیر پیمانے پر کررہی ہے تو دیدی کو جمہوریت، آئین اور سیکولرزم کی یادستانے لگی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی کی ان کاوشوں کی ہم تائید کرتے ہیںلیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ پیمانہ دوہرا نہیں ہوناچاہیے اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مکافات سے کسی کو فرار نہیں ہے۔
ویسے بھی یہ امکان کم ہی ہے کہ ہندوستان کی اپوزیشن پارٹیاں ممتابنرجی کے خط سے متحد ہوں اور بھارتیہ جنتاپارٹی کے خلاف میدان عمل میں اتر پڑیں۔ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی کئی کوششیں پہلے بھی کی جاچکی ہیں۔لیکن یہ بیل کبھی بھی منڈھے نہیں چڑھ سکی ہے۔2019کے پارلیمانی انتخاب سے قبل بھی وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے یونائٹیڈ انڈیا کی بات کی تھی لیکن بوجوہ وہ اس پر قائم نہ رہ سکیں، اب جب کہ مغربی بنگال میں انتخابات ہورہے ہیں تو ممتابنرجی نے چٹھی لکھ کر اتحاد کی اپیل کی ہے۔ ہر چند کہ چٹھی میں درج نکات حقیقت ہیں مگر چٹھی لکھے جانے کا وقت بتارہاہے کہ ممتابنرجی کی اتحاد کی خواہش کے پیچھے بھی کچھ ہے۔یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ انتخاب کے بعد حکومت سازی کیلئے مطلوب تعداد پوری کرنے کی خاطر ابھی سے وہ کانگریس اور بایاں محاذ کو چارہ ڈال رہی ہیں۔
اتحاد چاہے سیاسی ہو یا معاشرتی اس کیلئے خلوص نیت شرط ہوتی ہے۔فریقین میں اشتراک عمل ضروری ہوتا ہے مگر ممتابنرجی کے معاملات میں یہ دونوں چیزیں مشکوک نظرآرہی ہیں۔ایسے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ اپوزیشن لیڈران دیدی کی چٹھی کو سنجیدگی سے لیں گے۔
[email protected]