اردو اور پنجابی کے ممتاز شاعر،نقاد،مترجم اور ڈرامہ نگار قیوم نظر 7 مارچ 1914ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبدالقیوم تھا۔ ان کے والد کا نام خواجہ رحیم بخش تھا۔
وہ اردو کے ان لکھنے والوں میں شامل ہیں جنھوں نےحلقہ ارباب ذوق کی بنیاد رکھنے میں اھم حصہ لیا جن میں میرا جی، ن۔ م راشد،حفیظ ھوشیار پوری، اختر ھوشیارپوری، حمید نظامی، تابش صدیقی وغیرہ کے اسمائے گرامی اھم ہیں- وہ 1944ء سے 1955ء تک حلقہِ اربابِ ذوق کے سیکرٹری رہے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہِ اردو اور پنجاب یونیورسٹی میں شعبہِ پنجابی میں تدریس کے شعبے سے منسلک رہے۔ 1933ء میں ان کی پہلی غزل شایع ہوئی تھی۔
قیوم نظر کی شاعری میں اردو کی کلاسیکی شاعری کا گہرا اثر ھے- انہوں نے اردو غزل کو ایک نیا مزاج، نیا آہنگ عطا کیا۔ وہ میر تقی میر اور فانی بدایونی کے غزلیہ روایت سے متاثر رھے۔ ان کی شاعری میں فطرت کے تجربات اچھوتے نوعیت کے ہیں۔ انھوں نے اپنی اردو غزلوں اور نعتوں کو پنجابی میں منتقل کیا-
قیوم نظر کی تصانیف میں “پون جھکولے”،”قندیل”، “سویدا”،”اردو نثر اُنیسویں صدی میں”، “زندہ ہے لاہور “اور “امانت “کے نام شامل ہیں۔ان کے فن اور شاعری پر درجنوں مقالات لکھے جا چکے ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لیے ایک کتاب “بلبل کا بچہ ” بھی لکھی۔ ان کی شاعری کی کلیات “قلب ونظر کے سلسلے” کے نام سے شایع ہوئی جس میں ان کی درجنوں نعتیں اور گیت شامل ہیں۔ 23 جون 1989ء کو قیوم نظر کراچی میں وفات پا گئے اور لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہِ خاک ہوئے-
ماتھے پر ٹیکا صندل کا اب دل کے کارن رہتا ہے
مندر میں مسجد بنتی ہے مسجد میں برہمن رہتا ہے
ذرہ میں سورج اور سورج میں ذرہ روشن رہتا ہے
اب من میں ساجن رہتے ہیں اور ساجن میں من رہتا ہے
رت بیت چکی ہے برکھا کی اور پریت کے مارے رہتے ہیں
روتے ہیں رونے والوں کی آنکھوں میں ساون رہتا ہے
اک آہ نشانی جینے کی رہتی تھی مگر جب وہ بھی نہیں
کیوں دکھ کی مالا جپنے کو یہ تنکا سا تن رہتا ہے
اے مجھ پر ہنسنے اور کسی کو دیکھنے والے یہ تو کہو
یوں کب تک جان پہ بنتی ہے یوں کب تک جوبن رہتا ہے
دل توڑ کے جانے والے سن دو اور بھی رشتے باقی ہیں
اک سانس کی ڈوری اٹکی ہے اک پریم کا بندھن رہتا ہے