غلط فہمیوں کا ازالہ خوشحال معاشرے کا ضامن

0

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

ہندوستان تہذیب و ثقافت اور ادیان و مذاہب کا شاندار مرکز و محور ہے۔ بلکہ وطن عزیز کی خوبصورتی کو یہاں کی رنگا رنگی اور تعدد و تکثیریت نے مزید دوبالا کردیا ہے۔ اگر ہم ہندوستان کی قدیم تہذیب وتمدن کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ دونوں اقوام میں سماجی و معاشرتی طور پر بہت سے معاملات میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ چنانچہ متنوع افکار اور قدروں کے فروغ و بقاء اور ادیان و مذاہب کے مختلف و متنوع ہونے کے باوجود باہمی اتحاد و یگانگت اور وحدت انسان کا روشن و تابناک پہلو اجاگر ہوتا ہے۔ ہندوستان کی یہ روایات نہ صرف ایک دوسرے پر انحصار کا درس دیتی ہیں بلکہ امن وامان اور سکون و شانتی کی راہ میں حارج تمام رکاوٹوں کوبھی معدوم کرتی نظر آتی ہیں۔ جب ہمارا رویہ باہم مشفقانہ اور ہمدردانہ ہوگا، اخوت و بھائی چارگی، باہمی اعتماد و ارتباط اور میل جول کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے گا تو لازمی طور ہندوستانی سماج، تہذیبی،تمدنی معاشی اور اقتصادی طور پر صحتمند نظر آ ئے گا۔یہ بھی یاد رہے کہ کوئی سماج ومعاشرہ اسی وقت عروج و ارتقاء کی تمام منازل سے ہمکنار ہوپاتا ہے جب اس کے اندر یکسانیت، رواداری، انسان دوستی اور پر امن بقائے باہم کے اصولوں پر عمل کیا جاتا ہو۔ بھید بھاؤ اور تفریق و امتیاز کی پالیسیاں نہ صرف اس قوم کو زوال و پستی میں دھکیل دیتی ہیں بلکہ سچائی یہ ہے کہ ایسے معاشرے فکر وشعور اور عدل وانصاف کی دولت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں لازمی طور اپنی دیرینہ روایات کی بقاء اور وطن عزیز کی تہذیبی قدروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے یکجائیت ومرکزیت کے ساتھ جد و جہد کرنی ہوگی۔ آ ج بڑی شدومد کے ساتھ ہندوستان کا آ فاقی امتیاز یعنی کثرت میں وحدت کو نابود ومعدوم کرنے کی ناکام کاوشیں ہورہی ہیں۔ اس سے ہندوستانی معاشرے کی خوشحالی، باہم خوشگوار تعلقات اور پرکیف و پر افتخار فضا متاثر ہونے کا اندیشہ بڑھ رہا ہے۔ اس کیفیت اور عدم اعتبار اور باہمی بڑھتی خلیج کے پس پردہ وہ باتیں اور غلط فہمیاں بھی ہیں جن کو منصوبہ بند طریقے سے ہندوستانی عوام کے اندر ترویج دیا گیا۔ حتیٰ کہ آ ج تو بڑے منظم طریقے سے مسلمانوں کے خلاف غیر مناسب باتیں منسوب کی جارہی ہیں۔ ان پرنوع بنوع کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہاں کے عوام کے اندر مسلمانوں کے خلاف منفی فکر پروان چڑھ رہی ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ مسلمان وہ قوم ہے جس نے ہر دور میں اپنے وطن سے محبت اور وفاداری کا ثبوت عملی طور پر دیا ہے اور آ ج بھی اس کی انگنت مثالیں ملتی رہتی ہیں۔

وہی معاشرے اور قومیں اپنا وجود اور حیثیت کو برقرار رکھ پاتے ہیں جن کے اندر حالات کو سمجھنے، سوچنے اور غور وفکر کی صلاحیت موجود ہو۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کتنے اہلیان سیاست ہمیں مذہب اور دھرم کے نام پر استعمال کررہے ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ ان سے ہمارا رشتہ عقیدت مندانہ اور والہانہ ہے جب کہ ہمارا تعلق فکری اور نظریاتی ہونا چاہیے۔ جب فکری اور نظریاتی طور پر ہمارا باہمی رشتہ ہوگا تو یقیناً نہ کوئی ہمارے مابین غلط فہمی پھیلا سکتا ہے اور نہ ہمیں گمراہ کر سکتا ہے۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان غلط فہمیوں کو دور کریں جو مسلمانوں کی نسبت پھیلائی جارہی ہیں۔ اسی طرح ان چیزوں کا بھی سدباب ضروری ہے جو ہندوؤ ں کے متعلق غلط باتیں منسوب کی گئی ہیں۔ انہی قوموں اور معاشروں کے کارناموں کو باشعور تصور کیا جاتا ہے جن میں سماجی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کی روایات و اطوار کو پورے طور پر پروان چڑھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ بجا طور پر اب ضرورت ہے کہ عوام کے سامنے ان حقائق کو بروئے کار لایا جائے جن میں مسلم علماء وفقہاء اور دانشوروں نے اپنے ملک کے متعلق نہایت توسع اور فراخ دلی کا مظاہرہ کیاہے۔ مسلم مفکرین نے ہندوستان کے متعلق اپنے مخلصانہ جذبات کو صرف زبانی طور پر ہی پیش نہیں کیا ہے بلکہ ان کی تحریروں میں بھی والہانہ محبت و عقیدت اور وفاداری کے نمونے ملتے ہیں۔
بات صرف نفرت کے فروغ کی ہی نہیں ہے بلکہ نفرت کے زیر سایہ جو سوچ پروان چڑھتی ہے، اس کا اثر صرف وقتی نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا مکروہ اثر دیر تک رہتا ہے۔ جب سوچ بدل جاتی ہے یا کسی کے خلاف کسی کے دل میں نفرت گھر کر لیتی ہے تو اس کی کوکھ سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ گویا ایسے معاشرے نا انصافی کی علامت کے طور پر جانے جاتے ہیں اسی طرح ان کے اندر بھید بھاؤ یا اس سے وابستہ دیگر کارنامے اور شدت پسند رویے عام بات ہوجاتی ہے۔ ایسا معاشرہ معاشی،اقتصادی اور فکری طور پر بھی مفلوج ہوجاتا ہے۔ اس لیے کسی بھی معاشرے کو صالح خطوط اور پاکیزہ تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے لازمی طور پر معاشرے میں پھیلی غلط فہمیوں کو دور ہی کرنا کافی نہیں ہوگا بلکہ آج ہندوستان کی دونوں برادریوں کے لیے ایسا لٹریچر تیار کرنا ہوگا جو حقائق و دلائل سے آ راستہ ہو۔ جانبداری اور طرفداری سے کوسوں دور ہو۔ اسی کے ساتھ آ ج جو باتیں ایک دوسرے کے خلاف غلط یا بے بنیاد منسوب کی جارہی ہیں، ان میں کتنی صداقت ہے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ ہمیں لازمی طور پر ان افراد وعناصر کو سنجیدگی سے سمجھنا ہوگا جو اس کے پس پردہ کام کررہے ہیں۔ آ خر وہ کیوں دانستہ طور پر ملک کی عظیم ترین روایات پر نفرت و بیزاری اور تعصب و تنگ نظری کی چادر ڈال دینا چاہتے ہیں، ہمیں تجزیہ تو یہ بھی کرنا ہوگا کہ سیاست اور مذہب کو آ میز کرکے آج بڑی تیزی سے ملک کے عوام کا استحصال کیا جارہا ہے۔ مذہب و سیاست کی جو تعبیر پیش کی جارہی ہے، اس کے ان جدید گوشوں اور تباہ کن نظریات سے سے ہندوستانی معاشرے کو محفوظ و مامون رکھنا ہوگا۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس ملک میں ہندو مسلم ایک برتن میں کھانے اور ایک چھت کے نیچے رہنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے تھے، اب صورتحال یکایک برعکس کیوں ہوگئی ہے؟ یا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ ذمہ داری ہمارے قائدین پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کی کوششیں تیز کریں جن سے کسی بھی طرح کا دونوں کمیونٹی کے مابین امتیاز پایا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اسے دور کیا جائے۔ یاد رکھئے غلط فہمی غلط فہمی ہوتی ہے اور اس سے کوئی بھی معاشرہ متاثر ہوسکتاہے۔ اس سے بچنے اور معاشرے کو پر امن بنانے کے لیے لازمی ہے کہ ہم بلا تحقیق و تفتیش کے کسی بات پر اعتماد و بھروسہ نہ کریں۔ اسی طرح غلط فہمیوں کورواج دینے میں آ ج سوشل میڈیا یا جانب دار ذرائع ابلاغ کا بنیادی کردار ہے۔ سماجی رابطوں کی سائٹس پر کسی کے خلاف مواد کو یوں ہی تشہیر کردیا جاتاہے۔ اسی طرح ذرائع ابلاغ پرآ ج ان مسائل پر مباحث کو زیادہ دکھا یا یا زیر بحث لایا جارہاہے جن میں مسلم اور ہندو دونوں برادریوں میں نہ صرف غلط فہمی پھیلے بلکہ وہ ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہو سکیں۔ سماج میں خوشحالی اور امن جیسی روایات کے فروغ کے لیے پہلا کام یہ کرنا ہوگا کہ ایک دوسرے پر اعتماد و یقین کیا جائے۔ اسی طرح اگر کسی کی جانب غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے تو پہلے صاحب معاملہ سے یا اپنی تحقیق کی بنیاد پر اس کی تصدیق کرلینا ضروری امر ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یقینا معاشرے، برادریوں اور قوموں کے مابین خلیج بڑھتی ہی رہے گی اور اس کا نتیجہ نہ ہمارے لیے اور نہ ہی ہمارے ملک اور ہندوستانی سماج کے لیے خوش آ ئند ہوگا۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ مفاد پرست عناصر اور موقع پرست سیاستداں اپنے مفادات کے حصول کی خاطر معاشرے میں جس طرح نفرت اور تعصب کی کاشت کررہے ہیں، اس کا ازالہ کرنا اور ان کے عزائم کو بھانپنا بھی ہمارے سماج کی ذمہ داری ہے۔ وہی معاشرے اور قومیں اپنا وجود اور حیثیت کو برقرار رکھ پاتے ہیں جن کے اندر حالات کو سمجھنے، سوچنے اور غور وفکر کی صلاحیت موجود ہو۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کتنے اہلیان سیاست ہمیں مذہب اور دھرم کے نام پر استعمال کررہے ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ ان سے ہمارا رشتہ عقیدت مندانہ اور والہانہ ہے جب کہ ہمارا تعلق فکری اور نظریاتی ہونا چاہیے۔ جب فکری اور نظریاتی طور پر ہمارا باہمی رشتہ ہوگا تو یقینا نہ کوئی ہمارے مابین غلط فہمی پھیلا سکتا ہے اور نہ ہمیں گمراہ کر سکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS