ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
ملک سے بغاوت کا قانون کیا ہے اور اس کا استعمال کب اور کیسے ہوگا، یہ آج میڈیا و سوشل میڈیا میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ یہ بحث دراصل کسان احتجاجات کے دوران سوشل میڈیا میں سرخی بننے والے ’ٹول کٹ‘ میں اہم کردار ادا کرنے کے الزام میں بنگلور کی ایک نوعمر لڑکی کی ملک سے بغاوت کے الزام میں گرفتاری کے بعد پھر سے شروع ہوگئی ہے۔ دراصل یہ ٹول کٹ ایک لائحہ عمل کا خاکہ تھا جس کی روشنی میں کسان تحریک کو بین الاقوامی سطح پر کامیاب بنانے کے سلسلے میں رہنما اصول پیش کیے گئے تھے، زراعتی قوانین کے خلاف ہورہے ملک گیر احتجاجات کو عالمی سطح تک پہنچانے کا ایک پلان تھا۔
ملک سے بغاوت کے قانون جس کو ہم انڈین پینل کوڈ یعنی تعزیرات ہند کی دفعہ124اے کے تحت سیڈیشن کے مقدمہ کے نام سے جانتے ہیں، یہ قانون1857کی پہلی جنگ آزادی کے بعد انگریز حکومت نے ہندوستان میں قوانین کی تدوین کے دوران بنایا تھا، جس کاواحد مقصد انگریز حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز و آزادی کی ہر کوشش کو انگریز پولیس و سخت قوانین کے ذریعے ختم کرنا تھا۔ آزادی سے پہلے ہمارے ملک میں اس قانون کے تحت عمر قید کی سزا متعین کی گئی تھی جب کہ انگلینڈ میں اسی قانون کے تحت سزا صرف دو سال تک کی قید تھی۔ انگلینڈ میں سیڈیشن کا مقدمہ ضمانتی جرم تھا یعنی جس کے الزام میں ضمانت ملزم کا حق ہوتا تھا اور پولیس بغیر حراستی وارنٹ کے کسی بھی ملزم کو گرفتار نہیں کرسکتی تھی، پولیس ملک سے بغاوت کے الزام میں ایف آئی آر درج کرنے کے بعد عدالت سے ملزم کو گرفتار کرنے کی اجازت حاصل کرتی تھی، حتیٰ کہ بال گنگا دھر تلک کو بھی گرفتار کرنے کے لیے انگریز پولیس نے عدالت سے گرفتاری کا وارنٹ حاصل کیا تھا جب کہ ہمارے آزاد ہندوستان میں کوئی بھی پولیس افسر کسی کے خلاف بھی ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج کرکے متعلقہ فرد یا افراد کو گرفتار کرسکتا ہے۔ انگریز حکومت نے اس قانون کے تحت بال گنگا دھر تلک اور مہاتما گاندھی جیسے قائدین آزادی کے خلاف مقدمات درج کرکے اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو زور زبردستی سے دبانے کی کوشش کی تھی۔
ہمارے ملک کی یہ بدقسمتی رہی کہ آزادی حاصل ہونے کے بعد بھی ان کالے قوانین کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی البتہ انہیں قوانین کے ذریعہ ہر اس آواز کو بالجبر دبانے کی کوشش کی گئی جو آواز حکمراں طبقے کو پسند نہیں آئی، یا جس نے بھی حکومت کی عوام مخالف پالیسی کی مخالفت کی۔ آزادی کے بعد دستور ہند کا نفاذ ہوا اور دستور نے شہریوں کو متعدد بنیادی و شہری حقوق فراہم کیے جن میں آرٹیکل19بھی شامل ہے، جس کی روشنی میں ہرشہری کو اظہار رائے کی آزادی فراہم کی گئی۔ تاہم آرٹیکل19کی دوسری ہی شق میں حکومت کو یہ اختیار بھی دے دیا گیا کہ وہ قوانین و ضوابط اور امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کی غرض سے معقول پابندیوں کا نفاذ بھی کرسکتی ہے نیز قوانین کی تدوین بھی کرسکتی ہے۔
آزادی کے فوراً بعد ہی اس قانون پر بحث شروع ہوگئی تھی۔ 1950میں تارا سنگھ گوپی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے مفصل بحث کے بعد اپنی رائے دی تھی کہ ’’ہندوستان اب ایک خودمختار جمہوری ملک ہے، ملک سے بغاوت کا قانون ایک غیرملکی حکومت کے تسلط کے لیے ضروری تھا جب کہ آزادی کے بعد کی تبدیلیوں کے ساتھ اس قانون کو بھی تبدیل ہونا چاہیے اور اس قانون سے چھٹکارا حاصل ہونا چاہیے۔‘‘ پھر 1958 میں ہمارے سپریم کورٹ نے رام نندن مقدمے کے فیصلے میں 124 اے کو غیردستوری قرار دیا تھا۔ رام نندن جی نے1954میں ایک تقریر کی تھی جس کے بعد ان کے خلاف ملک سے بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا تھا۔ جسٹس گورتو نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ’’قانون ساز اسمبلی و انتظامیہ کچھ وزیروں کے قابو میں ہوتی ہے جن کی پالیسیوں پر پارلیمنٹ سے لے کر سڑک تک عوام بھی اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کریں گے، اس مخالفت یا اظہار رائے کا مقصد ضروری نہیں کہ امن و قانون میں رکاوٹ ڈالنا ہو یا حکومت کا تختہ پلٹ کرنا ہو، تاہم حکومت ان کی اظہار خیال کی آزادی کو پابند کرنے کے لیے تعزیرات ہند کی دفعہ124اے کا ناجائز استعمال کرسکتی ہے جو کہ دستور کے بنیادی حق اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہوگا۔ ‘‘
سپریم کورٹ آف انڈیا نے کیدار ناتھ سنگھ بنام اسٹیٹ آف بہار 1962کے مقدمہ میں سیڈیشن کے قانون دفعہ124 اے انڈین پینل کوڈ کی دستوری و قانونی حیثیت کو دوبارہ بروئے کار لاتے ہوئے اس قانون کے متعلق رہنما اصول پیش کیے تھے جس میں سپریم کورٹ نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کرنا یا حکومت وقت کی مخالفت کرنا سیڈیشن نہیں ہوگا، ہر شہری کو یہ حق ہے کہ وہ حکومت یا حکومت کے کام کرنے کے طریقوں کے متعلق اپنی رائے پیش کرے، یہ رائے تنقید یا مخالفت کرنے کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے۔ اگر کوئی شخص تشدد کرنے کے لیے اکساتا ہے یا امن و امان کے لیے خطرہ پیدا کرتا ہے تو اس صورت میں ہی اس قانون کا استعمال ہوسکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی کے بعد سے آج تک اس قانون کا استعمال ہرحکومت اپنے مخالفین اور تنقید کرنے والوں کے خلاف کرتی رہی ہے، ہر سیاسی پارٹی نے اپنے مفادات کے پیش نظر قوانین اور پولیس ایجنسیوں کا غلط استعمال کیاہے۔ ملک سے بغاوت کرنے کا واضح مطلب یہی ہوتا ہے کہ ملک کی خودمختاری یا آزادی کے لیے خطرہ پیدا کرنا، ملک میں ایسے حالات پیدا کردینا جس سے دستوری حکومت خطرے میں آجائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک ستر سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، عوام کی منتخب حکومتیں عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ثابت ہوتی رہی ہیں، عوام میں بے چینی ہے اور وہ بے چینی تقریروں اور تحریروں میں نکلتی ہے، شہری پرامن احتجاج کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کا دستوری حق ہے۔ انگلینڈ نے سیڈیشن کا قانون2009میں ختم کردیا، بیشتر ملکوں کے قوانین میں ملک سے بغاوت کی دفعات اور ان سے متعلق قانونی شقوں کو غیردستوری قرار دیتے ہوئے ختم کیا جاچکا ہے تاہم ہمارے ملک میں آزادی کے ستر سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے بعد بھی ان قوانین کا استعمال ہماری جمہوری حکومتیں اپنے ملک کے شہریوں کے خلاف بلاجھجھک کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ جمہوری حکومتوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ان تمام شہریوں کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کریں جو حکومت کی کسی بھی پالیسی یا حکمت عملی سے متفق نہیں ہیں یا حکومت کے طریق کار سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک کا دستور ایک ایسے جمہوری و سیکولر نظام حکومت کا خاکہ پیش کرتا ہے جہاں تمام مذاہب اور زبان و نسل کے شہری اخوت و مساوات کے ساتھ ملک کی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں، ایک ایسے ملک و سماج کی تعمیر عمل میں آئے جہاں ہر شہری کو اپنی رائے پیش کرنے کا حق حاصل ہو اور حکومت کے لیے ہر شہری کے جذبات و احساسات اہمیت رکھتے ہوں۔ حکمراں طبقے کو ہرگز یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ احتجاج یا مظاہرے کرنے والے بھی اسی ملک کے شہری ہیں اور آپ سے اپنے حقوق کا مطالبہ اس لیے کررہے ہیں کیونکہ ان کو یقین ہے کہ آپ ہی ان کے دستوری حکمراں ہیں اور حکمراں اپنے شہریوں کے مسائل کو حل کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔
[email protected]