موجودہ جمہوری نظام اور نیو انڈیا کا خواب

0

محمد حنیف خان

ملک کی خوبصورتی جہاں مختلف رنگ و نسل ،مذہب اور زبان کی وجہ سے ہے،وہیں اس کی خوبصورتی اس نظام کی وجہ سے بھی ہے جو ہر انسان کو اس کے بنیادی حقوق نہ صرف دیتا ہے بلکہ ہر ایک کو اس کے دائرۂ کار میں رہنے کی تلقین بھی کرتا ہے۔یہ نظام اس آئین کی دین ہے جس نے ہر ایک کی ذمہ داریاں یہ یقینی کرتے ہوئے طے کر رکھی ہیں کہ کوئی بھی کسی سے برتر نہیں ہے ،سب برابر اور یکساں ہیں بس فرد اپنی ذمہ داریوں کی وجہ سے خصوصی مراعات کا مستحق ہے ورنہ آئین کی نظر میں ہر ہندوستانی برابر ہے خواہ وہ ملک کے کسی دور دراز علاقے کا باشندہ ہو یا پھر صدر جمہوریہ اور وزیراعظم ہوں۔یعنی ملک کے نظام نے ہر ایک کو برابری کا درجہ دے کر اپنی ذمہ داری ادا کردی،اس میں کوئی بھی خامی نہیں چھوڑی۔البتہ حکمرانوں کے طرز حکومت کی بنا پر کسی بھی ملک میں جمہوریت کا گراف کتنا ہے، یہ الگ بات ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اسی جمہوری نظام کو اختیار کیے ہوئے ہیں،سپر پاور امریکہ اور نو آبادکاربرطانیہ دونوں اسی جمہوری نظام کے مطابق چل رہے ہیں، البتہ وہاں ’’دوپارٹی نظام ‘‘قائم ہے۔ہر برس معاشی سروے،بھوک سروے،تعلیمی گراف وغیرہ سے متعلق رپورٹیں شائع ہوتی ہیں جو غیر جانبدارانہ ہوتی ہیں ،بالکل اسی طرز پر دنیا میں جمہوری نظام کا بھی سروے ہوتا ہے اور رپورٹ شائع کی جاتی ہے کہ کس ملک میں جمہوریت کی کیا سطح ہے۔
یہ رپورٹ ایک عالمی ادارہ ’’The Economist intelligence Unit‘‘(ای آئی یو)جاری کرتا ہے۔اس نے2020کی جمہوریت سے متعلق اپنی رپورٹ جا ری کردی ہے۔اس رپورٹ میں167ممالک کی جمہوریت کے اعتبار سے درجہ بندی کی گئی ہے۔ جو کئی زمروں میں ہے۔جس میں 23ممالک ’’مکمل جمہوریت ‘‘ کے زمرے میں ہیں، 52ممالک ’’خامیوں سے بھرپورجمہوریت ‘‘ کے زمرے میں ہیں۔35ممالک ’’ملی جلی جمہوریت‘‘ کے زمرے میں ہیں۔57ممالک ’’آمرانہ اقدار‘‘کے زمرے میں رکھے گئے ہیں۔ای آئی یو کی زمرہ بندی میں ہندوستان’’Democracy in sickness and in health‘‘میں رکھا گیا ہے۔جس میں امریکہ اور برازیل بھی ہیں۔یہ وہ ممالک ہیں جہاں جمہوریت بیمار اور لنگڑی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان جمہوریت کے معاملے میں 6.61نمبروں کے ساتھ 53ویں مقام پر ہے۔جبکہ گزشتہ برس 2019میں 51مقام پر تھا،اس طرح وہ محض ایک برس میں دو پائیدان نیچے کھسک گیا۔اگر جمہوریت میں یہ گراوٹ محض ایک برس کی ہوتی تو اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا کیونکہ نمبروں کا معاملہ اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ چھ برسوں میں مسلسل جمہوری معاملے میں تنزلی ہی آئی ہے۔ 2014 میں جب ہندوستان کا زمام اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی/ وزیراعظم نریندر مودی کے ہاتھو ں میں آیا تھا تو اس وقت ہندوستان جمہوریت کے معاملے میں 7.92 نمبروں کے ساتھ27 ویں مقام پر تھا یعنی گزشتہ 6 برسوں میں ہندوستان 26پائیدان نیچے کھسکا ہے۔
’’دی اکنامسٹ انٹلیجنس یونٹ‘‘کی ’’بیمار جمہوریت ‘‘والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’بی جے پی گزشتہ چھ سات برس کے اقتدار میں جمہوری اقدار سے پیچھے ہٹنے اور شہریوں کی آزادی پر کارروائی کے راستے پر چل کر نصف جمہوریت کو کھا گئی ‘‘مزید یہ بھی بات قابل غور ہے کہ رپورٹ نے سی اے اے اور این آر سی کو بھی اپنی رپورٹ میں موضوع بنایا ہے جس کے سلسلے میں حکمراں پارٹی نہ صرف پر عزم ہے بلکہ حال ہی میں کہا گیا ہے کہ اس کے اصول و ضوابط کے انضباط میں تاخیر ہوئی ہے لیکن ضوابط وضع کیے جا رہے ہیں یعنی جلد ہی اس کو وہ نافذ بھی کریں گے۔رپورٹ کے مطابق ’’ہندوستان کی شہریت کے سلسلے میں مذہبی عنصر کو شامل کیا گیا ہے اور بہت سے ناقدین اس کو ملک کے سیکولر زم کی بنیاد کو کمزور کرنے والے قدم کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘‘ اسی طرح کورونا وائرس سے نمٹنے کے معاملے میں بھی اس کے طریق کار کی وجہ سے شہری حقوق سلب کیے گئے اور ان کا استحصال کیا گیا۔ان سبھی اسباب کی بنیاد پر جمہوری معاملے میں ہندوستان نہ صرف دو پائیدان نیچے آیا بلکہ اس کو بیمار جمہوریت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
یہ گراوٹ بی جے پی کے دور میں مسلسل آئی ہے، ایسا نہیں ہے کہ کسی ایک معاملے کی وجہ سے ایسا ہوا جس کی بنیاد پر لیپاپوتی کی جا سکے یا اس کے اسباب پر گول مول گفتگو کی جاسکے۔گراوٹ کے تسلسل نے یہ واضح کردیا ہے کہ حکمراں شعوری طور پر ایسے اقدام کر رہے ہیں جس سے ان کا ایجنڈا نافذ ہو خواہ ملک کی جمہوریت اور سیکولرزم کا تانا بانا ادھڑ ہی کیوں نہ جائے۔نیو انڈیا کا جو خواب وزیراعظم نے دکھایا تھا کیا وہ یہی نیو انڈیا ہے جس میں جمہوریت کو عالمی ادارے لنگڑی قرار دے رہے ہیں؟حکمراں پارٹی کے فیصلے اور کارروائیاں کس قدر جمہوریت کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں، کیا اس کا اندازہ حکمراں طبقے کو نہیں ہے ؟
اس معاملے میں میڈیا کا بھی نمایاں کردار رہا ہے۔میڈیا کس طرح حکمراں طبقے کے فیصلوں کو درست ثابت کرنے پر اپنی توانائی خرچ کرتا ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔میڈیا تو جمہوریت کا چوتھا رکن ہے جس پر ذمہ داری ہے کہ وہ حکمراں اور عوام کے درمیان پل کا کام کرے لیکن اس کے برعکس میڈیا سرکار کا بھونپو بن چکا ہے جس نے جمہوریت کو لنگڑی کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس رپورٹ کو حکومت بھی خارج نہیں کر سکتی ہے اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی تحریک چھیڑی جا سکتی ہے کیونکہ یہ رپورٹ صرف ہندوستان میں جمہوریت کے گراف کو ہی واضح نہیں کرتی ہے بلکہ یہ رپورٹ پوری دنیا میں اس کے گراف کو بتاتی ہے تاکہ یہ ممالک اپنی کمیوں اور خامیوں کو دور کرکے حقیقی جمہوری نظام کی طرف مراجعت کریں جس سے عوام کے حقوق سلب نہ ہوں بلکہ ان کو بنیادی حقوق ملیں۔ حکمراں طبقہ اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے نہیں تھکتا ہے،حکومت کا کوئی بھی فیصلہ ہو اس پر اگر کسی نے انگلی اٹھا دی تو ہر طرف سے اس کو ایسے نشانہ بنایا جاتا ہے جیسے وہ اس ملک کا باشندہ ہی نہیں،غدار اور ملک مخالف ہونے کا تمغہ تو وہ ہر وقت بانٹتا رہتا ہے۔اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی جمہوری ملک میں نہیں بلکہ آمرانہ طرز حکومت ہے اور وہ سیاہ و سفید کا مالک ہے اس لیے انگلی اٹھانا ایسا گناہ ہے جس کی سزا ناقابل معافی ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ حکمراں طبقہ سے وابستہ افراد جب انگلی اٹھانے والے شخص کی کھنچائی کرتے ہیں،برا بھلا کہتے ہیں یا اس کا مذاق اڑاتے ہیں تو ان کو کوئی روکنے والا نہیں ہوتا ہے بلکہ ان کی پشت پناہی کی جاتی ہے تاکہ اٹھنے والی آواز خوفزدہ ہو کر وہیں دم توڑ دے۔اسی طرح اگر کوئی طبقہ حکومت کے فیصلوں کی مخالفت کرتا ہے تو ایک جم غفیر بھیج دیا جاتا ہے جو اس کی حمایت میں آجاتا ہے اور اس کو نام دیا جاتا ہے کہ وہ بھی عوام ہیں جبکہ میڈیا اور ملک کے شہری سب جانتے ہیں کہ یہ بھیجے ہوئے لوگ ہیں جو حکومت کے فیصلے کو درست ٹھہرانا چاہتے ہیں۔اس طرح کی ایک دو مثالیں نہیں کئی ہیں جس میں پولیس بھی ان کا ساتھ دیتی ہے۔ایسے میں جمہوریت لنگڑی نہیں ہوگی تو اور کیا ہوگا؟
حکمراں طبقے کو یہ سمجھنا ہو گا کہ جمہوریت ہی اس ملک کی خوبصورتی ہے جس کی وجہ سے یہاں مختلف طبقے، مختلف مذاہب اور مختلف زبان کے بولنے والے آپسی بھائی چارے کے ساتھ رہتے ہیں،چونکہ جمہوری نظام کے نفاذ کی ذمہ داری حکمراں طبقے پر ہے، اس لیے اس کی سطح میں گراوٹ یا بلندی دونوں کے لیے براہ راست وہی ذمہ دار ہیں۔اس رپورٹ کو منفی کے بجائے مثبت انداز میں اگر لیا جائے اور اس کو سامنے رکھ کر اپنے طریق کار میں اصلاح لائی جا ئے تو یہی بیمار جمہوریت بہت جلد مکمل جمہوریت میں تبدیل ہو سکتی ہے،لیکن اس کے لیے سب سے پہلے ایجنڈے کے نفاذ اور فکری برتری سے باہر آنا ہوگا،جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔بیمار جمہوریت کے ساتھ نیو انڈیا کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا ہے اور اگر یہ نیو انڈیا یہی جمہوریت کی بیماری ہے تو عوام کو اس سے محفوظ رکھیں،ان کو اسی پرانے انڈیا میں رہنے دیں ،جس میں جمہوریت اور آئین کا راج تھا، ایسے اجالے کی طرف نہ لے جائیں، جہاں صرف اندھیرا ہو۔ اسی طرح عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکمراں طبقے پر زور ڈالیں کہ وہ درست راستے پر آکر ملک کے نظام حکومت کو جمہوری بنائے رکھیں،اگر ایسا نہیں ہوا تو یہ خوبصورتی اور روشنی دھیرے دھیرے بدصورتی اور اندھیارے میں تبدیل ہوجائے گی جس میں کسی کو اپنا چہرہ بھی دکھائی نہیں دے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS