مدارس کا تعلیمی نصاب اور مسلمانوں کے مسائل

    0

    ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
    اس میں شبہ نہیں کہ مدارس کا اپنا تشخص ہے، اپنا کردار ہے، اپنی خصوصیات واہداف ہیں، لیکن یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ قوموں کی زندگی اور ان کے عروج وزوال میں نصاب ونظامِ تعلیم کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ ہم نے پائے کے علماء اور معروف مفکرین کو یہ کہتے سنا ہے کہ اسلام علم میں دوئی اور ثنویت کا قائل نہیں، اس بات کو سب سے زیادہ قوت کے ساتھ مفکرِ اسلام مولانا علی میاںؒ نے کہا تھا۔ مولانا سید واضح رشید حسنیؒ نے ایک خطاب میں فرمایا تھا کہ جس دن مسلمان تعلیم کی ثنویت اور تقسیم کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، اس دن عہدِ ظلام سے عہدِ نور کی طرف پھر ان کا سفر شروع ہوجائے گا۔ نصاب ونظام تعلیم وقت، حالات اور زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہوں تو ان کی اہمیت بھی کم ہوجاتی ہے، افادیت بھی ختم ہوجاتی ہے، معاش کا مسئلہ بھی اہم ہوجاتا ہے اور معاشرے میں قدر وقیمت بھی نہیں رہ جاتی، اس میں ہمیشہ تغیر واقع ہوتا رہا ہے اور حالات کے تقاضے پورے کیے جاتے رہے ہیں۔ اب تو درسِ نظامی بھی مکمل طور پر نافذ نہیں لیکن یہی وہ درسِ نظامی تھا جس کے فارغین کسی ملک کے وزیراعظم بھی ہوا کرتے تھے اور مسجد کے امام وحکومت کے قاضی بھی، حالات بدلے توکیا ہوا دیکھئے مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے صاف لکھا ہے:
    ’’ادھر تعلیم کا نظام بدلا اور معمولی کشمکش کے بعد بڑے بڑے علماء وفضلاء، مشائخ وصوفیاء کی اولاد کالجوں میں جاکر بھر گئی، محمد رسول اللہؐ کے قرآن اور ان کی حدیث کو علم وفضل کے ان ہی خانوادوں نے صرف اسی لیے تنہا چھوڑ دیا کہ مسلمانوں کے پسماندہ غریب خاندان ان کو پڑھ پڑھالیں گے، اور یہ تو میں کہتا ہوں ورنہ سادات کرام وصوفیائے عظام کے ان تعلیم یافتہ صاحبزادوں کے سامنے تو یہ بھی نہیں ہے، عموماً قوم کی ایک بڑی تعداد ان کے نزدیک عربی مدارس کے گورکھ دھندوں میں الجھ کر توانائیوں کے عظیم ذخیرہ کو برباد کردے گی‘‘۔
    یہ بات مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے کئی دہائیوں قبل لکھی تھی۔ ان کی مشہورِ زمانہ کتاب میں ہندوستان کے نظامِ تعلیم اور اس کے متعلقات پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ تغیر پذیری کا جائزہ لیا گیا ہے۔ انھوں نے خوب آئینہ دکھایا ہے، واضح کیا ہے کہ متغیر حالات کا نصاب پر کیا اثر پڑتا ہے، کس طرح معاش کا مسئلہ ایک اضطراب بن جاتا ہے، کیسے شریف لوگ مختلف پیشے اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اب تو حالات یکسر بدل چکے ہیں، جو چیزیں کبھی اضافی لگتی تھیں وہ اب ضرورت محسوس ہونے لگی ہیں۔ شکر ہے کہ ہائی اسکول کی ضرورت واہمیت کو تسلیم کرلیا گیا لیکن اس سے ضرورت نہیں پوری ہوتی یہ بھی ایک اور واقعہ ہے۔
    یہ ضرورت پورے طور پر تب پوری ہوگی جب دو قدم آگے بڑھ کر بنیادی عصری علوم کو مدارس اپنے ثانویہ میں شامل کرلیں گے اور ثانویہ سے فراغت کے بعد طلبا کے سامنے کئی آپشن ہوں گے۔ اسکول میں جب بچہ ہائی اسکول کرتا ہے تو اس کے سامنے تین آپشن ہوتے ہیں کہ وہ سائنس، میتھ یا کامرس کی راہ اختیار کرلے، مدارس عربیہ اگر ثانویہ تک عصری علوم اختیار کرلیں تو ان کے یہاں اوپن اسکولنگ کے سینٹر سے ہائی اسکول کرنے والے کو اختیار ہوگا کہ یا تو وہ اسکول کی راہ اختیار کرے اور تینوں میں سے کوئی ایک آپشن کا انتخاب کرے یا اپنی مرضی سے مدارس میں آگے علوم دینیہ میں اختصاص حاصل کرلے، اس صورت میں جو علماء تیار ہوں گے وہ اپنی مرضی اور اپنے انتخاب سے ہوں گے اور بنیادی عصری علوم اور عصری تقاضوں سے نہ صرف واقف ہوں گے بلکہ ان کے پاس ہائی اسکول کی سند ہوگی، آگے مزید ان کے لیے راستے کھلے ہوں گے۔ اسی طرح جو طلبا عصری علوم کے میدان میں جائیں گے، وہ ضروری اور بنیادی دینی علوم اور ملی شعور سے آراستہ ہوں گے۔ آج معاشرے میں جو اضطراب پایا جاتا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دین کے حاملین اور دینی مدارس کے فارغین کے لیے راہیں محدود ومسدود ہیں، وہ باوجود اپنے ملی شعور کے ملک کے سسٹم میں کہیں فٹ نہیں ہو سکتے اور جو اسکول کے فارغین سسٹم سے وابستہ ہوتے ہیں، ان میں سے بیشتر حلال وحرام سے بے پروا، ملی شعور سے عاری، جذبہ رحم وخدا ترسی سے کوسوں دور ہوتے ہیں، ان دونوں طبقوں میں خود ہی رسہ کشی جاری رہتی ہے، دیگر لوگوں سے شکوہ کیسا۔
    دراصل یہ جو تقسیم روا رکھی گئی ہے یہی بے جا اور نادرست ہے، اسی کے سبب سارا اضطراب ہے۔ اب اگر دیر سے ہی سہی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم نے یہ مان لیا ہے کہ مدارس کے طلبا کی شبیہ کو بہتر کرنے اور الزامات دھونے کی ضرورت ہے، بالفاظِ دیگر انھیں مین اسٹریم اور ملکی سسٹم میں لانے کی ضرورت ہے تو پھر اس کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ بڑے مدارس اقدام کریں۔یہ خیال دل سے نکال دیں کہ حالات کے مطابق تبدیلی سے مدارس کی اپنی شناخت ختم ہوجائے گی، وہ اپنے مرکزی کیمپس کو علوم دینیہ کے اختصاص کے لیے مختص رکھیں مگر اپنے ملحقہ اداروں کو ہدایت دیں کہ وہ ثانویہ کے نصاب میں بنیادی عصری علوم شامل کریں اور این آئی او ایس کے ذریعہ ہائی اسکول کرائیں۔ اس طرح تقسیم کے اس ناسور کو ختم کیا جاسکتا ہے اور بہت بڑے اضطراب سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ اگر وحدانی نظام تعلیم کی کچھ حقیقت ہے تو سچ یہ ہے کہ اس نظامِ تعلیم کی جتنی ضرورت اب ہے اتنی شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ مسلمانوں کے دورِ عروج کا از اول تا آخر جائزہ لیا جائے تو کہیں یہ تقسیم نظر نہ آئے گی جو اس وقت محض ضد یا ناسمجھی کی بنا پر رائج ہے اور جس سے پورا معاشرہ بلکہ پوری ملت ایک کشمکش میں مبتلا ہے۔ عقلمند قومیں مثبت تبدیلیوں کی جانب خود ہی اقدام کرتی ہیں، اس سے پہلے کہ انقلابِ زمانہ انھیں زیر وزبر کرکے رکھ دے۔ اگر ہم نے وقت رہتے ہوئے مثبت تبدیلی کی جانب توجہ نہ دی تو یقینازمانہ بدل دے گا، حالات کے پیشِ نظر جو اقدام کیا گیا وہ بہت قابلِ تعریف ہے لیکن کیا خوب ہو کہ تبدیلی اس طرح کی جائے جس کی واقعی ضرورت ہے اورجس کی طرف سطورِ بالا میں اشارہ کیا گیا۔ مولانا گیلانیؒ کی ان سطروں پر مضمون ختم کرتا ہوں:
    ’’میں یہی پوچھنا چاہتا ہوں کہ آج جس حال میں اس ملک کے بلکہ سارے جہاں کے مسلمان تعلیمی نصاب کی اس دوعملی کی وجہ سے تذبذب کے شکار ہیں کیا یہ کوئی خوشگوار صورت ہے اور اس کی مستحق ہے کہ اس کو باقی رکھا جائے۔ کیا عوام کو علماء اور تعلیم یافتہ لوگوں یا لیڈروں اور مولویوں کے قدموں کی ٹھوکرمیں اسی طرح ڈالے رکھنا کسی اچھے انجام کی ضمانت اپنے اندر رکھتا ہے؟ کشمکش کی یہ ناگوار صورت اگر اس قابل ہے کہ جس طرح ممکن ہو اس کو ختم کیا جائے تو پھر لوگوں نے ان بزرگوں کی کیوں قیمت نہیں پہچانی جنھوں نے تیرہ سو سال کی اس طویل مدت میں علم کی اس دو عملی اور تقسیم کو شدت کے ساتھ روکے رکھا ۔ لوگ سوچتے نہیں ہیں، ورنہ میں مسلمانوں کے چند اہم کارناموں میں ان کا ایک بڑا کارنامہ تعلیمی نصاب کی وحدت کو بھی سمجھتا ہوں۔ تیرہ سو سال کی تاریخ گواہ ہے کہ ان میں وہی تعلیم یافتہ بھی تھے اور وہی علماء تھے ، جنہیں آج تعلیم یافتہ کہا جاتا ہے ۔ فلسفی بھی پیدا ہو رہے تھے اور ریاضی داں بھی ، حکیم بھی ، مہند س بھی، محدث بھی، مفسر بھی، طبیب بھی، شاعر بھی، ادیب بھی، صوفی بھی، لیکن یہ کیسی عجیب بات تھی کہ تعلیم کا ایک نظام تھا، جس سے یہ ساری مختلف پیداواریں نکل رہی تھیں ‘‘۔
    [email protected]

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS