ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
ہندوستان کی سیاست میں اس وقت کئی دلچسپ تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں،اس بات سے تو شاید ہی کوئی انکار کر سکے کہ مرکز کی مودی سرکار نعرہ تو سب کے ساتھ سب کے وکاس کا لگا رہی ہے لیکن وہ جمہوریت کے پس پردہ اپنے ایجنڈوں کو نافذ کر رہی ہے، اس کے لیے وہ قانون کا، مشنری کا اور ایجنسیوں کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار بنگال کے الیکشن کی مہم مودی جی نے بنگلہ د یش جاکر چلائی ہے، یعنی تیر وہاں چلائے اور نشانہ مغربی بنگال کی سیاست پہ لگایا، یہی وجہ رہی کہ اس مرتبہ بنگال کی سیاست سے بنگلہ دیش کا ایشو غائب رہا، لیکن اس سے زیادہ دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ بنگال الیکشن میں پاکستان کی بھی گونج نہیں سنائی دی، گلہ پھاڑنے والے ٹی وی اینکر بھی سوال نہیں پوچھ رہے ہیں اور بھکت بھی خاموش ہیں، جبکہ مودی جی پاک دوستی میں بچھے جارہے ہیں، خیر امن کی باتیں اور پڑوسیوں میں دوستی اچھی بات ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ابھی وہ دوستی کر رہے ہیں اور کل پھر جب چاہیں گے تو اسی کو الیکشن کا ایشو بنائیں گے، کوئی مسلمان پاکستان کا نام بھی لے لے گا تو اسے دیش دروہی قرار دے دیں گے، بہر حال یہ تو ہوناہی تھا، ایک طرف چین کے بڑھتے قدم، دوسری طرف ٹرمپ کی رخصتی اور بائیڈن انتظامیہ کا چین کو لے کر سنجیدہ ہونا، اس کے لیے بنیادی ضرورت تھی کہ پاکستان کے ساتھ نار ملائزیشن کیا جائے سو اس کی ابتدا ہوگئی۔
تمام سیکولر پارٹیوں کیلئے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنی شناخت کو ہی باقی رکھیں، ہندوستان کے آئین اور آپسی بھائی چارہ پر یقین رکھیں اور آگے بڑھ کر فرقہ پرستی کا مقابلہ کریں، ورنہ ہندوتو ثابت کرنے کے چکر میں ان کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا بلکہ ان کا وجود بھی ختم ہوجائے گا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ سیکولر و کمیونل سب ایک ہوجائیں گے،ہندوتو کے علمبردار راج کریں گے اور سافٹ ہندوتو کے ذریعہ خود کو ہندوتو ثابت کرنے والے پیدل ہوں گے جنھیں پوچھنے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ایک طرف مرکزی حکومت پاکستان جیسے دشمن ملک سے دوستی کا ہاتھ بڑھا رہی ہے، دوسری طرف اندرون ملک اسلامو فوبیا کا جن بوتل سے باہر ہے، تعجب ہے کہ راجدھانی دہلی میں بیٹھ کر نرسمہا نند سروتی پریس کانفرنس کرتا ہے اور نفرت کی ساری حدیں پار کر جاتا ہے، پیغمبر اسلام کی شان اقدس میں گستاخی کرتا ہے، پوری دنیا سے مسلمانوں کو مٹانے کی بات کرتا ہے، اسلحہ سازی اور جنگی تیاری کی باتیں کرتا ہے اور مرکزی حکومت کوئی نوٹس نہیں لیتی! اسلامو فوبیا کے واقعات کی ابتدا 2014کی انتخابی مہم سے ہوئی تھی، لنچنگ کے واقعات اس کی منھ بولتی دلیل ہیں، کورونا کی شروعات میں اس اسلاموفوبیا کو حکومت کے ارکان اور ملک کے میڈیا نے پورے عروج پر پہنچا دیا۔ ابھی حالیہ دنوں میں ہندوستان جیسے ملک میں جہاں کل تک ہندو-مسلم ساتھ ساتھ کھاتے پیتے اور اٹھتے بیٹھتے دیکھے جاتے تھے، وہاں یہ واقعہ ہوا کہ ایک چھوٹا سا بچہ مندر میں پانی پینے چلا گیا تو اسے بے دردی سے پیٹا گیا، ایسے میں سوال یہی ہے کہ ایک طرف اندرون ملک اسلاموفوبیا اس قدر عروج پر ہے، دوسری طرف خارجہ پالیسی میں مودی جی تیزی سے بدلاؤ لا رہے ہیں۔ خلیجی مسلم ممالک تو پہلے ہی ان کے اسٹریٹی جیکل پارٹنر تھے لیکن اب تو ہندوستان کے واحد دشمن پاکستان سے بھی دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا گیا، لیکن تعجب تو اس بات پر ہے کہ عین اس وقت جس وقت مودی جی پاکستان دوستی کی باتیں کر رہے ہیں، دیگر سیکولر پارٹیاں اپنے ہندوتو کا ثبوت پیش کر رہی ہیں۔
بی جے پی نے 2014میں جس طرزِ سیاست کا آغاز کیا تھا، اس میں اس کو مکمل طور سے کامیابی حاصل ہوچکی ہے، اب آپ ہر شخص کو اپنی بھکتی ثابت کرتا ہوا پائیں گے اور عجب بات یہ ہے کہ دیش بھکتی ثابت کرنے کے لیے ہندوتو کاوفا دار ہونا ضروری ہے۔ابھی دوچار روز پہلے کی بات ہے کہ سوشل میڈیا پر اکھلیش یادو کے ایک ٹوئٹ کولے کر ہنگامہ ہوا۔ دراصل انھوں نے سرسید کے یوم وفات پر ان کو خراج پیش کرنے کے لیے ٹوئٹ کیا اور ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘‘ کے بجائے صرف ’’علیگڑھ یونیورسٹی ‘‘ لکھا، صارفین نے اعتراض کیا کہ جب وہ ’’بنارس ہندو یونیورسٹی‘‘ لکھ سکتے ہیں تو پھر علی گڑھ یونیورسٹی کے ساتھ مسلم کیوں نہیں لکھا، جواب بہت واضح ہے، یہ ہے بی جے پی کا پھیلا یا ہوا اسلامو فوبیا کہ ہر ایک اپنے کو ہندو اور ہندوپرست ثابت کرنے میں دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے، ڈر کے مارے مسلمان کا نام بھی نہیں لینا چاہتا۔ صرف گزشتہ دنوں میں پرنیکا گاندھی اور راہل گادھی کو کھل کر بات کرتے دیکھا گیا ہے لیکن ان دونوں کو بھی قدم قدم پر اپنے کو ہندو ثابت کرنا پڑا ہے،حالانکہ کانگریس میں راہل گاندھی کی صدارت اسی لیے طے نہیں ہوپارہی ہے کہ راہل گاندھی آر ایس ایس کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتے ہیں اور کانگریس میں موجود سنگھی عنصر کی شکل میں پرانی قیادت کو ان کی جارحانہ تنقید پسند نہیں ہے۔ بہرحال اکھلیش کے چاہنے والوں نے ان کا دفاع کیا کہ ان سے چوک ہوگئی، لیکن ظاہر ہے کہ اس عذر لنگ کو قبول نہیں کیا جا سکتا، ایک پارٹی کے سربراہ، صوبے کے سابق وزیراعلیٰ سے اتنی بڑی چوک کیسے ہوسکتی ہے، ہوبھی جائے تو اس کو قبول کرنا مشکل ہے، اس لیے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میںاس لفظ ’مسلم‘ ہی کا سارا مسئلہ ہے، وہ ایک تاریخی اور اقلیتی کردار کی علامت ہے، وہ سیاسی اور قانونی لڑائی و کشمکش کا حصہ ہے، ایسے بھی اکھلیش یادو گزشتہ دنوں مسلم مسائل پر خاموش ہی رہے ہیں۔ اترپردیش اسمبلی انتخابات سے قبل دونوں باپ بیٹے ایک دوسرے پر بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کا الزام لگارہے تھے، مظفر نگر فسادات میں تمام تر حکومتی وسائل رکھنے کے باوجود ان کا کردار مکمل طورپر منفی تھا، ابھی حال ہی میں ان کے متعلق یہ خبر آئی ہے کہ انھوں نے پارٹی کی مسلم قیادت کو ملی مسائل پر گفتگو کرنے سے منع کیا ہے، ملی قیادتوں سے دوری بنائی ہے اور مسلم امیدواروں کو اتارنے میں بھی وہ نظرثانی کر رہے ہیں، تاکہ ان کے مطابق بی جے پی پولرائزیشن میں کامیاب نہ ہوسکے۔
یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ بی جے پی کو پولرائزیشن سے کوئی نہیں روک سکتا، روزانہ رام مندر کی تعمیر کی تصویر یں ٹی وی پر دکھائی جاتی ہیں، ایودھیا میں ہزاروں دیے روشن دکھائے جاتے ہیں جو اس کے پولرائزیشن کے لیے کافی ہیں، مسئلہ تو ان پارٹیوں کا ہے جو خود کو سیکولر کہتی ہیں، انھیں اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ ان کا وجود سیکولرزم سے ہی وابستہ ہے، انھیں سافٹ ہندوتو سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں بلکہ خود کو ہندوثابت کرنے کی ہوڑ میں وہ اپنا وجود کھو دیں گی، ان کا سیاسی کریئر ختم ہوجائے گا، کیا اکھلیش یادو کو معلوم نہیں ہے کہ ا ن کی کامیابی کا دارومدار مسلم ووٹ اور سیکولر ہندو پر ہے، جو ہندوتو کے دیوانے ہیں وہ ہندوتوکو ہی چنیں گے، انھیں سافٹ ہندوتو سے کیا لینا دینا، اسی سافٹ ہندتوکی کوشش خود ان لوگوں کے لیے نقصان دہ ہوگی جنھوں نے اب تک اپنی پہچان سیکولر بنائی تھی۔ اکھلیش یادو کے ٹوئٹ کا جواب دیتے ہوئے کملیش نام کے ایک آدمی نے بہت صاف بات لکھی ’اکھلیش جی ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ‘‘پورا نام لکھئے ڈریے مت، ہند وتو آپ کو ویسے بھی ووٹ نہیں دے گا آپ اپنے ووٹر کو ناراض مت کیجیے،رہ گئی سماج وادی پارٹی تو وہ چاہے جس قدر زور لگا لے مگر بغیر مسلم ووٹ کے وہ کامیابی کی ابتدائی منزل بھی نہیں پاسکتی، جب بات ہندوتو کی ہو گی تو اس کو خود اس کا یادو ووٹ نہیں ملے گا، جس کا تجربہ اسے اچھی طرح ہوچکا ہے، اس نے اب تک جو سفر طے کیا ہے اس کی کامیابی کے پیچھے صرف مسلمان کا کردار رہا، اس لیے تمام سیکولر پارٹیوں بشمول سماج وادی پارٹی کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنی شناخت کو ہی باقی رکھیں، ہندوستان کے آئین اور آپسی بھائی چارہ پر یقین رکھیں اور آگے بڑھ کر فرقہ پرستی کا مقابلہ کریں، ورنہ ہندوتو ثابت کرنے کے چکر میں ان کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا بلکہ ان کا وجود بھی ختم ہوجائے گا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ سیکولر و کمیونل سب ایک ہوجائیں گے،ہندوتو کے علمبردار راج کریں گے اور سافٹ ہندوتو کے ذریعہ خود کو ہندوتو ثابت کرنے والے پیدل ہوں گے جنھیں پوچھنے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔
[email protected]