وویک اوجھا
کیا ایسی نیا کا تصور کیا جاسکتا ہے جس میں بچوں کو دہشت گردی، انتہاپسندی یا علیحدگی پسند جیسے نام دینا جائز ہو؟ نوجوان اور بالغ تو جان بوجھ کر نقصان- فائدہ کا اندازہ کرکے اور گمراہ ہوکر بھی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شامل ہوجاتے ہیں، لیکن کیا بچے بھی خود سے فیصلہ کرکے دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہوتے ہیں؟ اگر اس بات کا جواب نہیں میں ہے تو پھر وہ کون لوگ ہیں جو بچوں کے نام پر دہشت گردی کا کاروبار کرہے ہیں۔ تشدد، شرپسندوں سے گھرے ممالک میں جہاں فاقہ کشی ہے، بے روزگاری ہے وہاں سرپرستوں کو بھی یہ دیکھنے کا وقت نہیں ہے کہ ان کے بچے کہاں ہیں اور کس کام میں استعمال ہورہے ہیں۔ شام، لیبیا اور دیگر افریقی ممالک کے لوگ خانہ جنگی، نسلی جنگ، قدرتی آفات، غیرقانونی ہجرت، مہاجروں کا مسئلہ، نسل کشی، دہشت گردی اور ایسے ہی نہ جانے کتنے مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔ ایسے ممالک میں ہی دہشت گرد تنظیمیں نئی بھرتیوں اور ٹریننگ کے لیے لیبارٹریزبناتی ہیں، جہاں سے ایک لڑکے کو دہشت گرد کا خطاب ملتا ہے۔
حال میں اسی ایشو پر اقوام متحدہ میں ہندوستان کے غیرمستقل نمائندہ نے بچوں اور مسلح جدوجہد پر اپنا موقف رکھتے ہوئے کہا کہ بچوں کو غیرملکی دہشت گرد جنگجو کا درجہ دینا انسانی وقار کو داغ دار کرنے اور غیرانسانیت کو فروغ دینا ہوگا۔ ہندوستان نے اس بات کی ضرورت کو نشان زد کیا کہ ممالک کو مسلح جدوجہد سے متاثر نوعمر نوجوانوں کے ان کے اصل ممالک میں واپسی اور بحالی/رہائش/آبادہونے کو یقینی بنانے کے لیے صحیح وژن کو فروغ دینا اور اپنانے کی ضرورت ہے۔ بچوں کو دہشت گرد تسلیم کرکے ان سے پیشہ ور دہشت گردوں جیسے نمٹنے کی پالیسی یقینی طور پر غیرانسانی ہوگی۔ غورطلب ہے کہ سیکورٹی کونسل نے2014میں ایک تجویز(نمبر2178) پاس کی تھی جو یہ متعین کرتی ہے کہ غیرملکی دہشت گرد لڑکا (جنگجو) کون ہے۔ غیرملکی دہشت گرد جنگجو کو ایسے شخص کے طور پر متعین کیا گیا ہے جو اپنے وطن ملک یا قومیت کے ملک سے الگ کسی دیگر ملک کا سفر دہشت گردانہ کارروائیوں کو انجام دینے یا اس کا منصوبہ بنانے کے لیے کرتا ہے یا دہشت گردی کی ٹریننگ دینے یا لینے کے لیے جاتا ہے اور وہ مسلح جدوجہد سے وابستہ ہوتا ہے۔
بچوں کو بہلا پھسلا کر انہیں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں جھونکنا دہشت گرد تنظیموں کے لیے مشکل کام نہیں ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں ایسے بچوں کو جاسوس، خانساماں، خودکش حملہ آور یا انسانی سیکورٹی کوچ کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اس عمل میں جو سب سے سنگین بات سامنے آتی ہے، وہ ہے بین الاقوامی منظم جرائم کو بڑھاوا ملنا۔ انسانی اسمگلنگ اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے بچوں کی غلامی کو بڑھاوا ملنا اس کی سب سے سکویڈ فارم ہے۔ بچوں کے حقوق پر1924کی جنیوا ڈکلیئریشن اور 20نومبر1959کو بچوں کے حقوق پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ذریعہ ایڈوپٹیڈ ڈکلیئریشن میں بیان کیے گئے بچوں کے حقوق کو محفوظ کرنے کی بات کی گئی ہے۔ انسانی حقوق پر یونیورسل ڈکلیئریشن، 1948 اور انسانی حقوق پر بین الاقوامی معاہدوں کے تحت سبھی لوگوں کے حقوق اور آزادی جس میں بچوں کے حقوق بھی شامل ہیں، کو محفوظ کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اس معاملہ میں ذات، رنگ، مذہب، زبان وغیرہ کی بنیاد پر کسی طرح کی تفریق نہ کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ شہری اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ کے آرٹیکل23کے تحت اور معاشی، معاشرتی اور ثقافتی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ کے آرٹیکل 10کے تحت بچوں کے خصوصی حقوق اور فلاح کے لیے ضروری کام کیے جانے پر زور دیا گیا ہے۔
بچوں کو بااختیار بنانے کا تحفظ بنیادی حقوق، انسانی حقوق، انسانی وقار کا تحفظ اور انسانی سرمایہ کی تخلیق کے نقطہ نظر سے انتہائی ضروری ہے۔ اسی جذبہ کو دھیان میں رکھ کر 20نومبر1989کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تجویز نمبر44/25کے تحت اس معاہدہ کو اپنایا گیا اور اسے دنیا کے ممالک کے سامنے دستخط اور حمایت کے لیے پیش کیا تھا۔ اس میں یونائیٹڈ نیشنس آرگنائزیشن کے چارٹر کے مطابق دنیا میں آزادی، انصاف اور امن کی بنیاد رکھنے کے لیے بچوں کو بااختیار بنانے کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے آرٹیکل 6میں ہی یہ التزام بھی ہے کہ ریاستی پارٹیاں بچوں کی بقا اور ان کی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ ممکنہ اقدامات کو یقینی بنائیں گی۔یہاں یہ جاننا اہم ہے کہ پوری دنیا میں مختلف طرح کی جنگیں اور خانہ جنگی ہورہی ہیں۔ میانمار میں روہنگیا مسئلہ، شام میں پناہ گزینوں کا مسئلہ، ایران، عراق اور افغانستان کے اندرونی خلفشار اور افریقی ممالک میں ہونے والی نسلی پریشانیوں میں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور بچوں کے وجود پر خطرہ بنا رہتا ہے۔ اسی لیے بچوں کی بقا کو محفوظ کرنے اور ان کی کثیرجہتی ترقی کو بھی یقینی بنانے کے لیے سبھی ممبرممالک کو مناسب کوششیں کرنے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں۔
بچوں کے حقوق کے تحفظ کا معاہدہ اقوام متحدہ کی ایک بڑی عالمی کوشش ہے۔ اس کے لیے بچوںکو باختیار بنانے کے تحفظ کو ایک عالمی تحریک بنانے کے خیال کے ساتھ اہم التزامات کیے گئے ہیں۔ اس معاہدہ میں ممبر ممالک کے بچوں کو سبھی طرح کی اذیتیں، معاشی استحصال اور منشیات کے غیرقانونی استعمال سے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے پر زور دیا گیا ہے۔ اسی سلسلہ میں 12جنوری 2002کو بچوں کے حقوق کے تحفظ کو مضبوطی دینے کے مقصد سے مسلح جنگ میں بچوں کی شمولیت سے متعلق معاہدہ پر متبادل پروٹوکول عمل میں آیا تھا۔ یہ پروٹوکول ممبرممالک میں ہونے والی باغی تحریکوں میں بچوں کو جنگ میں شامل نہ کرنے کے لیے اپیل کرتا ہے۔
بچہ فوجیوں کو مختلف طرح کی پریشانیوں کا سامنا رہا ہے۔ بالخصوص افریقی ممالک میں خانہ جنگی اور نسلی جنگ میں بچہ فوجیوں کا استعمال کیا گیا۔ اس وقت دنیا میں 18برس سے کم عمر کے 3لاکھ سے بھی زیادہ ایسے بچے ہیں جنہیں فوجیوں، کیمپ ورکروں اور غلاموں و اسمگلروں کے طور پر کام کرنا پڑرہا ہے۔ بچوں کا فوجیوں کے طور پر استعمال کرنا بے رحمانہ اور غیرانسانی عمل میں سے ایک ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں یہ عام ہے۔ 18جنوری 2002کو ایک دیگر پروٹوکول نافذ کیا گیا تھا جو بچوں کی جسم فروشی، فحاشی اور بچوں کی غلامی پر پابندی عائد کرتا ہے۔ یونیسیف کے مطابق دنیا میں ہر برس تقریباً 10لاکھ بچوں، جن میں زیادہ تر لڑکیاں ہیں کو جنسی تجارت میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
ہندوستان میں نکسلیوں اور ماؤنوازوں اور شمال مشرق کی ریاستوں میں سرگرم علیحدگی پسند گروپوں کے ذریعہ بچہ فوجیوں کی بھرتی اور انہیں پرتشدد سرگرمیوں میں لگانے کی رپورٹیں آتی رہتی ہیں۔ ایشین سینٹر فار ہیومن رائٹس نے 2013کی رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ ہندوستان میں جموں و کشمیر اور شمال مشرق ہندوستانی ریاستوں میں کم سے کم تین ہزار بچہ فوجیوں کو پرتشدد سرگرمیوں کو انجام دینے کے مقصد سے انتہاپسند تنظیموں میں بھرتی کیا جاچکا ہے۔ ہندوستان نے اس الزام کو خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان میں ایسا کوئی دہشت گرد یا علیحدگی پسند گروہ نہیں ہے جو بچوں کو فوجی مہم کے لیے بھرتی کرتا ہو۔ ہندوستان نے 5نومبر 2004کو مسلح جدوجہد میں بچوں کی شمولیت پر متبادل پروٹوکول پر دستخط کیے تھے اور 30نومبر 2005 کو اس کی حمایت بھی کردی تھی۔ اس کے باوجود 2005 کے بعد سے چھتیس گڑھ جیسے نکسل متاثرہ علاقوں میں بچہ فوجیوں کی بھرتی کے الزام انسانی حقوق کی تنظیموں نے ہندوستان پر لگائے ہیں۔
(بشکریہ: جن ستّا)