پاکستان کا لائن آف کنٹرول پر ’کنٹرول‘ میں رہنے کے لیے تیار ہونا ہر نظریہ سے اچھی خبر ہے۔ دونوں ممالک کے مابین جنگ بندی کے لیے نئے سرے سے سمجھوتا ہوا ہے۔ 2003میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی اور پاکستان کے اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے درمیان جنگ بندی سے متعلق معاہدہ ہوا تھا۔ کاغذات پر جنگ بندی تبھی سے نافذ ہے، لیکن پاکستان مسلسل اس کو نظرانداز کرتا رہا ہے۔ وزارت داخلہ کے مطابق اکیلے سال 2020میں سیزفائر توڑنے کے 5,133واقعات درج ہوئے، جب کہ سال 2019میں یہ اعدادوشمار 3,479اور سال 2018میں 2,140رہے تھے۔ سال 2020 میں ہماری سیکورٹی فورسز کے 24جوانوں کو شہادت دینی پڑی اور 22شہریوں کی بھی موت ہوئی۔
تو جب پاکستان نے سرحد پر جنگ کے حالات بنائے ہوئے ہیں، ایسے میں اس کا اچانک جنگ بندی کے لیے تیار ہوجانا غیرفطری لگ سکتا ہے۔ لیکن اس خدشہ پر دو ممالک کے دائرہ سے باہر نکل کر غور کریں تو کچھ منطقی وجوہات ہاتھ لگ سکتی ہیں۔ اس میں جو وجہ سب سے پختہ نظر آتی ہے وہ ہے امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن کی خارجہ پالیسی پر پہلا بیان۔ اس میں موجودہ وقت میں چین اور روس کو امریکہ کے لیے دو سب سے بڑے چیلنجز کی طرح پیش کیا گیا ہے۔ اس میں آگے سردجنگ کے بعد طویل عرصہ تک دنیا پر اجارہ داری کا دعویٰ کیا گیا ہے اور چین سے ملے چیلنج کے ذکر کے ساتھ صاف گوئی سے یہ قبول بھی کیا گیا ہے کہ وہ اجارہ داری اب ختم ہوچکی ہے اور دنیا نئی سردجنگ کی جانب بڑھ چکی ہے۔ یہاں سے ہمارے کام کی بات شروع ہوتی ہے۔ بیان میں آگے کہا گیا ہے کہ چین اور روس کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ساتھی کے جذبہ کو جو دوبارہ زندہ اور جمہوری شراکت داریوں کو پھر سے مضبوط بنانا ہوگا، جس کے لیے بائیڈن نے اپنے ’قریبی دوستوں‘ سے بات چیت بھی کی ہے۔ امریکہ کا اندازہ ہے کہ اس خیمہ بندی میں ہندوستان اور پاکستان اس کے فطری ساتھی ہوسکتے ہیں۔ ہندوستان سے تعلقات سے متعلق تو امریکہ میں اب کوئی بھرم نہیں ہے، لیکن پاکستان پر آنکھ بند کرکے بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ بالخصوص یہ دیکھتے ہوئے کہ ٹرمپ انتظامیہ میں نظرانداز ہونے کے بعد پاکستان کس طرح چین کی گود میں جا بیٹھا ہے۔ اس لحاظ سے سرحد پر امن بحالی کے عمل کی شروعات کرنے کے پیچھے پاکستان کا مقصد امریکہ سے نزدیکی بڑھانا ہوسکتا ہے۔
ایک امکان یہ بھی ہے کہ اس کھیل کے پیچھے چین ہو، جو ایک تیر سے دو شکار کررہا ہو۔ پاکستان کی طرح چین بھی کچھ دن قبل ہی سرحد پر ’گولی کی جگہ بولی والی‘ پالیسی پر عمل درآمد کے لیے تیار ہوا ہے۔ دونوں ملک اچانک جس طرح امن کے نغمے گانے لگے ہیں، وہ ’نیکی کر دریا میں ڈال‘ والی سوچ تو قطعی نہیں ہوسکتی۔ اس کے تار بھی جنوبی ایشیا سے متعلق بن رہی نئی امریکی پالیسی سے جڑتے ہیں۔ پاکستان امریکہ کو دکھانا چاہتا ہے کہ وہ چین کے اتنے بھی نزدیک نہیں ہے جتنی اس کی تشہیر ہوتی ہے، وہیں چین ہندوستان سے بائیڈن کی بڑھتی نزدیکیوں کو دیکھتے ہوئے سرحد پر کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرتا نظرآنا چاہتا ہے۔ چین یہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ تبدیلی کے اس دور میں امریکہ سے جتنی اس کی دشمنی بڑھے گی، وہ اتنا ہی ہندوستان کے نزدیک جائے گا اور چین کے ساتھی ہونے کے سبب پاکستان کو بھی اس کا خمیازہ اٹھانا پڑے گا۔ ایف اے ٹی ایف کے مدنظر بھی پاکستان کو سیزفائر پر معاہدہ کی زیادہ ضرورت تھی۔ پاکستان تین سال سے گرے لسٹ میں ہے۔ اس مرتبہ بھی وہ دہشت گردی کے خلاف طے ایجنڈے کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ گرے لسٹ میں ہونے کے سبب نہ صرف پاکستان کی معیشت کنگالی کے ددور میں پہنچ گئی ہے، بلکہ اسے کئی ممالک سے سفارتی ’بائیکاٹ‘ بھی جھیلنا پڑا ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت بیشک اس کی گہرائی نہ سمجھتی ہو، لیکن فوجی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ جب تک ہندوستان سے بات چیت شروع نہیں ہوگی، تب تک وہ اسی طرح دنیا کے ایک بڑے حصہ کے لیے ’اچھوت‘ بنا رہے گا۔ حالیہ واقعہ پر امریکہ سے لے کر اقوام متحدہ تک کے ردعمل میں خوشی کے ساتھ راحت کا جو جذبہ نظر آیا ہے، وہ اسی بات کا اشارہ ہے کہ اب کئی بنیادی ایشوز کو سلجھانے کی بنیاد تیار کی جاسکے گی۔ لیکن اس سمجھوتے سے منسلک کچھ اور گتھیاں بھی ہیں، جو شاید وقت گزرنے کے ساتھ سلجھ جائیں۔ پلوامہ اور بالاکوٹ جیسے تبدیل کردینے والے واقعات کے دو سال مکمل ہونے کے موقع پر اس طرح کی رضامندی تک پہنچنے کو کیا محض اتفاق سمجھ کر بھلایا جاسکتا ہے؟ ایسی خبریں ہیں کہ ڈی جی ایم او سطح کی سرکاری بات چیت کے ساتھ ہی اتفاق رائے کے لیے بیک ڈور ڈپلومیسی بھی ہوئی، جسے ہندوستان کے ایک انتہائی اہم افسر نے حکومت کی ہدایات پر کامیابی کے ساتھ پورا کیا۔ حالاں کہ معاملہ کی سنگینی اور دونوں جانب کے عوامی جذبات کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی فریق اس کی معلومات کو عام کرنا نہیں چاہے گا، لیکن ایسی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ ہندوستان کی جانب سے یہ ذمہ داری این ایس اے اجیت ڈوبھال نے پوری کی ہے۔ گلوان کے بعد چین کو ڈس اینگریجمنٹ تک لانے میں بھی ڈوبھال کا اہم رول رہا تھا۔
چین اور پاکستان کے ساتھ ہندوستان کی سرحد تقریباً 7ہزار کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ ایسے میں ایل او سی سے لے کر ایل اے سی تک دشمن کو اپنی شرائط پر رضامند کروانا مودی حکومت کی خارجی اور دفاعی پالیسی کی نایاب مثال کہا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کئی مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ سمجھنے اور سمجھانے کے ساتھ ہی آزمائے جانے پر آج کا ہندوستان دشمن کو اس کے گھر میں گھس کر مارنا بھی جانتا ہے۔ بالاکوٹ اس کا زندہ ثبوت ہے تو ڈوکلام سے لے کر لداخ تک چین کو پیچھے ہٹنے کے لیے مجبور کرنا اس کی توسیع پسند سوچ کی کراری شکست ہے۔ اس کی توسیع کریں تو امریکہ-روس جیسی بڑی طاقتوں کو سادھنے اور دنیا کے کونے کونے میں اپنی پکڑ مضبوط کرنے میں بھی ہندوستان کا ریکارڈ پہلے سے بہتر ہوا ہے۔ اس حکمت عملی کی چھاپ جنوبی ایشیا میں ہندوستان کے پڑوسی ممالک سے لے کر بحرہند کے ممالک، ہندبحرالکاہل کے ممالک، مشرق وسطی اور مغربی ایشیائی ممالک تک نظر آتا ہے۔ اتنا ہی نہیں اپنے مفادات پر حملہ کرنے والے ممالک کو ہندوستان اپنی معاشی مضبوطی کا احساس کرانے سے بھی گریز نہیں کررہا۔ آرٹیکل 370سے متعلق مخالفت کرنے پر ملیشیا اور ترکی کی ہندوستان نے جو حالت بنائی، وہ اس کا بہترین نمونہ ہے لیکن اس مرتبہ حالات تھوڑے مختلف ہیں۔ سیزفائر نافذ ہوئے ابھی کچھ دن ہی ہوئے ہیں، لیکن ابھی سے اس کے ٹوٹنے کے خدشات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ یہ خدشات بلاوجہ نہیں ہیں، ان کے پیچھے کارگل، ممبئی، پٹھان کوٹ اور پلوامہ جیسے ہمارے برے تجربات ہیں۔ اب تک پاکستان کے لیے سیزفائر کا مطلب اپنی طاقت میں اضافہ کرنے کا موقع اور سرحد پر بدامنی برقرار رکھنا رہا ہے۔ وہ اس مرتبہ اپنی فطرت سے باز آجائے گا، اس کا دعویٰ کوئی نہیں کرسکتا۔ بس امید ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں سے سبق لے کر امن اور توسیع کے اس راستہ پر آگے بڑھے گا، جس پر آج دنیا بھر میں ہندوستان کی ستائش ہورہی ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
ہندوستان کی دھاک، اب ’کنٹرول‘ میں رہے گا پاکستان؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS