محمد حنیف خان
خوشحال ملک کی یہ علامت ہوتی ہے کہ وہاں کے عوام کو ضروریات زندگی کے لیے در در بھٹکنا نہ پڑ رہا ہو،خواہشات کی خواہ تکمیل نہ ہوپاتی ہو مگر ضروریات بڑی آسانی سے پوری ہو جاتی ہوں۔یہ پیمانہ کسی زمان و مکان سے نہ وابستہ ہے اور نہ ہی محدود و مقید بلکہ یہ آفاقی ہے۔خواہشات اور ضروریات کی کشمکش میں اس وقت پوری دنیا پریشان ہے،اور ہندوستان کے لیے تو یہ دونوں چکی کے دو پاٹ ہیں جس میں عوام پِس رہے ہیں۔اگر ابرز طور پر دیکھا جائے تو ملک میں دو ہی طبقے پائے جاتے ہیں ایک وہ جس کے پاس خواہشات کی تکمیل سے کہیں زیادہ دولت ہے اور دوسرا طبقہ وہ جو ضروریات کی عدم تکمیل کی بنا پر زندگی تک ہار جاتا ہے۔ایسے میں ان دونوں میں توازن کیسے پیدا ہو یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
یوںتو ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں توازن کو برقرار رکھے کیونکہ توازن ہی وہ شے ہے جو زندگی کو خوشیوں سے بھرے رہتی ہے،یا یوں کہہ لیجیے کہ وہ زندگی کا رشتہ زندگی سے قائم رکھتی ہے لیکن اصل ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ ضروریات اور خواہشات کے مابین جاری کشمکش کو ختم کرکے معاشی لحاظ سے ملک میں توازن پیدا کرے تاکہ جن کے پاس بے پناہ دولت ہے اور ان کی خواہشات سے سیکڑوں گنا زیادہ دولت ہے اور جن کے پاس ضروریات کی تکمیل کے وسائل نہیں ہیں، ان دونوں کے مابین توازن برقرار رہے۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھلا حکومت کیونکر اور کیسے یہ ذمہ داری ادا کر سکتی ہے؟تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ حکومت کے علاوہ یہ کام کوئی کر ہی نہیں سکتا ہے۔کیونکہ اسی کے پاس اول ہر طرح کی تفصیلات ہوتی ہیں اور اسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ مختلف نوعیتوں کی اسکیموں کی خاکہ سازی کر کے ان کا نفاذ کرے لیکن یہ طویل مدتی منصوبہ اور خاکہ ہے۔قلیل مدتی خاکہ یہ ہے کہ عوام کی ضروریات کی اشیا کم قیمت پر انہیں مہیا کرائی جائیں،یومیہ استعمال کی چیزوں کے حصول میںان کو دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اشیا کی قیمتیں ایسی ہوں کہ کسی بھی شخص کی قوت خرید سے باہر نہ ہوں۔ان اشیا میں بھی زمرہ بندی ہوتی ہے کہ کون سی چیزیں کس طبقے کے استعمال میں زیادہ آتی ہیں مگر کچھ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن کا استعمال ہر شخص کرتا ہے۔ دال،چاول اور سبزی جیسی اشیاء خوردنی،ڈیزل اور پٹرول جیسی چیزیں ایسی ہیں جن کا استعمال ہر شخص کرتا ہے جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔اب اگر دال، چاول اور آلو جیسی چیزیں بھی انسان کی قوت خرید سے باہر ہوجائیں تو بھلا ان کی خواہشات کا کیا ہوگا؟ اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ابھی زیادہ دن کی بات نہیں ہے جب آلو پچاس روپے کلو فروخت ہو رہا تھا،مگر اس وقت وہی آلو بیس روپے کلو فروخت ہو رہا ہے جو ہر شخص کی قوت خرید میں ہے لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت یہ سیدھے کسان کے پاس سے منڈی پہنچ رہا ہے، اس لیے اس کی قیمتیں کم ہیں جیسے ہی یہی آلو صنعت کاروں کے کولڈ اسٹوریج سے نکل کر باہر آئے گا پھر اسی قیمت میں پہنچ جائے گا۔چونکہ اس وقت سرمایہ کاروں کو کولڈ اسٹوریج بھرنا ہے، اس لیے غریبوں اور کسانوں کی اشیا کم قیمت پر فروخت ہورہی ہیں،اس میں حکومت کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ کسانوں اور غریبوں کو ان کی پیداوار کی مناسب قیمت دلاتی اور پھر جب یہی سرمایہ کار اس کو بازار میں لاتے تو ان پر نظر رکھتی تاکہ حد سے زیادہ وہ منافع نہ لیں جس سے عوام کی زندگی اجیرن ہوجائے۔یہ مسئلہ صرف کسی ایک پیداوار /اناج کا نہیں ہے یہ مسئلہ کسان کی سبھی پیداوار کا ہے کہ اس سے تو کم قیمت پر خریداری کی جاتی ہے مگر بعد میں پروسیسنگ یا بغیر پروسیسنگ کے اسی کے ہاتھوں مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں۔ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ حکومت بھی کسانوں کے بجائے سرمایہ کاروں کے حق میں کام کرنے لگتی ہے اور ان کو فائدہ پہنچانے لگتی ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو ایم ایس پی/حکومت کے ذریعہ حمایت یافتہ قیمت جس پر وہ خود متعینہ مقدار میں دھان اور گیہوں وغیرہ کی خریداری کرتی ہے، وہی وہ اناج کے کاروباریوں اور آڑھتیوں کے لیے بھی لازم کردیتی مگر چونکہ ان لوگوں کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے، اس لیے وہ اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے، بس یہ کہہ رہی ہے کہ ایم ایس پی تھا، ہے اور رہے گا۔یقینا حکومت اپنے قول میں سچی ہے مگر اس کی سچائی کا دائرہ بہت محدود ہے۔اگر حکومت اس جانب توجہ دے دے اور اس کو لازم کردے تو یقینا اس سے وہ لوگ جن کی ضروریات بھی معاشی تنگی کی وجہ سے پوری نہیں ہوپاتی ہیں، وہ پوری ہوجائیں اور جن کے پاس ان کی خواہشات سے زیادہ ہے ان پر کوئی فرق بھی نہیں پڑے گا۔حکومت اس طرح ضروریات سے کم اور خواہشات سے زیادہ والے طبقوں کے مابین کشمکش میں کمی لا سکتی ہے۔
کورونا جیسی عالمی وبا کی وجہ سے پہلے سے ہی عوام کی قوت خرید بری طرح سے متاثر ہوچکی ہے،اب دھیرے دھیرے معیشت پٹری پر آنے لگی اور لوگ دو چار پیسہ کمانے لگے ہیں مگر مہنگائی نے ان کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔اشیا کی مہنگائی میں سب سے زیادہ حصہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا ہے،جس کا نہایت منفی اثر عوام کی زندگی پر پڑ رہا ہے۔وہ عدم قوت خرید کا شکار ہوچکے ہیں۔ ڈیزل کی بڑھتی قیمت سے جہاں حمل و نقل پر آنے والا صرفہ بڑھ گیا ہے،وہیں دوسری جانب یہ وقت گیہوں کی آبپاشی کا ہے،اس بار سرمائی بارش بھی نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے کسانوں کو کم از کم تین بار پمپ سیٹ سے کھیتوں میں پانی لگانا پڑ رہا ہے۔اسی طرح سے آم کے پیڑ پر بور بھی آنے لگے ہیں، باغات کو بھی پانی کی ضرورت ہے، اس کے لیے بھی کسانوں کو پمپ سیٹ کا ہی سہارا لینا پڑ رہا ہے،جو بغیر ڈیزل کے ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں حکومت عوام کو راحت دینے کے بجائے ان پر مزید بوجھ ڈال رہی ہے۔
ڈیزل کی اصل قیمت تقریباً 34روپے ہے جبکہ وہ عوام کو 79روپے میں مل رہا ہے تقریباً 45روپے اضافی عوام کو ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔اسی طرح سے پٹرول کی اصل قیمت تقریباً 32روپے ہے جبکہ وہ عوام کو 89روپے میں مل رہا ہے۔اس طرح عوام کو پٹرول پر تقریباً 57روپے اضافی ادا کرنے پڑ رہے ہیں،یہ اضافی رقم تین جگہ جا رہی ہے، اگر یہ تینوں ادارے اپنے اپنے حصے میں تھوڑی تھوڑی کمی کردیں تو عوام کو راحت مل جائے۔مرکزی اور ریا ستی حکومتیں اپنے ٹیکس میں کمی کریں اور ایجنسیاں/سرمایہ کار اپنے منافع میں کمی کریں تو ضرورت والوں کی ضرورتیں پوری ہوجائیں۔ ملک میں پٹرول کے مقابلے ڈیزل کا استعمال زیادہ ہے، اس کے باوجود مرکزی حکومت نے 2014 میں اس پر دی جانے والی سبسڈی ختم کردی تھی، اسی طرح حکومت نے تیل کی قیمتوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے بجائے نجی کمپنیوں کے ہاتھوں میں دے دیا۔ ظاہر سی بات ہے یہ نجی کمپنیاں سرمایہ کاروں کی ہی ہیں جن کے پاس پہلے سے ہی خواہشات سے زیادہ دولت ہے مگر وہ ضرورت سے کم والوں کا خون چوس رہی ہیں، ایسے میں حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جہاں ایک طرف اپنے ٹیکس میں کمی کرکے عوام کو راحت دے، وہیں دوسری جانب نجی کمپنیوں پر بھی قدغن لگائے کہ وہ عوام کو نچوڑنے کے بجائے ان کی ضرورتیں پوری کریں کیونکہ یہ نجی کمپنیاں بھی دعویٰ ’’نیشن بلڈنگ‘‘ (تعمیر ملک) کا ہی کرتی ہیں مگر ان کی تعمیر تخریب کی صورت میں سامنے آ رہی ہے۔یہ معاملہ صرف ڈیزل یا پٹرول سے وابستہ کمپنیوں کا نہیں ہے،کسی بھی شعبے میں نجی کمپنیوں کو دیکھ لیں، ان کی وصولی کا گراف اعلیٰ ہی ہوتا ہے خواہ وہ ہاسپٹلٹی ہو یا پھر ایجوکیشن یا کوئی اور شعبہ ہر جگہ یہ تعمیر ملک کے نام پر تخریب میں ملوث نظر آتی ہے، ان کی یہ معاشی تخریب سماج میں خلیج پیدا کر رہی ہے۔
حکومت کو ایسی معاشی پالیسی نافذ کرنا چاہیے جس سے ان دونوں کے مابین توازن قائم ہو،ایسا نہ ہو کہ دنیا کو دکھانے اور شبیہ سازی کے لیے ہر چیز پرائیویٹ ہاتھوں میں دے دی جائے،جس کا فائدہ چند لوگوں تک ہی محدود ہوگا لیکن اس کا نقصان بہت وسیع پیمانے پر ہوگا کیونکہ ایسی صورت میں عوام کی رسائی سے چیزیں باہر ہوجائیں گی۔ حکومت کو ملک کے غالب عوام کی قوت خرید اور سطح زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے خاکہ سازی کرنا چاہیے۔حکومت کے ساتھ اپوزیشن کوبھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا چاہیے اور غیرمتوازن پالیسیوں اور مہنگائی کے خلاف ان کو عوام کے ساتھ کھڑا ہو نا چاہیے۔ایک مضبوط اپوزیشن ہی حکومت کی ناک میں نکیل ڈال کر اس کو عوام کی ضروریات اور مزاج کے مطابق کام کرنے پر مجبور کرسکتی ہے، اس لیے اپوزیشن کو اب خواب سے بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔
[email protected]