کلراج مشر
عورت طاقت کی ایک علامت ہے۔ اسے لاچار کہہ کر کمزور بتانا اس حقیقت سے منھ پھیرنا ہے جس میں اس کے بغیر اس سماج، کنبہ اور زندگی کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے ناری سشکتی کرن کو میں نعرہ نہیں خواتین کے وجود کو تسلیم کرنے کے سماجی جذبے کی صورت میں ہی ہمیشہ پیش کرتا رہا ہوں۔
یاد کریں، آکسفورڈ ڈکشنری نے دو سال پہلے ’ناری شکتی‘ کو سال کاسب سے زیادہ موضوع بحث لفظ منتخب کیا تھا۔ پوری دنیا میں تب یہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والے لفظ کی صورت میں قبول کیا گیا تھا۔ اس کے پیچھے وجہ یہ تھی کہ دنیا بھر میں ہندوستان میں خواتین کی ترقی کو نظر میں رکھ کر لئے گئے فیصلوں کی گونج سنائی دی۔ اسی نے مہیلا سشکتی کرن کو مرکز میں لادیا اور آکسفورڈ ڈکشنری نے ’ناری شکتی‘کو سال کا سب سے موضوع بحث لفظ اعلان کیا۔ خواتین کے وسیع مفاد میں ملک میں تین طلاق سے متعلق بڑا فیصلہ، کیرالہ کے سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلے کی اجازت، خواتین کودفاعی فوج میں کامبیٹ رول کی اجازت حج پر جانے والی خواتین کو مردسرپرست کے بغیر حج پر جانے کی اجازت جیسے فیصلے ملک میں بہت پہلے بھی ہوسکتے تھے لیکن اس سوچ پر کام کرنے کو تیار ہی ہم کہاں تھے!جبکہ خواتین آج سے نہیں شروع سے ہی سماج میں آگے کا رول نبھاتی رہی ہیں۔ ان کے مفاد میں سوچنا کیا ہمارا فرض نہیں ہے!
خواتین سنجیدگی سے فیصلہ لینے میں ہی نہیں اجتماعی مفاد کی سوچ سے کام کرنے میں بھی مردوں سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔ ان کی صلاحیت کو اگر موقع دیا جاتا ہے تو وہ زیادہ تیزی سے آگے بڑھ کر پورے سماج کی ترقی کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ مہاتما گاندھی نے اسی لئے کبھی کہا تھا کہ کسی کنبے میں ایک خاتون اگر تعلیم یافتہ ہوجاتی ہے تو دو کنبے اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ ’بیٹی بچائو، بیٹی پڑھائو‘ جیسی تحریکوں کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس لئے کہ بیٹیاں پڑھ لیتی ہیں اور سماج میں ان کا وجود بچا رہتا ہے تو ہندوستان پھر سے سپر پاور بننے کی راہ پر چل سکتا ہے۔
خواتین سنجیدگی سے فیصلہ لینے میں ہی نہیں اجتماعی مفاد کی سوچ سے کام کرنے میں بھی مردوں سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔ ان کی صلاحیت کو اگر موقع دیا جاتا ہے تو وہ زیادہ تیزی سے آگے بڑھ کر پورے سماج کی ترقی کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ مہاتما گاندھی نے اسی لئے کبھی کہا تھا کہ کسی کنبے میں ایک خاتون اگر تعلیم یافتہ ہوجاتی ہے تو دو کنبے اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ ’بیٹی بچائو، بیٹی پڑھائو‘ جیسی تحریکوں کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس لئے کہ بیٹیاں پڑھ لیتی ہیں اور سماج میں ان کا وجود بچا رہتا ہے تو ہندوستان پھر سے سپر پاور بننے کی راہ پر چل سکتا ہے۔ میں یہ مانتا ہوں کہ اگر یہ خاتون کی قوت ہے جو صرف اپنے لئے ہی نہیں، پوری دنیا کی بھلائی کو نظر میں رکھتے ہوئے کام کرتی ہے۔ ’وسودھیو کٹم بکم‘ کے نظریے کی اصلی بنیاد خاتون قوت ہی رہی ہے۔
ہمارے قدیم پرانوں اور شاستروں میں جائیں گے تو پتہ چلے گا یہ زمین ناری شکتی سے ہی تو چل رہی ہے۔ سرسوتی کی صورت میں خاتون پیدا کرتی ہے۔ لکشمی کی صورت میں وہ پرورش کرتی ہے اور مہا کالی کی صورت میں شیطانی قوتوں کا خاتمہ کرتی ہے۔ ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ پوری دنیا میں علم اور تعلیم کی دیوی سرسوتی ہے۔ سوچئے، اگر علم نہ ہو تو کیسے یہ دنیا متحرک رہ سکتی ہے۔ علم اور صوابدید نہیں ہو تو انسان جانوروں کی مانند ہوجائے۔ اسی طرح دولت – اناج اور زمین کی دیوی لکشمی ہے۔ اسی سے سارے کام دنیا میں ہوتے ہیں۔ طاقت کی صورت میں درگا نہ ہو تو دنیا میں بری طاقتوں کا ہی غلبہ ہوجائے۔ یعنی یہ پوری زمین ناری کی دیوی کی صورتوں میں اپنے وجود کو بچائے ہوئے ہے۔ اس کے باوجود اگر ناری شکتی کے وجود سے انکار کرتے ہیں تو اس سے بڑی کوئی فکری غربت نہیں ہوسکتی۔
ہندوستانی روایات میں کنیا پوجن کی روایت شروع سے ہی رہی ہے۔ چیتر نوراترا کے 9دن سال بھر کے کاموں کے لئے طاقت حاصل کرنے کے ہوتے ہیں۔ تمام شکتیوں کا واس 9درگائوں میں ہے۔اس لئے 9دن تک ماں کی 9صورتوں کی آرادھنا اور اپاسنا ہوتی ہے۔ ان 9صورتوں سے ہی دنیا حرکت پذیر ہے۔ اسی لئے میں بار بار یہ بات دہراتا ہوں کہ ناری شکتی کے بغیر انسانیت کی ترقی کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ناری کے کمزور ہونے، لاچار ہونے کی جو منفی خصوصیات ہیں ان سے سماج کو ہم آزاد کریں۔ اپنی یہ ذہنیت بدلیں کہ ناری کو سہارے کی ضرورت ہے۔ وہ اہل ہے اور اس میں خود اعتمادی ہے۔
ماضی میں نہیں جائیں، عصر حاضر کی ہی بات کریں تو پتہ چلے گا راج سمند ضلع کی راکھی پالیوال نے صبح 4بجے اٹھ کر کھلے میں بیت الخلا کے خلاف خواتین کو منظم کرنے کی پہل کی۔ کچھ ہی وقت میں نتائج مثبت آئے اور سماج میں ایک بڑی مہم کی داغ بیل راکھی کی صورت میں ناری شکتی بنی۔ فائٹر پائلٹ اونی چترویدی، بھائونا اور موہنا سنگھ سپر سونک فائٹر جیٹ اڑانے کے لئے منتخب ہوئیں۔ کلپنا چائولہ خلا میں پہنچنے والی خاتون بنیں۔ ایسے ہی ہر شعبے میں خواتین کو مواقع ملے ہیں تو انہوں نے اپنا بہترین رول ادا کرنے کی کوشش کرکے ملک اور سماج میں مثال قائم کی ہے۔
ہمارے یہاں تو کامیابی اور فتح کی علامت ہی دیوی کی صورت میں شکتی کی آرادھنا رہی ہے۔ مریادا پروشوتم رام نے راون پر فتح پانے سے پہلے بھگوتی بھوانی کی آرادھنا کرکے کامیابی کی طاقت حاصل کی۔ شیوا جی نے بھرم رمبا بھوانی کی آرادھنا سے طاقت حاصل کی۔ مہارانہ پرتاپ نے چامنڈا کی پوجا سے طاقت حاصل کرکے مادر وطن کی آزادی کا بگل بجایا۔ ہر دور اور زمانے میں قوم کے ساتھ مجموعی بہبود کی خاطر دیوی کی صورت میں ناری شکتی ہی رہی ہے۔ اسی لئے وہ ایشور کی انوپم کیرتی ہے۔ وہ گنگا کی مانند پاک ہے ، زمین کی مانند اس میں تحمل ہے اور ہمالیہ کے مانند وہ پرعزم ہے۔ جدید حوالوں میں کامیاب خواتین کے بارے میں پڑھیں گے تو یہی سبھی خوبیاں آنکھوں کے سامنے گھومتی ہوئی نظر آئیں گی۔
اس لئے میں یہ مانتا ہوں کہ یہ وہ وقت ہے جب سماج میں ناری برابری کی نہیں بلکہ اس کی عظمت کو تسلیم کرکے تمام شعبوں میں اس کی برتری کو موقع دینے کی ضرورت ہے۔ مرد تبھی کامیاب ہے جب اس کے ساتھ ناری ہے۔ وہ تمام کامیابیاں اسی لئے حاصل کرپاتا ہے کہ پریوار سنبھالتے ہوئے عورت بالواسطہ اس کی تمام شعبوں میں کامیابی کا ذریعہ بنتی ہے۔ منو سمرتی میں ’یتر ناریستو پوجینتے رمنتے تتر دیوتاہ، یتیرتاستو نہ پوجینتے سرواست تراپھلاہ کریاہ۔‘ کی بات اسی لئے خود ثابت کردہ ہے کہ جہاں ناری کی پوجا ہوتی ہے وہیں دیوتا واس کرتے ہیں جہاں اس کا احترام نہیں ہوتا، وہاں کئے گئے سبھی کام بے نتیجہ ہوجاتے ہیں۔ دیوتا کا واس ہونے کا یہاں مطلب ہے، سبھی خود اعتمادی اور کامیابیاں ناری میں ہی مضمر ہیں۔
اس لئے مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ ناری کو روایت میں اور مریادہ میں رہنے کی بات کہنے والا سماج کا وہ طبقہ ہے جو اس کی طاقت سے ڈرا ہوا ہے۔ ناری خوداعتمادی کی مثال ہیں۔ اس کی طاقت میں ہی تو مخلوق کے ہونے کا سناتن سچ سمایا ہوا ہے۔
مضمون نگار راجستھان کے عزت مآب گورنر ہیں