شیام سرن
میں نے پہلے بھی کہا ہے، اپنے علاقائی دعوؤں کو آگے بڑھانے کے لیے چین کافی احتیاط سے جانچی پرکھی حکمت عملی کا استعمال کرتا ہے۔ اس سمت میں اس کی ہر چال فوجی ردعمل کو مدعو نہیں کرتی، لیکن اس کی ایسی کئی چھوٹی چھوٹی حرکتیں مل کر حقیقت کی تبدیلی کی وجہ بنتی ہیں۔ قطرہ قطرہ کترنا ایک بڑا نوالہ بن جاتا ہے۔
ہم نے اپنی سرحدوں پر یہی دیکھا ہے۔ بحیرئہ جنوبی چین میں بھی چین نے کامیابی کے ساتھ اسی حکمت عملی کو آزمایا ہے۔ پہلے ٹریک-2میٹنگوں میں اس کے مذاکرات کاروں نے کہا تھا کہ وہ پورے بحیرئہ جنوبی چین پر دعویٰ نہیں کرتے ہیں، ان کا دعویٰ صرف کچھ جزیروں اور ان کے آس پاس کے پانی پر ہے۔ لیکن جب ان سے نائن-ڈیش لائن کے بارے میں پوچھا گیا، تب انہوں نے کہا کہ یہ گواومندنگ (Guomindang) حکومت کی وراثت ہے۔ یہ یاد کرنا چاہیے کہ جب وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے چینی سربراہ جھاؤ این لائی سے کہا تھا کہ چینی نقشے ہندوستانی علاقہ کے بڑے حصہ کو چینی حصہ کے طور پر دکھارہے ہیں، تب جھاؤ این لائی نے کہا تھا کہ یہ پرانے گواومندنگ کے دور کے نقشے ہیں، جن میں ابھی تک ترمیم نہیں کی گئی ہے۔ یہ دونوں دلیلیں ایک سی نہیں لگتی ہیں؟
چینی مذاکرات کاروں نے بعد میں یہ دعویٰ کرنا شروع کردیا کہ بحیرئہ جنوبی چین تاریخی پانی ہے، جس پر چین کے کچھ وراثتی حقوق تھے، لیکن مذاکرات کار نے یہ نہیں بتایا کہ یہ حقوق کیا تھے؟ وہ ابھی بھی یہی کہتے ہیں کہ بحیرئہ جنوبی چین کے پانی پر چین خودمختار علاقہ کے طور پر دعویٰ نہیں کرتا ہے۔ ایک مرتبہ جب اس نیت کی رسمی تجویز اقوام متحدہ کے سامنے آئی، تب یہ تنازع قائم نہیں رہ سکا۔ پھر بھی بحیرئہ جنوبی چین میں حقیقی قبضہ، ہڑپنے اور عسکریت(Militarization ) کا جو عمل شروع ہوا، وہ ابھی بھی جاری ہے۔ قبضہ کے اس ڈھلمل عمل کے کسی مرحلہ میں نہ تو ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنس(آسیان) اور نہ ہی ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ضروری خطرہ محسوس کیا۔ اب زمین پر تبدیل ہوئے حقائق کو پلٹنے کے لیے بڑے پیمانہ پر فوجی کارروائی کی ضرورت پڑے گی، جو ممکن نہیں ہے۔
یہاں سبق یہ ہے کہ ابتدائی مراحل میں ہی تیزی سے جواب دینا چاہیے۔ اس سے قبل کہ حکمت عملی کے تحت نیا نقشہ تیار ہوجائے، فوراً قدم اٹھائے جانے چاہئیں۔ ہندوستان نے 2017میں ڈوکالا مہم کے ساتھ چینی جارحیت کے تئیں ردعمل کے اپنے طریقہ کار کو تبدیل کردیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ چینی فریق کے لیے حیرت کی بات تھی۔ چین کے جارحانہ سرکاری ردعمل اور چینی میڈیا میں آئے تبصروں کے سیلاب میں یہی حیرانی ظاہر ہوئی۔ وہاں چین کی جانب سے کترنے کی کارروائی کی گئی تھی، جس نے ہندوستان کی جانب سے غیرمتوقع اور معروف کردار سے پرے عدم اطمینان سے پُرردعمل کو دعوت دی۔ وہ تعطل دو ماہ سے زیادہ وقت تک چلا، لیکن آخرکار حل نکل ہی آیا۔ چینی صدر شی جن پنگ کے ذریعہ منعقد برازیل، روس، ہندوستان، چین، جنوبی افریقہ(برکس) چوٹی کانفرنس حل نکالنے کی ایک اہم وجہ بنی تھی۔
ڈوکالا کے برعکس مشرقی لداخ میں چینی کارروائی کترنے جیسی چھوٹی نہیں تھی، یہاں کارروائی بڑی تعداد میں فوجیوں اور ہتھیاروں کی تعیناتی سے سپورٹڈ تھی۔ اس کا مقصد چین کے فائدے کے لیے ایکچوئل کنٹرول لائن(ایل اے سی) میں ایسی بڑی تبدیلی کرنا ہے، جسے الٹنا ہندوستان کے لیے خطرے سے بھرا اور مہنگا ہو۔ زندگیوں کے ناقابل تلافی نقصان کے ساتھ گلوان میں جھڑپ غیرمتوقع ہوسکتی ہے اور ممکن ہے، وہ بنیادی حکمت عملی کا ضروری حصہ نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ڈوکا لا کے ایک چھوٹے سے واقعہ کے مقابلہ میں گلوان پر چینی فریق کا ردعمل تقریباً خاموشی ہی بنا ہوا ہے۔
چین کی سازش یہ ہوسکتی ہے کہ ایل اے سی پر الگ الگ تسلیم شدہ علاقوں پر قبضہ کرلیا جائے اور وہاں ہندوستانی موجودگی و چوکسی کو روکا جائے۔ اس کی کوشش تھی کہ ہندوستان کو سرحد پر کسی بھی فائدہ مند جگہ سے محروم کردیا جائے۔ چین کو اس بات کی امید نہیں تھی کہ ہندوستان سرحدی تنازع کے مینجمنٹ کے لیے اپنے ردعمل کو محدود نہیں رکھے گا، بلکہ ہندوستان میں چین کے کاروباری مفادات پر حملہ کرنے اور اپنے دوسرے شراکت داروں کے ساتھ خود کو مزید قریب سے جوڑنے کا کام کرے گا۔ ہندوستان نے فوجی اور معاشی، دونوں طرح کے اقدام کیے۔ جنوبی پینگانگ میں اونچائیوں پر قبضہ کیا اور مستقل طور پر 59چینی ایپس پر پابندیاں بھی عائد کیں۔ اس سے پہلے ہندوستان نے اشارہ دیا تھا کہ اگر رشتے پٹری پر لوٹتے ہیں تو پابندی ہٹائی بھی جاسکتی ہے۔ اب یہ چین کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کشیدگی آگے بڑھاتا ہے یا سرحدی تنازع کے ساتھ ساتھ آپسی رشتوں کے دیگر پہلوؤں کو بھی نقصان سے بچاتا ہے۔
اب کیا بیجنگ کو شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن سے ہندوستان کو باہر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایشیا انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک یا برکس ڈیولپمنٹ بینک کی ہندوستان کی رکنیت کے بارے میں کیا کرنا چاہیے؟ کیا چین کو برکس کو بھنگ کرنے کی قیادت کرنی چاہیے، جو اسے روس و دیگر ممبران کے ساتھ جدوجہد کی حالت میں لاسکتی ہے؟ کیا اسے پیشہ ورانہ طور پر بدلہ لینا چاہیے، جو اس نے اب تک نہیں کیا ہے؟
دونوں ممالک کے مابین قوی سطح پر کئی دور کی بات چیت ہوچکی ہے، جس میں فوجیوں کو سرحد سے ہٹانے پر کوئی پروگریس درج نہیں کی گئی ہے۔ وزیرخارجہ ایس جے شنکر نے حال ہی میں یہ تسلیم کیا ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ دونوں فریقوں نے بات چیت جاری رکھنے کو مفید تسلیم کیا ہے، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ یہ پہل چین کے حق میں نہیں ہے۔ ہندوستانی وزیرخارجہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہندوستان-چین تعلقات کے دیگر پہلوؤں کو سرحد پر بدامنی اور امن سے الگ نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ جب کہ چینی وزارت داخلہ کے ترجمان نے جواب دیا ہے کہ سرحد کی حالت کو دوطرفہ تعلقات کے دیگر پہلوؤں کے آڑے نہیں آنے دینا چاہیے، حالاں کہ چین جانتا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ چین نے غلط قدم اٹھایا ہے اور خود کو اس سے کیسے نکالنا ہے، وہ نہیں جانتا۔ کیا اس نے اتنا بڑا نوالہ کاٹ لیا ہے، جتنا وہ چبا نہیں سکتا؟
(مضمون نگار سابق خارجہ سکریٹری ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)