ارتقائی روحانیت کی سرزمین، جسے عالمی فلاح و بہبود کے جذبات کی کھاد دی گئی، جسے پائیدار ترقی کے پانی سے سینچ کر زرخیز بنایا گیا۔ اسی فخریہ روایت کی زمین پر پہلے کمیونزم کا نظریہ پروان چڑھا اور پھر نظریاتی ندی کے وسطی دھارا کی ترقی ہوئی۔ اس دور میں سیاسی تجسس،ہلچل، زلزلہ اور ہنگامہ آرائی سب تھا، لیکن نظریاتی دھارے کے کنارے پر خاموشی تھی۔ 2016 تک ملک کے مشرقی کنارے کے سب سے بڑے صوبے کی سیاست کو لے کر شاید ہی کسی کو اندازہ رہا ہوگا کہ بھدرلوک کہے جانے والے مغربی بنگال میں ایسا طوفان تیار ہورہا ہے جو ملک کی آنے والے سیاست کی دَشا اور دِشا کا فیصلہ کرے گا۔ اب یہی طوفان اپنی لامحدود رفتار کے ساتھ مغربی بنگال کے کونے کونے تک پہنچ چکا ہے۔
’لال سلام‘، بنگلہ مانش‘، ’جے بنگلہ‘ کی منزلوں سے سیاست کی ریل گاڑی آگے بڑھ کر ہندوتو کے لازوال جوش والی پٹری پر دوڑ رہی ہے۔ نئی منزل ’جے ماں کالی‘، ’جے ماں درگا‘، ’جے شری رام‘ اور ’جے ہنومان‘ ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اچانک مغربی بنگال کی تاریخی زمین پر ایسا کیا ہوا، جو سب کچھ بدلہ بدلہ سا محسوس ہونے لگا ہے؟ جواب ہے کہ 2016تک بی جے پی کی سیاست کے لیے جس مغربی بنگال کی سیاسی زمین بنجر کی مانند تھی، مشرق کے اسی کنارے پر بھگوا پرچم آہستہ آہستہ بلند ہوتا گیا۔
ممتابنرجی نے سنگور کی لڑائی جیت کر بایاں محاذ کا تقریباً ساڑھے تین دہائی پرانا سیاسی قلعہ منہدم کیا، نندی گرام کی جنگ جیت کر ترنمول کانگریس کے قلعہ کے لیے بے حد مضبوط زمین تیار کی، لیکن انہیں بھنک بھی نہیں لگی اور ایک کیڈر پر مبنی پارٹی نے اس قلعہ کی بنیاد کو کھوکھلا کردیا۔ مغربی بنگال کے الیکشن میں پہلے دو مراحل میں 80فیصد سے زیادہ ووٹنگ، بی جے پی کی ریلیوں میں بھاری بھیڑ، الیکشن سے پہلے بائیں محاذ اور ٹی ایم سی کے لیڈروں کا بی جے پی میں شامل ہونا، یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا ہے، بلکہ یہ برسوں کی محنت کا نتیجہ ہے جس کی شروعات دو دہائی سے قبل ہوگئی تھی۔ حالاں کہ اس دور میں دائیں بازو کے اثر کا راستہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ نے بنانا شروع کیا تھا، لیکن ممتابنرجی کے برسراقتدار آنے کے بعد اس راہ کو آسان بنایا بی جے پی کے اس صدر نے جس نے پارٹی میں کیڈر کو سب سے اوپر سمجھا اور اس کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہدف مقرر کیا۔
2014میں امت شاہ بی جے پی کے قومی صدر بنے، جس کے بعد انہوں نے پارٹی کیڈر پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ نتیجتاً جس پارٹی کو کبھی ملک کی ہندی بولنے والی بیلٹ کی پارٹی کہا جاتا تھا، اس نے کشمیر سے کیرالہ اور کچھ سے کام روپ تک کامیابی کے مراحل طے کیے، لیکن مشرقی اور جنوبی حصہ بنیاد کے فقدان میں چھوٹتا رہا۔ اس لیے کامیابی کی چوٹی کی جانب بڑھنے کے لیے امت شاہ کی قیادت میں پہلا ہدف مشرقی حصہ بنا۔ یہاں بی جے پی کے سامنے جو چیلنج آیا، وہ تھا بنگلہ ثقافت اور بنگلہ مانش کا مزاج اور اکھڑپن جس میں آہستہ آہستہ تبدیلی لاکر ایک نکتہ پر بی جے پی نے اپنا ایجنڈا ثقافت اور مذہب کے کھانچے میں بٹھا دیا۔ اس میں دہائیوں سے زمینی سطح پر نظریاتی تبدیلی لانے کا کردار سنگھ نے ادا کیا۔ وہ سنگھ جس نے 90کی دہائی میں مغربی بنگال میں اپنی موجودگی درج کروائی، معاشرتی اور مذہبی کاموں کے ذریعہ گاؤں گاؤں تک گرفت مضبوط کی۔ 1998میں 10شاکھاؤں کے ذریعہ شروع ہوا کام 2016تک ایک ہزار688شاکھاؤں کی توسیع سے کونے کونے تک پھیل گیا اور موجودہ وقت میں یہ تعداد 2ہزار سے کہیں زیادہ ہوگئی۔ سنگھ پریوار کی علاقائی توسیع کا فائدہ بی جے پی کو ملا۔ اپنی صدارتی مدت میں امت شاہ نے کیلاش وجے ورگریے کو مغربی بنگال بھیجا، جو سنگھ اور پارٹی کے مابین ایک پل بنے اور پھر کیڈر پر مبنی پارٹی کے نظریاتی انقلاب کا آغاز ہوا، جو بعد میں بھائی-بھتیجے واد اور تشٹی کرن کی سیاست پر حاوی ہوا۔
شروعاتی دور کے بعد سے ہی جس طرح ٹی ایم سی اور بی جے پی کے مابین گھمسان عروج پر پہنچ گیا ہے اسے دیکھ کر تو یہی لگتا ہے ایک کیڈر پر مبنی پارٹی کی برسوں کی تپسیا کا رنگ مغربی بنگال پر چڑھنے لگا ہے۔ الیکشن کے نتائج تو 2مئی کو آئیں گے لیکن اس سے پہلے بی جے پی کے حوصلے دعوؤں کی شکل میں بلند ہوتے نظر آرہے ہیں۔ تو کیا 2016میں محض3نشستیں جیتنے والی پارٹی کا تصور مغربی بنگال میں صحیح معنی میں حقیقت کی شکل اختیار نظر آرہا ہے؟
امت شاہ کے قدم مغربی بنگال میں بالکل صحیح سمت میں اٹھے تھے، اس لیے نئے صدر جے پی نڈا نے بھی انہی کے نقش قدم پر چلنا شروع کیا۔ ہندوتو کا ایجنڈا ثقافت کے سانچے میں امت شاہ نے فٹ کیا تو جے پی نڈا نے ممتا کے مسلم تشٹی کرن کے ہتھیار کی دھار کو بے اثر کرنے کے لیے ایک ایسے فرقہ کو اپنی جانب راغب کیا جو ٹی ایم سی کے سیاسی ایجنڈے پر بھاری پڑا اور یہ فرقہ ہے متوآ جو مغربی بنگال کی70نشستوں پر فیصلہ کن کردار نبھاتا ہے۔ متوآ برادری ممتابنرجی کا روایتی ووٹ بینک سمجھا جاتا ہے لیکن اشارے تو اس بات کے مل رہے ہیں کہ اس مرتبہ وزیراعظم نریندر مودی کے بنگلہ دیش دورہ میں متوآ فرقہ کے تیرتھ میں جانے سے نہ صرف اس فرقہ کے ووٹ بی جے پی نے اپنے حق میں کیے بلکہ ممتابنرجی کے ووٹ بھی کاٹ لیے۔مغربی بنگال میں پہلے دو مراحل کے الیکشن میں ووٹنگ فیصد میں ہوئے اضافہ کو متوآ فیکٹر سے بھی وابستہ کرکے دیکھا جارہا ہے۔ عموماً ووٹنگ کے فیصد میں تب اضافہ ہوتا ہے جب حکمراں مخالف لہر ہو یا عوام تبدیلی کا ذہن بنا چکے ہوں۔ مغربی بنگال میں تقریباً ڈھائی دہائی تک کانگریس، 34سال تک لیفٹ اور ایک دہائی سے ممتابنرجی کی حکومت رہی ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بنگال میں اقتدار میں تبھی تبدیلی ہوتی ہے جب بنگال کا ووٹر طے کرلے۔ اس لیے اشارے قوی ہیں کہ ٹی ایم سی مخالف لہر بی جے پی کے رُخ کے ساتھ ہے۔ اسے مغربی بنگال کی ہی ایک مثال سے سمجھئے- 2011کے الیکشن میں سی ایم بدھ دیو بھٹاچاریہ کے خلاف لہر میں تقریباً 84فیصد ووٹنگ ہوئی تھی جس کے بعد ممتابنرجی کو اقتدار حاصل ہوا تھا۔ لیکن2016میں ووٹنگ کا فیصد تقریباً 82فیصد ہی رہا اور ممتابنرجی دوبارہ اقتدار میں آئیں۔ لیکن اب مرحلہ در مرحلہ ووٹنگ کا فیصد بڑھتا جارہا ہے۔ بی جے پی خیمہ جہاں اسے اپنے حق میں بتارہا ہے وہیں حکمراں ترنمول کانگریس اسے ممتا حکومت کی مقبولیت سے منسلک کرکے دیکھ رہی ہے۔
مغربی بنگال میں دو حریفوں کی زبردست جدوجہد کے درمیان الیکشن کمیشن کے غیرجانبدارانہ کردار نے بھی ایک الگ طرح کا ماحول دیا ہے۔ 8مراحل میں ووٹنگ کے فیصلے پر برسراقتدار ٹی ایم سی نے سوال تو اٹھائے لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ فیصلہ گزشتہ کچھ برسوں میں ووٹنگ کے وقت بڑھے پرتشدد واقعات کو دھیان میں رکھ کر لیا گیا ہے جس کا فائدہ ووٹروں کو ملا۔ ایک کھلی فضا میں پرامن طریقے سے دو مراحل کے الیکشن گزر گئے اور آگے بھی ایسی ہی حالت بنی رہی تو ووٹنگ کا فیصد پرانے سبھی ریکارڈ توڑ سکتا ہے جو جمہوریت کے لیے اچھے اشارے ہوں گے۔
شروعاتی دور کے بعد سے ہی جس طرح ٹی ایم سی اور بی جے پی کے مابین گھمسان عروج پر پہنچ گیا ہے اسے دیکھ کر تو یہی لگتا ہے ایک کیڈر پر مبنی پارٹی کی برسوں کی تپسیا کا رنگ مغربی بنگال پر چڑھنے لگا ہے۔ الیکشن کے نتائج تو 2مئی کو آئیں گے لیکن اس سے پہلے بی جے پی کے حوصلے دعوؤں کی شکل میں بلند ہوتے نظر آرہے ہیں۔ تو کیا 2016میں محض3نشستیں جیتنے والی پارٹی کا تصور مغربی بنگال میں صحیح معنی میں حقیقت کی شکل اختیار نظر آرہا ہے؟ وہ تصور جو بی جے پی کے سینئر لیڈر پرمود مہاجن نے بھی کیا تھا۔ انہوں نے 2004کے لوک سبھا الیکشن میں شری گنگانگر پارلیمانی حلقہ میں کہا تھا کہ ’’وکاس کی لکشمی نہ تو پنجے پر بیٹھ کر آتی ہے، نہ ہی سائیکل اور ہاتھی پر، وہ کمل کے پھول پر وراجمان ہوتی ہے۔‘‘ شاید مغربی بنگال وکاس کی لکشمی کا تصور اسی طور پرکررہا ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)