عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
مدتِ دراز تک آغوشِ نبوت میں پرورش پانے والے،نبی پاکؐ کی دعوتِ اسلام پر سب سے پہلے صدائے لبیک بلند کرنے والے،خوف ناک اور جاں گسل حالات میں سفرہجرت کی رات فراش نبی کو اپنا بستر بنانے کی سعادت حاصل کرنے والے،غزوہ تبوک میں مملکتِ اسلامیہ کے دارالخلافہ مدینہ طیبہ میں نیابتِ نبی کے فرائض انجام دینے والے، فصاحت وبلاغت کے امام، علم وادب کے منبع،حکمت ودانائی کے مخزن، جرأت وشجاعت اور ذہانت وفطانت کے حسین امتزاج، جگرگوشۂ رسول فاطمۃ الزھراء کے سرتاج، کمالِ تقویٰ اور غایتِ زہد کے باوجود خندہ رو اور شگفتہ مزاج، سطوت وحکومت، جاہ وحشمت اور سامان کروفر کی بہتات وفراوانی کے باوجود حلۂ خسروی کے بجائے خرقۂ درویشی کو زیب تن کرنے والے، تاجِ سروری کے مقابلہ میں عمامۂ نبوی، اور مسند جہاں بانی کی جگہ فرش خاکی کو پسند کرنے والے،خلیفۂ رابع امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ،جو مختلف خصائل وفضائل کے حامل، متعدد محاسن واخلاق کے جامع اور کئی ایک کمالات وصفات کے حسین پیکر تھے، گویا ان کی ایک زندگی کئی زندگیوں کا خلاصہ ونچوڑ اور حیات کاہرشعبہ صفتِ کمال کا وہ نادر مرقع تھی؛جس سے فضیلت وخصوصیت کے بے داغ خدوخال ابھر کر سامنے آتے تھے اور جس کے ہر کمال پر نظریں جم کر رہ جاتی تھیں۔
مختصر سوانحی خاکہ:آپ کا نام نامی: علی، لقب: حیدر و مرتضیٰ، کنیت:ابو الحسن اور ابو تراب ہے۔ آپ کی ولادت مشہور قول کے مطابق بعثت سے دس سال قبل شعب بنی ہاشم مکہ مکرمہ میں ہوئی، والدہ ماجدہ نے اپنے والد کے نام پر ’’اسد‘‘ نام رکھا جسے بعد میں والد نے تبدیل کرکے ’علی‘ کردیا۔ آپ کا نسبی تعلق حضورؐ سے قریب ترہے، آپ کے والد ابو طالب اور حضورؐ کے والد ماجد حضرت عبد اللہ دونوں حقیقی بھائی ہیں۔پوراسلسلہ نسب اس طرح ہے:علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مروہ بن کعب بن لوی۔چونکہ ابوطالب کی شادی اپنے چچا کی لڑکی سے ہوئی تھی اس لئے حضرت علی ؓ نجیب الطرفین ہاشمی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچازاد بھائی تھے۔ آپ کابدن دوہرا، قدمیانہ، چہرہ روشن و منور، داڑھی گھنی اور حلقہ دار، ناک بلند، رخساروں پر گوشت، غلافی اور بڑی آنکھیں، پیشانی چوڑی، کاندھے بھاری، بازو اور کلائیاں گوشت سے بھری ہوئیں اورسینہ کشادہ تھا۔ (اسد الغابہ)
ابو طالب چوں کہ کثیر العیال اورمعاشی تنگی سے پریشان تھے، قحط وخشک سالی نے اس مصیبت میں اور بھی اضافہ کردیاتھا؛ اس لئے رحمۃاللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے محبوب چچا کی عسرت سے متاثر ہوکر حضرت عباس ؓ سے فرمایا کہ ہم کو اس مصیبت وپریشان حالی میں چچا کا ہاتھ بٹانا چاہئے؛چنانچہ حضرت عباس ؓ نے حسب ارشاد جعفر کی کفالت اپنے ذمہ لی اور سرورکائناتؐکی نگاہِ انتخاب نے علی ؓ کو پسند کیا؛چنانچہ وہ اس وقت سے برابر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔(تاریخ اسلام)
عہدِ نبوت و خلافت میں کارہائے نمایاں:تقریباً دس سال کی عمر میں اللہ رب العزت نے معرفتِ حق اور پھر قبولِ حق کی دولتِ گراں مایہ سے سرفراز فرمایا۔پھر کیا تھا؟رات و دن سرورکائناتؐکی معیتِ صادقہ میں گزرنے لگے، مشوروں کی مجلسوں میں، تعلیم وارشاد کے مجمعوں میں، کفار ومشرکین کے مباحثوں میں ،معبودِ حقیقی کی یادوں میں غرضیکہ ہرقسم کی صحبتوں میں شرکت کی سعادت سے بہرور ہونے لگے، خود حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ میں محسنِ انسانیتؐ کے پیچھے ایسے چلتا تھا جیسے اونٹ کا بچہ اونٹ کے پیچھے چلتا ہے۔
مدینہ طیبہ آنے کے بعد آں حضرتؐنے حضرت علیؓ کو دامادی کا شرف بخشا؛اس طرح جگر گوشۂ نبی حضرت فاطمۃ الزھراء آپ کے نکاح میں آئیں۔ آپ مدنی زندگی کے تمام غزوات میں، حضورؐ کے دست و بازو بنے رہے، غزوہ بدر، احد، خندق، بنی قریظہ، اور حنین وغیرہ میں آپ نے عزم وہمت جرئت وشجاعت اور بے باکی وجواں مردی کے ایسے جوہر دکھلائے کہ اسد اللہ آپ کے نام کا جزولاینفک ہوگیا، ان کے علاوہ متعدد سرایابھی آپ کی ماتحتی میں بھیجے گئے جنہیں آپ نے کامیابی کے ساتھ سرانجام دیا اور قدم قدم پر اسلام کی سربلندی و اشاعت میں بھر پور حصہ لیا، صلح حدیبیہ کا معاہدہ آپ ہی نے تحریر کیا، معرکۂ خبیر کی فتح وظفر مندی تو آپ ہی کے نام سے معنون ہے، اسی طرح مکہ پر چڑھائی کے وقت جاسوس کا خط لے کر جانے والی عورت کا پردہ بھی آپ ہی نے فاش کیا، غزوہ تبوک کے موقع پر آپ ہی نے جانشین نبی کے فرائض انجام دیئے اور جب آں حضرتؐ اس دارِ فانی سے پردہ فرماگئے تو آپ کے غسل اور تجہیز وتکفین کی سعادت بھی آپ ہی کے حصہ میں آئی۔
مسند خلافت پر: حضرت عثمانؓ کی وفات کے بعد تقریباً ایک ہفتہ تک مسندِ خلافت خالی رہی،کوئی بھی نامور شخصیت بارِ حکومت اٹھانے کو تیار نہ ہوئی ان حالات میں انصار ومہاجرین کے بزرگ جمع ہو کر آپ کے پاس تشریف لائے اور خلافت کے اس عظیم منصب کو(جس کے اُس وقت بلاشبہ آپ ہی حق دار تھے)قبول کرنے پر اصرار کیا، ابتداً آپ نے انکار کیا اور فرمایا کہ مجھے امیر بننے کے بہ نسبت وزیر بننا زیادہ پسند ہے؛ لیکن حالات کا بگاڑاور امت کا اجماع دونوں ہی آپ کی شخصیت پر جمع ہوگئے، تب آپ کی ہمت عالیہ نے ۲۴؍ذی الحجہ۳۵ھ کو خلافت کی باگ ڈور سنبھالی اور پیش رو خلفاء کی سنت کے عین مطابق مسلمانوں کے مجمع سے خطاب فرمایا جس میں حمد وثنا کے بعد ارشادفرمایا کہ مسلمانوں کی جان ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہے اس لئے تم سب متحد ومتفق ہوکر رہو، کیونکہ حقیقی مسلمان وہی ہے جس کے زبان وہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اس کے احکامات کی خلاف ورزی سے بچو، جہاں کہیں بھلائی کی بات دیکھو اسے قبول کرواورجہاں بدی نظر آئے اس سے پر ہیز کرو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اصلاحات کا کام جاری رکھا۔ آپ اپنے عاملوں کی نگرانی کرتے تھے۔ لوگوں کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ بیت المال کے دروازے غریبوں کے لیے کھلے تھے۔ اس میں جو رقم آتی،آپ ضرورت مندوں میں تقسیم فرمادیتے تھے۔آپ خود بہت تجربہ کار جنگ آزما تھے۔ جنگی معاملات کو اچھی طرح سمجھتے تھے، چنانچہ خلیفہ بننے کے بعد آپ نے فوجی چھاؤنیاں نہایت کثرت سے قائم کیں۔
آپ کی سیاسی خدمات پر ایک نظر:حضرت علی مرتضیؓ کو اندرونی شورشوں اور خانگی جھگڑوں کو دبانے سے اتنی فرصت نہ مل سکی کہ وہ فتوحاتِ اسلامیہ کے دائرہ کو وسیع کرسکیں، تاہم آپ بیرونی امور سے کبھی غافل نہ رہے چنانچہ سیستاں اور کامل کی سمت میں بعض عرب خودمختار ہو گئے تھے ان کو قابو میں کرکے قدم آگے بڑھایا اور۳۸؍ھ میں بعض مسلمانوں کو بحری راستہ سے ہندوستان پر حملہ کرنے کی اجازت دی، علاوہ ازیں انتظام مملکت میں حتی الوسع حضرت فاروق اعظمؓ کے نقشِ قدم کی پیروی کی، اعمال کے محاسبے کا فاروقی نظام بحال کیا، رات کو شہروں کی گشت کا معمول بنایا، آپ سے پہلے جنگل سے کسی قسم کا مالی فائدہ نہیں لیا جاتا تھا آپ کے عہد میں جنگلات کو بھی محاصل ملکی کے ضمن میں داخل کیا گیا علاوہ ازیں حضرت علیؓ نے مسلمانوں کی اخلاقی نگرانی کا بھی نہایت سختی کے ساتھ خیال رکھا،مجرموں کو عبرت انگیز سزائیں دیں، ایران اور آرمینیہ میں بعض نو مسلم عیسائی مرتد ہوگئے تھے حضرت علیؓ نے نہایت سختی سے ان کی سرکوبی کی پھر خارجیوں اور ان سبائیوں کی بھی خوب خوب خبر لی، جنہوں نے حضرت علیؓ کی شان میں شدتِ غلو سے کام لیا ان سب کے باوجود آپ ایک بڑے تجربہ کار جنگ آز ما تھے، جنگی امور میں آپ کو بھر پور بصیرت حاصل تھی، اس لئے اس سلسلہ میں آپ نے بہت سی فوجی اصلاحات کیں جو آپ کی نکتہ سنجی اور دقیقہ رسی کی بین دلیل ہیں۔
شیر خدا حضرت علی مرتضیٰؓ کے علمی شہ پارے
٭ اے لوگو، تم شہد کی مکھی کی طرح بن جائو ۔گو پرندے ان شہد کی مکھیوں کو حقیر جانتے ہیں، لیکن اگر انہیں معلوم ہوجائے کہ ان کے پیٹ کے اندر بڑی برکت والی چیز ہے ،تو وہ انہیں ہرگز حقیر نہ جانیں۔
٭ نیک کام پر توفیق بہترین رہبر ہے، خوش اخلاقی بہترین دوست ہے، عقل و شعوربہترین ساتھی اور ادب بہترین میراث ہے۔
٭ کسی نے پوچھا کہ سخاوت کیا ہے؟ فرمایا، بے مانگے دینا سخاوت ہے،جب کہ مانگنے والے کو دینا بخشش ہے۔
٭معصیت کی سزا یہ ہے کہ عبادت میںسستی پیدا ہوجاتی ہے،معیشت میں تنگی آجاتی ہے۔
٭حلال کی خواہش اس میں پیدا ہوتی ہے جو مالِ حرام چھوڑدینے کی مکمل اور بھرپور کوشش کرتا ہے۔
٭سب سے بڑ ی تونگری عقل کی دانائی ہے۔حماقت سے بڑھ کر کوئی مفلسی نہیں، تکبرسب سےسخت وحشت ہے اور سب سے عظیم خلق کرم ہے۔
٭احمق کی صحبت سے بچو کہ وہ تم کو نفع پہنچانے کا ارادہ کرے گا، لیکن نقصان پہنچائے گا ۔
٭محبت دور کے لوگوں کو قریب ،جب کہ نفرت قریب کے لوگوں کو دور کردیتی ہے۔
٭ کامل فقیہ وہ ہے جو لوگوں کو رحمتِ خدا سے مایوس نہ کرے اور لوگوں کو گناہ کرنے کی ڈھیل بھی نہ دے اور انہیں قرآن پڑھنے کی طرف مائل کرے۔
٭ جو شخص لوگوں میں انصاف کا ارادہ کرے ،اسے چاہیے کہ جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے، دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرے۔(ابنِ عساکر)
ایک شبہ کا ازالہ:بعض وہ حضرات جو مزاجِ قدرت سے ناآشنا اور اسلام کی ہمہ گیر یت وجامعیت سے ناواقف ہیں وہ ناروا طریقے سے خلافت راشدہ کو دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں، پہلے دور کو اسلام کی ترقی وپیش قدمی اور دوسرے دور کوزوال وتنزلی سے تعبیر کرتے ہیں۔پہلے دور کا امام؛ صدیق اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ کو مانتے ہیں جب کہ دوسرے دور کی قیادت حضرت عثمان وعلیؓ کے سپرد کرتے ہیں۔ مفکر اسلام علی میاں ندویؒ نے اس تقسیم کو سراسر جرائت و جسارت قراردیتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں:’’میرے نزدیک یہ چاروں حضرات فرداً فرداً خلافتِ نبوی کا مظہر اتم اور مصداق کامل تھے، ذاتی فضائل ومناقب اور ان کی بناء پر تفاوتِ درجات کو الگ کرکے خلافتِ راشدہ کا مزاج اور اس کی روح ان میں سے ہر ایک میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھی، میرے نزدیک اسلام کی زندگی میں پیش آنے والے تمام ادوار ومراحل کی نمائندگی خلافتِ راشدہ کے اس مختصر سے دور میںجو 40 سال سے متجاوز نہیں کردی گئی ہے اور ہر آنے والے ناگزیر دور کے لئے اس میں رہنمائی کا سامان ہے۔
وفات:مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت علیؓکی شہادت خوارج کے ہاتھوں ہوئی،یہ وہی گروہ ہے جو حضرت عثمانؓکے قاتلوں میں شامل تھا، بعد میں اس پارٹی میں اختلافات پیدا ہوگئے اور خوارج نے اپنی جماعت الگ بنا لی۔چناں چہ سترہ رمضان المبارک 40ہجری بروزجمعہ فجرکے وقت خارجی عبدالرحمن بن ملجم مرادی اپنے دوساتھیوں کے ہمراہ جامع مسجدکوفہ پہنچا اورتینوں مسجدکے ایک کونے میں چھپ گئے۔جس وقت آپؓ نماز فجر کیلئے تشریف لائے تھے اس وقت ان میں سے ایک نے آپؓ پرپہلا وار کیااوراس کے بعدعبدالرحمٰن بن ملجم نے دوسرا وارکیا، یہ دیکھ کرتیسرا بھاگ کھڑاہوا۔اخیر میں صرف عبدالرحمن بن ملجم مرادی ہی پکڑاگیا۔
حضرت علیؓ نے اپنے بھانجے اور حضرت ام ہانیؓ کے بیٹے حضرت جعدہؓ کونمازپڑھانے کاحکم دیا،اس دوران سورج طلوع ہوچکاتھا،لوگ آپؓ کوزخمی حالت میں گھرلے گئے اورخارجی عبدالرحمن بن ملجم مرادی کوآپؓ کی خدمت میں پیش کیاگیاتوآپؓ نے اس بدبخت سے پوچھاکہ تجھے کس چیز نے مجھے مارنے پرآمادہ کیا؟خارجی عبدالرحمن بن ملجم مرادی نے آپؓ کے سوال کونظراندازکرتے ہوئے کہاکہ میں نے اس تلوار کو چالیس روزتک تیزکیااوراللہ تعالیٰ سے دعاکی کہ اس سے وہ شخص مارا جائے جوخلق کے لئے شرکاباعث ہو،آپؓ نے فرمایامیں دیکھ رہاہوں تواس تلوارسے ماراجائے گا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وفات سے پہلے کچھ وقت مل گیا؛ جسے آپ نے اپنے بیٹوں کو وصیت کرنے میں صرف کیا۔ جا ں کنی کے اس عالم میں بھی آپ نے جوباتیں ارشاد فرمائیں، وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں۔آپ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو بلوایا اور ان سے فرمایا: میں تم دونوں کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ دنیا کے پیچھے ہرگز نہ لگنا خواہ دنیا تم سے بغاوت ہی کیوں نہ کر دے۔ جو چیز تمہیں نہ ملے،اس پر رونا نہیں۔ ہمیشہ حق بات کہنا، یتیموں سے شفقت کرنا، پریشان حالوں کی مدد کرنا، آخرت کی تیاری میں مصروف رہنا، ہمیشہ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی رہنا اور کتاب اللہ کے احکامات پر عمل کرتے رہنا۔ اللہ کے دین کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے مت گھبرانا۔
آپؓشدید زخمی حالت میں تھے یہاں تک کہ ۲۱؍ویں رمضان المبارک کی شب کا دو تہائی گذرنے پر طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور اسی اثناء میں کلمہ شہادت کا ورد کرتے ہوئے اپنی جان خالق حقیقی کے سپرد کر دی۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون