دو سری جنگ عظیم کے بعد کرۂ ار ض پر ایک نئی دنیا تشکیل پائی تھی۔ بظاہر طاقت اور قبضہ کی بنیاد پر قائم کی گئی حکومتوںکو غیرقانونی و غیر انسانی ٹھہراتے ہوئے جغرافیائی اور قومی بنیاد پر ریاستوں کی تشکیل ہوئی اور جمہوری نظام حکومت پر دنیا نے اپنا اتفاق ظاہر کیا۔ہر ملک کی خودمختاری کو تقدس کا درجہ حاصل ہوا اور اس ملک میں حق حکمرانی کیلئے جمہور کی تائید کا فلسفہ تراشاگیا۔لیکن عملاً صورتحال بالکل اس کے برخلاف رہی۔ طاقت کی حکمرانی کیلئے چور دروازے کھولے گئے۔ چند منتخب ممالک نے ویٹو کی شکل میں عالمی برادری کو طاقت کا زیر نگیں بنا لیا۔ ان ممالک نے دوسرے ملکوں میںاپنی پسند کی حکومتیں قائم کرنے کیلئے کہیں جمہور کی رائے کو فوقیت دی تو کہیں فرد کی آمریت کو گودکھلایا اورکہیں فوجی آمریت کی کھلی سرپرستی کی۔ افریقہ، مغربی ایشیااور جنوبی ایشیا کے بیشتر ممالک اس مشق ستم کا شکار ہوئے۔ اس خطہ ارض میں جمہوری نظام حکومت کو اپنا مطیع نہ بنا پانے والے یہ منتخب ممالک ان ملکوں کے فوجی جرنیل کی مدد سے ہر چند برس بعد مہم جوئی شروع کردیتے ہیں۔ ہندوستان سے علیحدہ ہونے والے پاکستان میں اب تک جاری رہنے والی جمہوریت اور فوجی آمریت کی رسہ کشی کے پیچھے یہی ’طاقت کی حکمرانی‘ کارفرما ہے تو پڑوسی ملک میانمار میں بھی ہر چند برس بعدفوج کے ملک کی حکومت پر قابض ہونے کی وجہ بھی یہی ’طاقت کی حکمرانی‘ ہے۔
میانما ر میںفوجی آمریت کے کئی ایک لرزہ خیز تجربات کے بعد ادھر ایک دہائی سے جمہوری اصلاحات کا عمل شروع ہواتھا لیکن میانمار کی فوج کو اپنی بیرکوں سے زیادہ مسند اقتدار عزیز ہے۔ پیر کے روز صبح کاذب کے ملگجے اجالے میں فوج اپنے بیرکوں سے نکلی اور تمام اخلاقی اور جمہوری اصولوں کوپائوں تلے روندتے ہوئے منتخب حکومت، اسٹیٹ کائونسلر اور نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی سربراہ آن سانگ سوچی اورا ن کے قریبی ساتھیوں کو قید کرکے حکومت پر قبضہ کرلیا۔
میانمارمیں جمہوریت کے قیام کا سہرا نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی لیڈر آن سانگ سوچی کے ہی سرجاتا ہے جنہوں نے ایک طویل جدوجہد اور آگ و خون کا دریا عبور کرکے ملک میں جمہوریت کی داغ بیل ڈالی تھی۔پہلی بار1990کے عام انتخابات میںآن سانگ سوچی کی این ایل ڈی کو بھاری جیت ملی تھی لیکن فوجی حکمرانوں نے انتخابی عمل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اورانہیںقید کرلیا۔ اسی قیدوبند کے دوران 1991 میں انہیں امن کے نوبل انعام سے نوازاگیا۔دو دہائی کی طویل نظر بندی کے بعد 2010 میں سوکی کو رہاکیاگیا۔ اس کے بعد سے ہی میانمار کا سیاسی منظر نامہ بدلنے لگا۔ 2015میں سوکی کی این ایل ڈی بھاری اکثریت سے انتخاب میں کامیاب ہوئی اور فوجی آمریت کا خاتمہ ہوا۔ گزرنے والے پانچ سال جمہوری لحاظ سے میانما ر کا سنہرا دور کہے جاسکتے ہیں۔اسی دور میں میانمار کے دوسرے ممالک سے تعلقات بھی قائم ہوئے اور جمہوری اصلاحات کی روشن راہوں پر یہ ملک دھیرے دھیرے استحکام کی جانب قدم بڑھانے لگا تھا۔ لیکن میانمار کی فوج اس راہ میں مزاحم رہی۔ آن سانگ سوچی بھی فوجی قیادت سے ٹکرائو کے بجائے صلح کل کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں۔حتیٰ کہ نوبل انعام پانے والی آن سانگ سوچی اپنی فوج کی غیر انسانی کارروائیوں پربھی خاموش رہیں۔ 2017میںفو ج کے ذریعہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائی اورا ن کی نسل کشی کی انہوں نے وکالت تک کی۔ لاکھوں مسلمانوں کو بے گھر کیے جانے پر اپنی فوج کی پیٹھ بھی تھپتھپائی۔لیکن یہ سب ان کے کسی کام نہ آیا اور میانما ر کی فوج نے انہیں بیک بینی دو گوش ملک کے سیاسی منظر نامہ سے فارغ کردیا۔
میانمار میں اس تختہ پلٹ کے پیچھے ماہرین کسی بیرونی ہاتھ کے امکان سے انکاری نہیں ہیں۔ میانمار کی سرحد ہندوستان کے ساتھ ساتھ چین سے بھی متصل ہے اور چین وہ ملک ہے جس نے اب تک اس فوجی کارروائی پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ چین کی اب تک کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم سے کبھی دستبردارنہیں ہوا ہے، پاکستان کو اپنے دام میں لینے کے بعد نیپال اور میانمار میں اس کاعمل دخل کافی بڑھ گیاہے۔ گزشتہ سال2020میں ہوئے انتخاب میں این ایل ڈی کی جیت کو دھاندلی کا نتیجہ بتانے میں چین نے بھی میانمار کی فوج کی آواز سے آوازملائی تھی۔اس وقت سے ہی تختہ پلٹ کا یہ خطرہ سر پر منڈلانے لگاتھا۔آن سانگ سوچی کمزور ہی سہی لیکن جمہوریت کی علامت تھیں، فوج کے پردہ میں اب وہاں براہ راست ’ طاقت کی حکمرانی‘ قائم ہوگئی ہے اورجس کی ڈورکہیں بہت دور سے ہلائی جارہی ہے۔
ہندوستان نے اس فوجی کارروائی کی سخت مذمت کی ہے اور وہاں کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔دیکھاجائے تو میانمار میں جوکچھ ہو ااس کا اثر ہندوستان پر پڑنا ناگزیر ہے۔ اگر میانمار میں فوجی آمریت طول پکڑتی ہے تو خطہ میں چین کی گرفت بڑھے گی جس سے نمٹنا ہندوستان کیلئے چیلنج بھرا ہوگا۔ضروری ہے کہ عالمی برادری میانمار میں فوجی کارروائی کے خلاف لام بند ہو اور وہاں جلد از جلد جمہوریت بحال کرنے کی راہ بنائے۔
[email protected]
‘میانمار میں ’طاقت کی حکمرانی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS