عصبیت چاہے نسلی، لسانی، طبقاتی ہویا مذہبی اور علاقائی اپنے باطن میں ایک خاموش طوفان کی طرح ہوتی ہے۔مفاد پر پڑنے والی ذرا سی ضرب اس طوفان کو متحرک کردیتی ہے اور یہ اپنے ساتھ اعلیٰ و ارفع انسانی اخلاق واقدار اور اصولوں کو خس و خاشاک کی طرح بہالے جاتا ہے۔ظلم و تعدی، قتل وغارت گری، تذلیل انسانیت یہ سب اسی عصبیت کی کوکھ سے پیدا ہوتی ہیں۔ہرچند کہ حیوان ناطق کو اس سے مفر نہیں ہے لیکن تحمل و برداشت، رواداری اورپرامن بقائے باہم کا وظیفہ اس عصبیت کو لگام دیے رہتا ہے۔ ہندوستان میں علاقائی عصبیت کے بڑے بڑے بتوں کو گرا کرکشمیر سے کنیاکماری اور کچھ سے اروناچل تک کو وفاق کی ایک لڑی میں پرویا گیا اور ہندوستان ریاستوں کے ایک اتحاد کی شکل میں سامنے آیا۔اس وفاق یا ریاستوں کے اتحاد ہندوستان میں رہنے والے ہر شخص کو مساوی درجہ حاصل ہے۔ ملک کی ہر ریاست کے ہر شخص کو یہ آئینی استحقاق ہے کہ وہ بلاروک ٹوک کہیں آجاسکتا ہے۔ ایک ریاست کے مقیم کو دوسری ریاست میںبیرونی اور باہری قرار دیناہندوستان کے وفاقی ڈھانچہ پرضرب لگانے جیسا ہے۔
لیکن مغربی بنگال کے موجودہ سیاسی منظر نامہ میں یہ علاقائی عصبیت آج کل سر چڑھ کر بول رہی ہے۔آنے والے اسمبلی انتخاب سے قبل بنگال میں باہری اور اندرونی کی لڑائی زوروں پر ہے۔مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ اور ترنمو ل سپریمو ممتابنرجی کا خیال ہے کہ انتخابی تشہیر کے نام پر باہر سے حملہ آور طاقتیں بنگال آرہی ہیں۔یہ باہری ہیں اوربنگال کی زبان اور تہذیب وثقافت سے نابلد ہیں۔ وہ کسی حال میں بنگال پر بیرونی حکمرانی، تسلط اور کنٹرول قائم ہونے نہیں دیں گی۔بنگال پر بنگالیوں کا ہی حق ہے اور یہ حق کسی دوسری ریاست سے آنے والے لوگوں کو نہیں دے سکتی ہیں۔ ممتابنرجی کا کہنا ہے کہ یہ باہر کے لوگ بنگال آکر یہاں کے لوگوں کو ڈرا دھمکا رہے ہیں اور یہاں اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ بیرونی لوگوں کے سامنے کسی بھی حال میں خودسپردگی نہیں کریں گی اور نہ گجرات کے لوگ بنگال کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ چلائیں گے۔
واقعہ یہ ہے کہ جیسے جیسے بنگال کے اسمبلی انتخابات قریب آرہے ہیں، بھارتیہ جنتاپارٹی کے لیڈران بالخصوص وزیراعظم نریندر مودی، وزیرداخلہ امت شاہ اور بی جے پی کے قومی صدرجے پی نڈا بنگال کا مسلسل دورہ کررہے ہیں اور اپنی تقریروں میں بنگال کے سنہرے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے وہ دن پھر لوٹانے اور سونار بانگلہ کا وعدہ کررہے ہیں۔ وزیراعلیٰ ممتابنرجی بھی ان دنوں تواتر سے اضلاع کا دورہ کررہی ہیں۔دونوں طرف سے زبانی جنگ زوروں پر ہے۔ وزیراعلیٰ کم و بیش اپنی ہر تقریر میں بی جے پی لیڈروں کو بیرونی طاقت قرار دے کر بنگال کی مٹی کوان سے پاک رکھنے کے عزم کا اظہار کررہی ہیں۔
ممتابنرجی جن لوگوں کو باہری قرار دے رہی ہیں،ان کا کہنا ہے کہ وہ ہندوستانی ہیں اور مغربی بنگال کا تعلق بھی ہندوستان سے ہی ہے وہ بنگالی ثقافت کا احترام کرتے ہیں۔ ریاست کے گورنر جگدیپ دھن کھڑ بھی دوسری ریاست سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے وزیراعلیٰ کے ان بیانات کا سختی سے نوٹس لیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ باہری اور اندرونی کی لڑائی چھیڑ کر وہ آئین کی توہین کررہی ہیں۔ کسی بھی ہندوستانی کو باہری بتانا آئین مخالف ہے۔ایک ہندوستانی کی حیثیت سے کوئی بھی کہیں بھی جاکر انتخابی تشہیر کرسکتا ہے۔ ہندوستان ہر ہندوستانی کا ہے وہ کس طرح باہری ہوسکتا ہے؟دوسری ریاستوں سے آنے والے لیڈروں کو کیسے باہری کہاجاسکتا ہے؟
دونوں طرف سے روزانہ کی بنیادوں پر ہونے والی بیان بازی سے بنگال میں ’باہری ‘اور ’دھرتی پتر ‘ کی لڑائی زور پکڑنے لگی ہے۔ ایک طرف بنگالی زبان، تہذیب و ثقافت سے ٹھاٹھیں مارتی ہوئی محبت ہے تو دوسری طرف جارحانہ قوم پرستی کی سیاست ہے۔ ان دونوں کے درمیان ’ باہری ‘ اور ’اندرونی‘ کی رسہ کشی سے بنگال میں ایک عجیب ساخلجان پھیل رہاہے۔اگر ممتابنرجی کے ’باہری ‘ کے فلسفہ کو درست سمجھاجائے توآزادی سے قبل اور آزادی کے بعد مہاتما گاندھی کی بنگال آمد کو اسی ’ باہری‘ کے آئینہ میں دیکھا جانا چاہیے۔ نیتاجی کی دہلی اور ممبئی میں اقامت کو بھی اسی آئینہ میں دیکھنا ہوگا۔ ممتابنرجی کے فلسفہ کی رو سے دہلی، پنجاب، راجستھان، گجرات، ہریانہ، اترپردیش وغیرہ ریاستوں میں جانے والے بنگالی مزدور اور کارکن بھی باہری ہی ٹھہریں گے۔بہارا ور اترپردیش سے ترک وطن کرکے آنے والے بھی بنگال میں ’باہری‘ قرار پائیں گے۔
اپنی زمین سے محبت فطری جذبہ ہے۔ممتابنرجی اور بنگال کے دوسرے لوگوں کو بنگال سے محبت ہونی چاہیے لیکن اس محبت کی بنیاد پر دوسری ریاستوں کے لوگوں اور لیڈروں کو باہری قرار دینے کو علاقائی تعصب کے علاوہ دوسرا کوئی نام نہیں دیاجاسکتا ہے۔ڈ ر اس بات کا ہے کہ کہیں یہ علاقائی تعصب سیاست دانوں کے جلسوں سے نکل کر بنگال کے عام آدمی میں سرایت نہ کر جائے۔ویسے بھی بنگال میں اکثر و بیشتر ’آمرابانگالی‘ کی تحریک اٹھتی رہی ہے۔ ریاست کیلئے یہ تعصب ایک زہرناک طوفان ثابت ہوگاجو اپنے ساتھ بنگال کی رواداری اور تہذیب و ثقافت کو بھی بہالے جائے گا۔ بنگال کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ ہر قسم کی عصبیت سے جان چھڑا کرصرف اور صرف قابلیت اورا ہلیت کو بنیاد بنایاجائے۔
[email protected]
علاقائی عصبیت کازہر
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS