Image:RRS Urdu

ہندووستان اور پاکستان باہمی تعلقات استوار کرنے کے لیے ٹھوس قدم اٹھا رہے ہیں، اس لیے فطری طور پر یہ بات تاجروں کے لیے امید افزا ہونی چاہیے تھی کہ اس کے مثبت اثرات دونوں ملکوں کی تجارت پر پڑیں گے۔ تنویر ملک کی رپورٹ کے مطابق، ’زراعت پاکستان کی معیشت میں دوسرا بڑا شعبہ ہے جو جی ڈی پی میں21 فیصد حصہ ڈالتا ہے اور ملک کی لیبر فورس کے 45 فیصد حصے کو روزگار فراہم کر رہا ہے۔ پاکستان میں صنعت کے نمایاں شعبے یعنی ٹیکسٹائل، شوگر ملس اور کھانے پینے کی چیزیں بنانے والے بھی اپنے خام مال کے لیے اس شعبے پر انحصار کرتے ہیں، تاہم زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان اس وقت اپنی ضروریات کے لیے کپاس، چینی اور گندم بیرون ملک سے در آمد کر رہا ہے۔‘ ان کے مطابق، ’پاکستان میں کیش کراپس (نقد آور فصلیں) یعنی گندم، کپاس، چاول اور گنے (چینی) میں سے صرف چاول کے علاوہ باقی تینوں چیزیں درآمد کی جا رہی ہیں۔ زراعت، اجناس اور ملک کے بڑے انتظامی عہدوں پر کام کرنے والے افراد کے مطابق ماضی میں پاکستان کبھی گندم، کبھی کپاس اور کبھی چینی تو درآمد کرتا رہا ہے، تاہم بیک وقت گندم، چینی اور کپاس کی درآمد ملک کی تاریخ میں انوکھا واقعہ ہے۔‘ اجناس کی پیداوار میں جو اضافہ ہونا چاہیے تھا، وہ اضافہ نہ ہونے کی ایک وجہ تو پاک سرکار کا کسانوں کو خاطر خواہ سبسڈی فراہم نہ کرنا ہے اور کسانوں کی زراعت کے نئے طریقے کو نہ اپنانا ہے۔ لوگوں کو راحت دینے کے لیے پاک حکومت نے 31 مارچ کو بھارت سے کپاس اور دھاگہ درآمد کرنے کی اجازت دے دی تھی اور اس کے لیے کوئی حد متعین نہیں کی تھی، البتہ بھارت سے 5 لاکھ ٹن تک ہی چینی درآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔ وزیر خزانہ حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے دنیا بھر سے چینی درآمد کرنے کی بات کی گئی لیکن اس دوران معلومات ملیں کہ انڈیا میں چینی کی قیمت پاکستان کے مقابلے میں بہت کم ہے، اس لیے انڈیا سے 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔‘وزیرموصوف نے یہ اطلاع بھی دی تھی کہ ’ملک میں چینی کی سالانہ پیداوار 55 سے 60 لاکھ ٹن ہے جو کہ ملکی ضرورت کو فی الحال پورا نہیں کر رہی۔‘دوسری جانب کپاس درآمد کرنے کی اجازت دینے کی وجہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کے دور میں دیگر ملکوں کو پاکستان کی ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی برآمد میں اضافہ ہوا ہے مگر اس بار وہاں کپاس کی پیدوار اچھی نہیں ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’ہندوستان سے کپاس کی درآمد کی اجازت نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کو امریکہ، برازیل اور وسطی ایشیا سے مہنگے داموں پر اس کی خریداری کرنا پڑتی ہے۔‘ان باتوں سے یہ اندازہ ہوا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے تجارتی تعلقات بحال ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی مگر ایک ہی دن میں حالات بدل گئے۔
پاکستان نے ہندوستان سے تعلقات کی بحالی کا فیصلہ مؤخر کر دیا۔ یکم اپریل کو پاک وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’کابینہ نے قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے انڈیا سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کی تجویز کو مؤخر کر دیا۔‘ قریشی کے مطابق، ’ایک تاثر یہ ابھر رہا تھا کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات معمول پر آچکے ہیں اور تجارت کھل گئی ہے۔۔۔۔اس تاثر پر وزیر اعظم عمران خان اور کابینہ کی واضح اور متفقہ رائے یہ تھی کہ جب تک انڈیا، (ریاست کشمیر کی آئینی حیثیت سے متعلق) 5 اگست2019 کے یکطرفہ اقدامات پر نظرثانی نہیں کرتا اس وقت تک اس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ممکن نہیں ہو گا۔‘ لیکن شاہ محمود قریشی کی بات آسانی سے ہضم ہونے والی نہیں ہے، کیونکہ رپورٹ کے مطابق، ’پاک وزیر اعظم نے وزارت تجارت کی سمری خود دیکھ کر اسے (اشیا امپورٹ کرنے کی فہرست کو) اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کی منظوری دی تھی مگر کابینہ میں اس معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔‘اچانک ہونے والے اس ڈیولپمنٹ سے اس شبہ کا پیدا ہونا فطری ہے کہ اس تبدیلی کے پیچھے کوئی ہے۔ چین کے پاکستان سے اچھے تعلقات ہیں اور پاکستان اسے سکھ دکھ کا ساتھی مانتا ہے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ پردے کے پیچھے کہیں چین بھی ایک رول ادا کر رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو دونوں ملکوں کے تعلقات کی استواری سے زیادہ امید باندھنا کیا صحیح ہوگا؟

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS