سعودی عرب میں ہندوستانی سفیر
سفیرملک کا ترجمان ہوتا ہے۔ اس کی مثبت اور پاک شبیہ سفارت کاری میں بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ دو ملکوں کے بہتر تعلقات کا دار و مدار بڑی حد تک اسی پر ہوتا ہے تو بیرون ملک اپنے ملک کے لوگوں کو سہولتیں فراہم کرنے میں اس کا رول ناقابل تردید ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سفیر کو مختلف شعبوں پر ایک ساتھ توجہ دینی ہوتی ہے۔ وہ کہیں یہ کہہ کر بچ نہیں سکتا کہ اسے معلوم نہیں تھا۔ اسے محتاط رہنا پڑتا ہے تاکہ اس پر شبہات پیدا نہ ہوں، چاہے آمدنی سے زیادہ جائیدادوں کی خریداری کا ہی شبہ کیوں نہ ہو۔ سعودی عرب میں ہندوستان کے سفیر ڈاکٹر اوصاف سعید کی جائیدادیں شبہ پیدا کرتی ہیں۔ سمجھا جاتا ہے کہ 2004-08 میں جدہ میں ہندوستان کے قونصل جنرل رہتے ہوئے انہوں نے نامعلوم ذرائع سے حاصل کردہ آمدنی سے 2 کروڑ، 83 لاکھ روپے کی 6 جائیدادیں خریدیں۔ قونصل جنرل، جدہ کا خاص کام حج امور اور کمرشیل سرگرمیوں کو دیکھنا ہوتا ہے۔ ذرائع کے مطابق، ڈاکٹر اوصاف سعید کو ای- احمد کی سرپرستی حاصل تھی، وہ احمد پٹیل کے کافی قریب تھے اور کمل ناتھ کے بھی کافی نزدیکی سمجھے جاتے ہیں۔
2012 میں ڈاکٹر اوصاف سعید کی طرف سے ڈکلیئرڈ اسٹیٹس کے مطابق انہوں نے آندھرا پردیش میں رنگا ریڈی ضلع کے بندریل گاؤں میں 350 اسکوائر یارڈس کے دو رہائشی پلاٹس 70 لاکھ روپے میں تو اسی رنگا ریڈی ضلع کے گوپانناپلی گاؤں میں 444.44 اسکوائریارڈس کا ایک پلاٹ 10 لاکھ روپے میں خریدا۔ حیدر آباد میں راموجی فلم سٹی کے نزدیک گریٹر ماؤنٹ ویگاس میں ڈاکٹر اوصاف سعید نے 200 اسکوائر یارڈس کے تین رہائشی پلاٹس 9 لاکھ روپے میں خریدے۔ آندھرپردیش کے محبوب نگر میں انہوں نے 464 اور 422 اسکوائر یارڈس کے دو رہائشی پلاٹس 14 لاکھ روپے میں خریدے۔ ان کے علاوہ اور جائیدادیں بھی انہوں نے خریدیں۔
حیدرآباد کے بنجارا ہلس علاقے میں الکزار پلازہ اینڈ ٹاور میں 382.55 مربع فٹ کے کامن ایریا سمیت 1339 مربع فٹ جگہ دکان نمبر 9، پہلی منزل میں 60 لاکھ روپے میں لی تو رنگا ریڈی ضلع کے پام کاؤنٹی میں ڈاکٹر اوصاف سعید نے 1.2 کروڑ روپے کی جائیداد خریدی۔ اگر ڈیلروں اور بروکروں کی آرا کے مدنظر بات کہی جائے تو متذکرہ جائیدادوں کی قیمتیں بازار کی قیمتوں سے 25 سے 50 فیصد کم ہیں۔
یہی نہیں، متذکرہ جائیدادوں کے علاوہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ ڈاکٹر اوصاف سعید نے بے نامی جائیدادیں خریدی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ متذکرہ جائیدادوں کی خریداری کے لیے پرسنل لون دکھایا گیا مگر لون کے لیے غیرقانونی طور پر دوسرے نام کا استعمال کیا گیا۔ یہ تفتیش کا موضوع ہے کہ جائیدادوں کی اصل قیمت کیا ہے اور ان کی خریداری کے لیے استعمال کی گئی رقم کے اصل ذرائع کیا ہیں۔ جہاں سے انہیں یہ پرسنل لون ملے، جائیدادیں خریدنے کے لیے جنہیں رقم دی گئی، انہیں بھی تفتیش کے دائرے میں لایا جانا چاہیے،کیونکہ یہ معاملہ بظاہر بدعنوانی اور نامعلوم ذرائع سے ہونے والی آمدنی سے جائیداد بنانے کا نظر آتا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے حج امور کو بدعنوانی سے پاک کرنے کے لیے مہم چلانے والے عبدالمعین، ولد مرحوم عبدالملک نے اس سلسلے میں وزارت خارجہ، وزارت برائے اقلیتی امور، سینٹرل ویجی لینس کمیشن اور دیگر ایجنسیوں سے تحریری شکایت کی تھی ۔ یاسر عرفات، آئی-او-، انسپکٹر آف پولیس، سی بی آئی؍ اے سی یو-وی؍نئی دلی کو ’حج امور میں بدعنوانی اور خارجی امور کی وزارت کی شمولیت‘ عنوان سے شکایت نامہ لکھا تھا تو اس میں عبدالمعین نے مکہ میں حج دفتر کے بارے میں یہ لکھا تھا کہ ’بھارت سرکار کا مکہ میں ایک دفتر تھا اور اس کا کرایہ وزارت خارجہ دیتی تھی۔ 2005 میں اوصاف سعید اور ڈاکٹر سہیل خان، قونصل حج نے ای-احمد سے سازباز کر کے اس عمارت کو تبدیل کر دیا جبکہ یہ کافی بڑی تھی اور اس کا کرایہ سالانہ 5.5 لاکھ سعودی ریال مناسب تھا۔ ‘ یہی نہیں، شکایت نامہ میں آگے الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’سہیل اعجاز خان نے اوصاف سعید کی مددسے ایک بے حد پرانی اور چھوٹی بلڈنگ سالانہ 18 لاکھ سعودی ریال پر کرایہ پر لی جبکہ پچھلے سالوں میں اس کا کرایہ سالانہ 6 لاکھ سعودی ریال تھا۔یہ بلڈنگ جلد ہی مسمار کر دی گئی۔‘
ظاہر ہے، یہ الزام ہے مگر عبدالمعین نے سنگین الزام عائد کیا ہے، اس لیے اس کی گمبھیرتا سے جانچ ہونی چاہیے تھی اور الزام ثابت ہو جانے پر کارروائی کی جانی چاہیے تھی مگر نہ جانے کیوں، وزارت خارجہ نے اس سلسلے میں کوئی اطمیان بخش کارروائی نہیں کی جبکہ اطمینان بخش کارروائی ہونے اور تفتیش ہونے سے حقائق سامنے آجاتے، اس سے یہ مثبت پیغام جاتا کہ وزارت خارجہ بدعنوانی کے معاملے کو ہلکے پن سے نہیں لیتی۔ شبہات دور کرنے کے لیے کارروائی اس لیے بھی ہونی چاہیے تھی، کیونکہ یہ بات اپنے آپ میں خود شبہ پیدا کرنے والی ہے کہ ،ذرائع کے مطابق، شکایتوں کے بعد ڈاکٹر اوصاف سعید نے اپنی کئی جائیدادوں کو ٹھکانے لگا دیا اور اب ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس تو صرف ایک ہی پراپرٹی ہے۔ تفتیش کا یہ موضوع بھی ہونا چاہیے کہ جائیدادوں کو ٹھکانے کیسے لگایا گیا، اس سے کتنی رقم حاصل ہوئی، وہ رقم کہاں خرچ کی گئی۔ تفتیش اگر نہیں ہوگی تو حقائق سامنے نہیں آئیں گے۔ ایسی صورت میں شبہات برقرار رہیں گے تو یہ خود ڈاکٹر اوصاف سعید کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا۔بڑے عہدوں پر فائز لوگوں کا صاف و شفا ف ہونا ہی کافی نہیں ہوتا، ان کی صاف و شفاف شبیہ بھی ہونی چاہیے۔
1989 بیچ کے آئی ایف ایس ڈاکٹر اوصاف سعیدکا سفارت کاری کا کریئر 30 برس پرانا ہے تو انہیں تجربوں کی بھی کمی نہیں۔ ان 30 برسوں میں ان کی زندگی اتنی آسودہ رہی ہے کہ کروڑوں کی جائیدادیں لے سکے، اپنے بیٹوں کو امریکہ بھیج کر پڑھا سکے، پچھلے سال ان کے بڑے بیٹے کی شادی کی تقریب شکاگو، امریکہ میں منعقد کی گئی تھی۔ کیا یہ سب انہوں نے واقعی خون پسینے کی کمائی سے کی یا اس میں ان کی کچھ اور محنت بھی شامل تھی؟ وزارت خارجہ سے وابستہ رہے محمد امین کے مطابق، سعودی عرب میں ہندوستان کے ’سفیر ڈاکٹر اوصاف سعید، جدہ میں کونسل تھے تو وہ بدعنوانی کے الزام میں ہٹا دیے گئے تھے۔ انہیں ای-احمد قونصل جنرل بنا کر لے آئے۔ ان پر نیا الزام یہ ہے کہ جدہ کے انڈین اسکول میں کمپیوٹر کا کانٹرکٹ حیدرآباد کے ایک فرم کو دے دیا۔ اس اسکول کے پرنسپل نے استعفیٰ دے دیا ہے۔‘ان باتوں کے باوجود ڈاکٹر اوصاف سعید کا اپنے عہدے پر رہنا یہ تو ثابت کر ہی دیتا ہے کہ وزارت خارجہ ان پر مہربان ہے مگر جواب طلب سوال یہ ہے کہ آخر کیوں مہربان ہے؟ ایک سفارت کار کے لیے صلاحیتوں سے کم اہمیت اس کی شفاف شبیہ کی نہیں ہوتی، چنانچہ شفاف شبیہ کا خیال تو رکھا ہی جانا چاہیے۔
شبہات کے دائرے میں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS