خاورحسن
یہکہا جاتا ہے مگر اکثر ایسا سمجھا نہیں جاتا کہ لڑکی سماج کی بیٹی ہوتی ہے، ورنہ جہیز کے لالچی سماج میں نہیں ہوتے، منھ مانگا جہیز یا منھ مانگی رقم نہ ملنے پر بیٹیاں ماری نہیں جاتیں یا وہ خود ہی مرنے پر مجبور نہیں ہوتیں۔ لوگوں کو اگر یہ ڈر ہوتا کہ مذموم مطالبہ ان کے سماجی بائیکاٹ کی وجہ بن جائے گا تو جہیز مانگنے کا خیال دل میں آنے نہیں دیتے۔ یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ اخلاق کی باتیں بس باتیں ہی ہیں۔ طلاق کے بعد نان و نفقہ دینے کے معاملے پر ہنگامہ مچ جاتا ہے، جہیز لینے اور دینے کے معاملے پر ہنگامہ نہیں مچتا۔ یہ خیال نہیں کیا جاتا کہ غریب آدمی کہاں سے دے گا جہیز؟ اور اگر جہیز نہیں دے گا تو کیا اس کی بیٹی بیاہی نہیں جائے گی؟ اور اگر بیاہ دی جائے گی تو کیا اسی طرح ستائی جائے گی جیسے عائشہ مکرانی ستائی جاتی تھی اور وہ اتنی مجبور ہو گئی کہ اسے زندگی ختم کرنی پڑی؟
معاملہ اگر لڑکی کا ہو تو مذہب کا پورا خیال رکھا جاتا ہے جیسے دین مہر لڑکے کی اوقات کے مطابق ہی ہو مگر معاملہ اگر لڑکے کا ہو تو مذہب کا خیال نہیں آتا۔ منگنی کے نام پر لڑکے کو سونے کی انگوٹھی دی جاتی ہے تو اعتراض کتنے لوگ کرتے ہیں کہ یہ مذہب کے خلاف ہے۔ مذہب کا خیال اس وقت کیوں نہیں آتا جب لڑکی پسند کرنے کے بعد کہا جاتا ہے، ’ہماری کوئی مانگ نہیں، البتہ لڑکے کی ایک خواہش تھی۔‘ اور پھر کسی مہنگی کار یا موٹرسائیکل کی بالواسطہ مانگ رکھی جاتی ہے۔ مذہب کا خیال اس وقت بھی نہیں آتا جب کہا جاتا ہے، ’ہماری کوئی مانگ نہیں، بس براتیوں کی آؤ بھگت کا خاص خیال رکھئے گا، یہ دونوں خاندانوں کی عزت کا سوال ہے۔‘ اگر کسی لڑکے کے والدین جہیز نہیں لینا چاہتے تو لڑکی کے والدین بضد ہو جاتے ہیں، ’اپنی بچی کو دے رہے ہیں۔‘ ، ’ اپنی خوشی سے دے رہے ہیں۔‘، ’میرا بھی ارمان ہے کہ اپنی بچی کو کچھ دیں۔‘ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ارمان پورا کرنے کے چکر میں وہ ایک غلط رسم کو بڑھاوا دے رہے ہیں، غریب لڑکیوں کے والدین ارمان نکالنے کے نام پر جہیز کہاں سے دیں گے؟ عائشہ جیسی لڑکیوں کی زندگی کی حفاظت اگر کرنا ہے تو لوگوں کو جہیز لینے سے ہی نہیں روکنا ہوگا، جہیز دینے سے بھی روکنا ہوگا۔ انہیں یہ بتانا ہوگا کہ ایک غلط رسم کو کسی بھی نام پر بڑھاوا دیا جائے، اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔
بحث اب اس پر ہونی چاہیے کہ کیا اکیسویں صدی کے ہندوستان میں کسی لڑکی کو اتنا مجبور ہونا چاہیے؟ کیا یہ شکست صرف عائشہ کے گھر والوں کی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو بچا نہیں پائے یا یہ شکست اس سماج کی بھی ہے جو بیٹی کو مذہب، ذات اور خطے تک محدود کرکے نہیں دیکھتا؟ یہ سوال جواب طلب ہے کہ ایک بہو جہیز کے لیے ستائی جاتی ہے تو کیا اس کی چیخیں در و دیوار میں جذب ہو جاتی ہیں کہ سماج کو پتہ نہیں چل پاتا یا سماج کے کان ایسی چیخوں کو سننے کے لائق ابھی نہیں بن پائے؟
جہیز دینے کا حکم اللہ نے نہیں دیا ہے لیکن لوگ جہیز دیتے ہیں، رقم دیتے ہیں۔ اللہ نے وراثت میں لڑکیوں کو حصہ دینے کا حکم دیا ہے لیکن کئی لوگ جہیز کے خیال سے وراــثت میں حصہ نہیں دیتے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے ناانصافی بھی نہیں مانتے۔ اس سے یہی لگتا ہے کہ کئی لوگ اپنی سہولت کے حساب سے مذہب کو مانتے ہیں، اس لیے یہ بات مانی نہیں جا سکتی کہ حالات سے مجبور عائشہ کا انتہائی قدم اٹھانا جہیز کے لین دین کو ختم کرنے کی وجہ بن جائے گا۔ یہ وجہ نہیں بنے گا،اسے ختم کرنے کی مہم چلانی ہوگی۔ بیٹی سماج کی ہوتی ہے تو چاہے کسی مذہب کے ماننے والے کی ہو، کسی ذات کے انسان کی ہو، کسی خطے میں رہنے والے آدمی کی ہو، اس کی حفاظت کی ذمہ داری پورے سماج کی ہونی چاہیے۔ زبان سے یہ کہہ دینے سے ہی بیٹی کا حق ادا نہیں ہوتا کہ بیٹی سماج کی ہوتی ہے، اس کا حق ادا کرنے کے لیے یہ سوچنا پڑے گا کہ بیٹی کی اہمیت کیا ہے۔ بیٹی اگر واقعی اہم ہے تو اس کے ساتھ ناانصافی کا سلسلہ اس کے اپنے ہی گھر سے کیوں شروع ہو جاتا ہے۔ کئی گھروں میں بیٹے کی پیدائش پر شادیانے بجائے جاتے ہیں، بیٹی کی پیدائش پر مردنی سی چھا جاتی ہے۔ بیٹے کے مقابلے کم اہمیت دے کر بیٹی کو کیوں کم تر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ بلا تفریق مذہب و ملت زیادہ تر گھروں میں لڑکیوں کو یہی سکھایا جاتا ہے کہ شوہر کا حق بیوی پر کیا ہے، سسرال والوں کی ذمہ داری اسے کیسے ادا کرنی چاہیے، لڑکوں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ شادی کا مطلب کیا ہے، شادی کے بعد کی زندگی کیسی ہونی چاہیے، ایک بیوی کا شوہر پر حق کیا ہے، ایک مرد کی ذمہ داری کیا ہے۔
کئی مسلمان باتیں کرتے ہیں قرآن و حدیث کی مگر وہ قول و عمل کے تضاد پر توجہ نہیں دیتے، وہ دوہری زندگی جیتے ہیں۔ وہ قرآن و حدیث کی باتیں دوسروں کو سناتے ہیں، ان پر خود عمل نہیں کرتے۔ وہ حضرت محمد ؐ سے جھوٹی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر وہ سچی محبت کرتے تو یہ سمجھتے کہ آپؐ بیٹی کے باپ تھے اور بیٹی حضرت فاطمہؓ کو بہت مانتے تھے۔ آپؐ کا خاندانی سلسلہ بیٹی ہی سے آگے بڑھا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بیٹی کی تو عزت نہ کرے مگر حضرت محمدؐ سے محبت کا دعویٰ کرے۔ حضرت محمد ؐ سے جسے واقعی محبت ہوگی، وہ اپنی بیٹی کی بھی قدر کرے گا، دوسروں کی بیٹیوں کی بھی قدر کرے گا۔وہ بہو کی قدر اس لیے کرے گا کہ وہ کسی کی بیٹی ہے مگر احمدآباد کی 23 سالہ عائشہ کی عزت اگر کی جاتی، اگر اس کی سسرال میکے کی طرح ہوتی، اگر اس کی زندگی میں دکھ نہیں ہوتے تو کیا اسے زندگی ختم کرنے پر مجبور ہونا پڑتا؟ عائشہ نے جو کیا، اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ اسے مرنا نہیں چاہیے تھا، اسے قانون کے سہارے لڑنا چاہیے تھا، آخری سانس تک لڑنا چاہیے تھا تاکہ سسرال والوں کو سمجھا پاتی، وہ ابلا نہیں، وہ کمزور نہیں مگر اس نے اپنی زندگی ختم کر ڈالی۔ ماں، باپ کو دکھوں سے بچانے کے لیے دکھ دے گئی، اس لیے بحث اب اس پر ہونی چاہیے کہ کیا اکیسویں صدی کے ہندوستان میں کسی لڑکی کو اتنا مجبور ہونا چاہیے؟ کیا یہ شکست صرف عائشہ کے گھروالوں کی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو بچا نہیں پائے یا یہ شکست اس سماج کی بھی ہے جو بیٹی کو مذہب، ذات اور خطے تک محدود کرکے نہیں دیکھتا؟ یہ سوال جواب طلب ہے کہ ایک بہو جہیز کے لیے ستائی جاتی ہے تو کیا اس کی چیخیں در و دیوار کے اندر دم توڑ کر رہ جاتی ہیں کہ سماج کو پتہ نہیں چل پاتا یا سماج کے کان ایسی چیخوں کو سننے کے لائق ابھی نہیں بن پائے؟
احمدآباد میں واقع سابرمتی ریور فرنٹ (ویسٹ) کے پولیس انسپکٹر وی ایم دیسائی نے عائشہ کے سابر متی ندی میں چھلانگ لگا کر خود کشی کی تصدیق کی ہے۔ پولیس انسپکٹر وی ایم دیسائی کے مطابق، ’ہمیں عائشہ کا فون ملا ہے۔ 25 فروری کو انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ فون پر 70 منٹ کی گفتگو ریکارڈ کی تھی۔ اس گفتگو کے دوران ان کے شوہر نے کہا، میں تمہیں لینے نہیں آؤں گا، تمہیں مر ہی جانا چاہیے اور اس وقت کی ویڈیو بنا کر بھیجنا تبھی مجھے یقین آئے گا کہ تم مر چکی ہو۔‘ راجستھان کے ضلع جالور کے رہنے والے لیاقت مکرانی، جو درزی کے کام کے لیے احمد آباد کے بٹوا علاقے میں رہتے تھے، عائشہ ان کی لاڈلی بیٹی تھی۔ وہ ماں حرمت بی بی کی دلاری بیٹی تھی۔ وہ لیاقت اور حرمت کے خاندان کی پہلی گریجویٹ تھی، جالور کے بابو خان کے بیٹے عارف خان سے اس کی شادی اس کے لیے باعث مسرت ہونی چاہیے تھی مگر یہ شادی اس کی موت کی وجہ بن گئی۔ شوہر نے کہا، ’تمہیں مر ہی جانا چاہیے۔‘ شوہر نے یہ کیوں کہا؟ عائشہ نے مرنے سے پہلے گفتگو کی شروعات کرتے ہوئے یہ کہا، ’میرا نام ہے عائشہ۔۔۔ عارف خان۔‘اس نے یہ کیوں نہیں کہا، ’میرا نام ہے عائشہ مکرانی۔‘ عائشہ نے یہ بات بڑی آسانی سے کہہ دی، ’کچھ محبت تو نکاح کے بعد بھی ادھوری رہتی ہے۔‘ یہ تلخ سچائی ہے مگر یہ تلخ سچائی کیوں ہے؟ کیوں نکاح کے بعد بھی کچھ محبت ادھوری رہتی ہے؟ ایک مرد یہ کیوں نہیں سمجھ پاتا، اس کی ماں پہلے اس کے باپ کی بیوی ہے تب اس کی ماں ہے۔ اس کی بیوی بھلے ہی اس کے لیے عورت کا ایک حقیر روپ ہو مگر اس کے بچے کے لیے تو وہ اسی طرح قابل احترام ہے جیسے اس کی اپنی ماں اس کے لیے ہے۔ عائشہ کا دل زخمی تھا، کیونکہ اس کے شوہر نے اسے اپنے آخری لمحات کی ویڈیو بنانے کے لیے کہا تھا۔ اس نے یہ ویڈیو بنایا مگر رو کر نہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ اسے دیکھنے والا شاید ہی کوئی حساس دل ہو جو رویا نہ ہو۔ اس نے باتوں کے دوران یہ کہا تھا، ’اللہ سے دعا کرتی ہوں۔۔۔کہ اب دوبارہ انسانوں کی شکل نہ دکھائے۔‘ اسے یہ کیوں کہنا پڑا؟ کیا یہ سوچتے وقت یہ تہیہ نہیں کرنا چاہیے کہ جہیز کی رسم نہیں ہونی چاہیے۔ اسے ختم کردینا چاہیے، اس سے پہلے کہ یہ رسم عائشہ جیسی اور بیٹیوں کو ختم کرنے کی وجہ بنے!
[email protected]