کوئی مسئلہ اگر پیچیدہ نظر آنے لگتا ہے تو یہ امید رہتی ہے کہ عدالت میں جانے پر اس کا حل نکل آئے گا۔ مسئلہ اگر بڑا ہو تو یہ امید رہتی ہے کہ ملک کی عدالت عظمیٰ انصاف کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس پر فیصلہ دے گی، بڑی کمپنی کے دباؤ میں آنے کے بجائے مفاد عامہ کے حق میں فیصلہ دے گی، واٹس ایپ نے نئی پرائیویسی پالیسی پیش کی، اس کے لیے صارفین کو 8 فروری 2021 کی تاریخ دی اور اسے قبول کرنے کے ساتھ نہ ماننے کا متبادل نہیں رکھا تو صارفین میں کھلبلی مچنی فطری تھی۔ وطن عزیز ہندوستان میں اس کے خلاف ردعمل آنا بھی فطری تھا۔ واٹس ایپ کے فروری، 2020 تک دو ارب صارفین میں سے ایک اندازے کے مطابق 40 کروڑ سے زیادہ یعنی 20 فیصد سے زیادہ صارفین ہندوستان میں تھے۔ ہندوستان کے لوگوں نے واٹس ایپ کو اپنانے میں جتنی فراخ دلی دکھائی، اس پر جتنا اعتماد کیا، اس کی نئی پرائیویسی پالیسی اس کے برعکس تھی۔ یہی وجہ تھی کہ لوگوں نے ایک طرف واٹس ایپ کو چھوڑ کر سگنل ، ٹیلی گرام اور دیگر میسیجنگ ایپس اپنانے پر توجہ دی تو دوسری جانب یہ معاملہ ملک کی سب سے بڑی عدالت تک پہنچا۔ آج اسی کی سنوائی تھی اور ہندوستان کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے اس سلسلے میں اپنا واضح مؤقف پیش کر دیا ہے جو عام لوگوں کے لیے اطمینان کا باعث ہوگا تو دیگر ملکوں کی عدالتوں کے لیے رہنما بھی ہوگا۔
نئی پرائیویسی پالیسی پر عدالت عظمیٰ نے مرکز اور واٹس ایپ کو نوٹس جاری کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہندوستان کے چیف جسٹس نے حکومت اور واٹس ایپ سے جواب مانگا ہے۔ اس کے لیے عدالت عظمیٰ نے چار ہفتے کا وقت دیا ہے۔ عدالت سے یہ بات مخفی نہیں کہ ملک کے لوگوں کو واٹس ایپ کی نئی پرائیویسی پالیسی پر گہری تشویش ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ’لوگوں کو اس بات کا بڑا خدشہ ہے کہ وہ اپنی پرائیویسی کھو دیں گے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کا تحفظ کریں۔‘ واٹس ایپ کمپنی کے جواب دینے پر لوگوں کی پرائیویسی پراس کا مؤقف سامنے آئے گا اور سوالوں کے جواب سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی۔ ویسے واٹس ایپ صارفین کو یہ یقین دلارہا ہے کہ ان کا ڈیٹا محفوظ رکھا جائے گا، انہیں کوئی نہیں دیکھے گا، واٹس ایپ بھی نہیں۔ اس کی یقین دہانی یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ جب صارفین کے ڈیٹا کو کوئی نہیں دیکھے گا، واٹس ایپ بھی نہیں، پھر ان کے ڈیٹا کو جمع کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیا واٹس ایپ انتظامیہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ ڈیٹا بس یوں ہی جمع کیا جائے گا؟ اور اگر وہ ایسا کہے گا تو کیا صارفین اس کی بات مان لیں گے؟ سوال یہ بھی ہے کہ واٹس ایپ کے لیے صارفین بہت اہم ہیں تو اس نے یہ انتباہ کیوں جاری کیا کہ اس کی نئی پرائیویسی پالیسی نہ قبول کرنے والوں کو 8 فروری، 2021 کے بعد سروس نہیں دی جائے گی اور اس کے خلاف آواز اٹھنے پر تاریخ بڑھا دی گئی؟
نئی پرائیویسی پالیسی میں ڈیٹا جمع کرنے کی بات ہی صحیح نہیں معلوم ہوتی، اس پر طرہ یہ کہ واٹس ایپ نے صارفین کے لیے یہ گنجائش ہی نہیں چھوڑی کہ وہ اسے قبول کریں یا نہ کریں۔ یہ تحکمانہ انداز کمپنیوں کا نہیں ہونا چاہیے، وہ عدالت نہیں کہ فیصلہ سنا دیں بلکہ عدالتوں کا نظام بھی ایسا ہوتا ہے کہ فیصلوں کی نظر ثانی کے لیے گنجائش رکھی جاتی ہے، کیونکہ انصاف دینے اور لینے میں یقین رکھنے والوں کو اگر عدالت کا فیصلہ کھٹک جاتا ہے تو وہ اس کے خلاف بولنے سے نہیں چوکتے، پھر کوئی کمپنی یہ امید کیسے کر سکتی ہے کہ وہ اپنا حکم تھوپے گی اور لوگ خاموش رہیں گے۔ غلط بات پر خاموشی انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی، انسان بنے رہنے کے لیے غلط باتوں کے خلاف زبان کھولنی ہی پڑتی ہے، اس لیے واٹس ایپ کے خلاف لوگوں نے آواز بلند کی ہے۔ ان کا آواز بلند کرنا اس لیے جائز ہے کہ ہمارے ملک میں انصاف کا ایک نظام ہے، لوگوں کو بولنے کی آزادی ہے، غلط حرکتوں پر نظر رکھنے کے لیے ادارے ہیں، ملزمین کو کٹہرے تک پہنچانے کے لیے پولیس ہے، ہندوستان کے ہر شہری کا ڈیٹا آدھا ر کی شکل میں حکومت کے پاس ہے، پھر واٹس ایپ کیوں الگ سے لوگوں کا ڈیٹا رکھنا چاہتا ہے؟ اس کی انتظامیہ کمپنی چلانا چاہتی ہے یا اس کا کوئی اور عالمی منصوبہ ہے، یہ تو وہی بتا سکتی ہے، البتہ وطن عزیز ہندوستان کی سب سے بڑی عدالت کی یہ بات بجا ہے کہ ’کوئی کمپنی چاہے ٹریلین کی ہو مگر لوگ اپنی پرائیویسی کو اس سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔‘ اس بات پر واٹس ایپ کو غور کرنا چاہیے۔
[email protected]
ایس سی کا واضح مؤقف
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS