کانگریس کی مشکلات

0

ملککی سب سے قدیم پارٹی کانگریس اس وقت بہت مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ 2014 میں پارلیمانی الیکشن ہارنے کے بعد سے پارٹی مسلسل زوال کی راہ پر گامزن ہے، وہ مرکزی اقتدار سے باہر کیا ہوئی، کئی ریاستیں اس کے ہاتھوں سے نکل گئیں اور پارٹی واپسی نہیں کرپائی۔ اب تو اس میں پھوٹ عام بات ہوگئی ہے ۔اس کی وجہ سے اقتدار میں آکر بھی اس سے باہر ہوجارہی ہے۔ کرناٹک، مدھیہ پردیش اورحال ہی میں پڈوچیری میں سب دیکھ چکے ہیں۔ 2014 کے بعد اتنی ریاستوں میں پارٹی انتشار کا شکار ہوگئی کہ لوگوں کیلئے یاد رکھنا مشکل ہوگیاہے۔ابھی تک پارٹی کو ریاستی سطح پر بغاوت کا سامنا تھا لیکن اب مرکزی سطح پر قیادت پر حملے ہورہے ہیں، پارٹی چلانے کے طور طریقوں پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں، سینئر لیڈروں اوران کی آراء کو اہمیت دینے اورمستقل پارٹی صدر بنانے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔
ہائی کمان کے خلاف دوچار لیڈران آواز نہیں اٹھا رہے ہیں بلکہ 23 سینئر لیڈران ایک سر میں بول رہے ہیں ، جن کو اب گروپ – 23 کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ گروپ کوئی معمولی لیڈروں کا گروپ نہیں ہے بلکہ اس میں 5 سابق وزرائے اعلیٰ، کانگریس ورکنگ کمیٹی کے ممبر، سابق مرکزی وزرا اور موجودہ ممبران پارلیمنٹ بھی شامل ہیں اورتمام لیڈران سینئر ہیں جو پارٹی میں متعدد عہدوںپر کام کرچکے ہیں اورمتعدد ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں۔یہ لیڈران سب سے پہلے اس وقت خبروں میں آئے تھے جب گزشتہ سال اگست میں کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی کو خط لکھ کر سنسنی پھیلائی تھی ۔اس خط میں نہ صرف یہ بات کہی گئی تھی کہ لوگوں اورنوجوانوں کا پارٹی میں بھروسہ کم ہوا ہے، بلکہ پارٹی میں اوپر سے لے کر نیچے تک بڑے پیمانے پر تبدیلی کی بات کہی گئی تھی اور مستقل صدر بنانے کی بات اس وقت کہی گئی جب کچھ ہی دنوں پہلے پارٹی کی طرف سے وضاحت کی گئی تھی کہ سونیا گاندھی اس وقت تک عبوری صدر رہیں گی جب تک نیا صدر نہیں بنالیا جاتا،جس پر کچھ دنوں تک پارٹی میں مثبت منفی بحث چلی پھرلگاکہ باب بند ہوگیالیکن یہ غلط فہمی تھی۔صحیح بات یہ ہے کہ گروپ کے لیڈر اندرون خانہ آگے اس سے بڑے پیمانے پر آواز اٹھانے کیلئے حکمت عملی تیار کررہے تھے، تبھی تو پچھلی بار صرف خط لکھا گیا تھا لیکن اس بار بات کافی آگے بڑھ گئی۔ گروپ کے لیڈروں نے جموں میں جلسہ کرکے اپنی آواز اٹھائی ۔پہلے پارٹی پر سے لوگوں کا بھروسہ اٹھنے کی بات کہی گئی تھی اوراب گروپ کی طاقت کا مظاہرہ کیا گیا اور ایسی ایسی باتیں کہی گئیں جنہیں کانگریس ہائی کمان کیلئے سیدھے سیدھے چیلنج مانا جارہاہے ۔پہلے اجتماعی طور پرخط لکھ کر قیادت کے خلاف بھڑاس نکالی گئی تھی، اب انفرادی طور پر تقریروں کے ذریعہ اپنی بات کہی جارہی ہے ۔
شانتی سمیلن کے بہانے ہی سہی گروپ کی سرگرمیوں سے پارٹی میں پھرکھلبلی مچی ہے ۔قیادت خاموش ہے لیکن 2سینئر لیڈروں ابھیشیک منوسنگھوی اور رنجیت رنجن نے تیکھا ردعمل ظاہر کیا۔ رنجیت رنجن نے یہاں تک کہہ دیا کہ گروپ کا رویہ سازش کی طرح ہے جس کا مقصد صرف راجیہ سبھا کی سیٹ پاناہے، جبکہ مسٹر سنگھوی نے کہا کہ آنے والے انتخابات میں وہ پارٹی کو مضبوط کرکے وفاداری دکھائیں۔ 5ریاستوں مغربی بنگال، آسام، تمل ناڈو، کیرالہ اورپڈوچیری میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔اس سے پہلے ایسی سرگرمیاں پارٹی کیلئے مشکلات کھڑی کرسکتی ہیں۔ پڈوچیری میں انتشار کے بعد جس وقت پارٹی کواتحادکی سب سے زیادہ ضرورت ہے ، لیکن قیادت کے خلاف کام ہورہا ہے،جس سے پارٹی کو نقصان کے علاوہ اورکچھ نہیں ملے گا۔ بہرحال کانگریس کو اس وقت دوہری مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک باہری اوردوسری پارٹی کے اندر ، دونوں سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS