تیل کی مار، راستہ نکالو سرکار

0

پٹرول ڈیژل سے متعلق ملک کے لوگوں کا سب سے برا خواب حقیقت بن گیا ہے۔ کل تک تیل کی قیمت سے متعلق جو بات مذاق مذاق میں کہی جاتی تھی، وہی اب سچ بن کر لوگوں کا تیل نکال رہی ہے۔ اب کی بار پٹرول واقعی 100کے پار ہوگیا ہے اور اس کی چوطرفہ مار سے سارا ملک ہلکان ہے۔ پٹرول-ڈیژل ہی نہیں، رسوئی گیس بھی تین ماہ میں 175روپے مہنگی ہوگئی ہے۔ بیشک ملک کی ناراضگی ابھی سڑکوں پر نہیں اتری ہے، لیکن جس طرح تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اسی تناسب میں یہ خدشہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔
یہ موضوع اس لیے بھی سنگین ہے کیوں کہ پٹرول-ڈیژل کی قیمتوں میں اضافہ اکیلے ایک کموڈیٹی کا مہنگا ہوجانا ہی نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کا اثر وسیع پیمانہ پر ہوتا ہے۔ مہنگا تیل سیدھے سیدھے مال ڈھلائی کو مہنگا کرتا ہے، جو بدلے میں روزمرہ کی ضروری چیزوں کو مہنگا کردیتا ہے۔ اس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اور عام آدمی راست متاثر ہوتا ہے۔
ملک میں جب جب تیل کی قیمت میں آگ لگتی ہے تو اس کی پڑتال ہمیں ہمیشہ بین الاقوامی بازار تک لے جاتی ہے۔ حکومت چاہے کوئی بھی ہو، کچے تیل کی بڑھتی قیمت کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ سال2010کے بعد سے دوسرا ٹھیکرا تیل کمپنیوں پر پھوڑا جانے لگا ہے۔ دراصل جون2010میں اس وقت کی حکومت نے تیل کمپنیوں کو ہی پٹرول کی قیمتیں طے کرنے کا حق دے دیا تھا۔ پھر اکتوبر 2014میں ڈیژل کا نمبر آیا اور اپریل 2017 سے تو پٹرول-ڈیژل کی قیمتیں روزروز بدلنے لگیں۔ تازہ صورت حال یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر کچے تیل کا کچاچٹھا کھولا جارہا ہے۔ بین الاقوامی بازار میں کچا تیل اس سال 23فیصد تک مہنگا ہوچکا ہے اور اس وقت 13ماہ کی سب سے اونچی سطح پر ہے۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک نے فروری اور مارچ میں پیداوار میں روزانہ 10لاکھ بیرل تک کی کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے۔ تیل میں تیزی اسی فیصلہ کا نتیجہ ہے۔
بینچ مارک کچے تیل برینٹ کروڈ کی قیمت 65 ڈالر فی بیرل کو پار کرگئی ہے۔ لیکن سال 2013میں جب کروڈ کے اسی ویریئنٹ کی قیمت 120ڈالر فی بیرل تھی، تب پٹرول 76روپے فی لیٹر تھا۔ اس حساب سے تو کروڈ کی قیمت کے تقریباً آدھے ہونے پر پٹرول کی قیمت بھی اسی تناسب سے کم ہوجانی چاہیے تھی۔ جس بھوٹان کو ہندوستان سے ہی تیل جاتا ہے، وہاں اس کی قیمت ہمارے یہاں کے تناسب میں آدھی ہی ہے۔ بھوٹان ہی کیوں، نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش، افغانستان اور یہاں تک کہ چین اور پاکستان میں بھی پٹرول ہمارے یہاں سے کہیں سستا مل رہا ہے۔
اسے ایک اور آسان طریقہ سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک بیرل یعنی 159لیٹر۔ 65ڈالر فی بیرل کی ہندوستانی کرنسی میں قیمت ہوئی تقریباً 4,750روپے فی بیرل یعنی تقریباً 30روپے فی لیٹر جو منرل واٹر کی ایک بوتل کے آس پاس ہی ہے۔ پھر ہم اس کے بدلے سونے کی قیمت کیوں ادا کررہے ہیں؟ اس کی وجہ ہے کچے تیل پر ہمارے یہاں لگنے والا بھاری بھرکم ٹیکس۔ ابھی مرکزی اور ریاستی حکومتیں ایک لیٹر پٹرول پر168فیصد ٹیکس وصول کررہی ہیں۔ جتنا پٹرول کا بیس پرائس نہیں ہے، اس سے زیادہ کی اس پر ایکسائز ڈیوٹی لگ رہی ہے۔ 2014سے پٹرول-ڈیژل پر لگنے والا ٹیکس 217فیصد تک بڑھ گیا ہے۔ اس میں ریاستی حکومتیں بھی پیچھے نہیں ہیں۔ سب سے زیادہ ویٹ راجستھان میں لگتا ہے اور اس کے بعد مدھیہ پردیش میں۔ پٹرول کی قیمت میں سنچری بھی انہی دونوں ریاستوں میں لگی ہے۔ بیشک اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ٹیکس سے ملی رقم سے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ریونیو میں اضافہ ہوتا ہے، جس کا استعمال ملک اور ریاستوں میں ترقی کے ہی کام میں ہوتا ہے۔ کورونا دور سے متاثرہ معیشت کے دور میں ٹیکس کے ذریعہ ریونیو میں اضافہ کی حکومتوں کی مجبوری کو خارج بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پٹرول-ڈیژل کو جی ایس ٹی کے دائرہ سے باہر رکھنے کی ایک وجہ ریونیو کی یہ ضرورت بھی ہے۔ حکومت پر معاشی طور پر کمزور اور محروم لوگوں کے لیے فلاحی اسکیموں اور سبسڈی کا انتظام کرنے کا دباؤ بھی ہوتا ہے۔ لیکن ان تمام ضرورتوں کے درمیان اس عام آدمی کی پریشانی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جو تیل کی بڑھتی قیمت کی وجہ سے خود کو بے بس محسوس کررہا ہے۔ تیل پر صفرٹیکس کی امید کوئی نہیں کررہا، لیکن کورونا دور میں جس طرح حکومت کی آمدنی محدود ہوئی ہے، اسی طرح عام آدمی کی کمائی بھی متاثر ہوئی ہے۔ ایسے میں تیل کی قیمت میں تھوڑی کٹوتی بھی عام آدمی کے لیے بڑی راحت ثابت ہوسکتی ہے۔ کچھ ریاستوں میں تو اس کی شروعات بھی ہوگئی ہے۔
آسام کی حکومت نے کورونا کے دوران لگے اضافی ٹیکس کو واپس لیا ہے جس سے پٹرول وہاں پانچ روپے تک سستا ہوا ہے۔ میگھالیہ نے بھی اپنے ریاست کے عوام کو اسی طرح کی راحت پہنچائی ہے۔ کچھ دن پہلے راجستھان نے بھی 2فیصد ویٹ گھٹایا ہے۔ باقی ریاستوں کے ساتھ مرکزی حکومت بھی اگر اس سمت میں کچھ پہل کرے تو ملک کے عوام کو مکمل طور پر نہ سہی، کچھ راحت تو مل ہی جائے گی۔ حالاں کہ حکومت بھی یہ جانتی ہے کہ ٹیکس میں راحت اس مسئلہ کا مستقل علاج نہیں ہے۔ اس لیے حکومت نے اس کے متبادل پر کام کرنا شروع بھی کردیا ہے۔ حال ہی میں تمل ناڈو میں ایک پروگرام میں وزیراعظم نے توانائی کی درآمد پر انحصار کو کم کرنے کی ضرورت بتائی ہے۔ اس کے لیے موجودہ حکومت پٹرول میں ایتھینال ملانے کا پروگرام چلا رہی ہے۔ فی الحال پٹرول میں 8.5فیصد تک ایتھینال ملایا جاتا ہے، جسے 2025تک 20فیصد تک پہنچانے کا ہدف ہے۔ تیل درآمدات کو کم کرنے کے ساتھ ہی اس سے کسانوں کی آمدنی بڑھانے میں مدد ملے گی۔ گزشتہ چھ-سات سال میں تیل اور گیس کے نئے کنوؤں کی تلاش پر بھی کافی کام ہوا ہے۔ تیل درآمدات کو محدود کرنے کے ساتھ ہی حکومت تیل کی کھپت کو بھی کم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ کئی ممالک نے شمسی توانائی، ونڈانرجی اور پن بجلی سے پیدا ہونے والی توانائی کو تیل کے متبادل کے طور پر کامیابی سے اپنایا ہے۔ ہمارے یہاں بھی حکومت نے الیکٹرک وہیکل کی حوصلہ افزائی کی پالیسی بنائی ہے، لیکن اس کے نتائج آنے میں ابھی 10-15سال اور لگیں گے۔
حکومت ایل این جی یعنی لکوڈنائیٹروجن گیس کے متبادل پر بھی سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔ ایل این جی ڈیژل کے مقابلہ تقریباً 40فیصد سستی ہوتی ہے اور سی این جی سے زیادہ آتش گیر ہونے کے سبب بس-ٹرک جیسی لمبی دوری کی گاڑیوں میں زیادہ بہتر نتائج دیتی ہے۔ لیکن ان تمام متبادل کو زمین پر آنے میں وقت لگے گا، جب کہ حکومت کے سامنے چیلنج فوری راحت پہنچانے کا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مہنگا تیل عام آدمی پر ہی بھاری پڑرہا ہے، حکومت بھی اس کی قیمت چکانے کے خطرے سے باہر نہیں ہے۔ اس کے سامنے ایک طرف معیشت کو پٹری پر لانے کا چیلنج ہے تو دوسری طرف سیاسی زمین پر پکڑ مضبوط رکھنے کا چیلنج بھی ہے۔ مغربی بنگال اور آسام میں الیکشن نزدیک ہیں اور مہنگا تیل دونوں ریاستوں میں اس کے سیاسی ہدف کو دھندلا کرسکتا ہے۔ ویسے گزشتہ چھ سال کی مدت کار میں حکومت نے مشکل سے مشکل حالات کا مؤثر طریقہ سے حل نکالا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ حکومت اسی بہترین صلاحیت سے اس چیلنج کا بھی کوئی نہ کوئی حل ضرور نکال لے گی۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS