کسان تحریک : بہت ہوا، جو نہیں ہونا چاہیے تھا

0

کرشن پرتاپ سنگھ

کوئی دو رائے نہیں کہ راجدھانی دہلی میں سرحدوں پر کسانوں کی تحریک میں26جنوری کو ٹریکٹر پریڈ کے دوران بہت کچھ ایسا ہوا، جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مثلاً لال قلعہ کے وقار کو چوٹ پہنچاتے ہوئے اس پر چڑھ کر ’نشان صاحب‘ پھہرانہ۔ ساتھ ہی ہڑدنگ مچاتے ہوئے تلواریں چمکانا، پولیس پر حملہ آور ہونا، توڑ پھوڑ کرنا۔
لیکن اس بات کا کیا کیا جائے کہ نریندر مودی سرکار کے بنائے جن تین زرعی قوانین کو لے کر یہ سارا مسئلہ کھڑا ہوا ہے، ان کے سلسلے میں یہ ’نہیں ہونا چاہیے تھا‘ قطعی درست نہیں ہے۔ سرکار کو ان قوانین کو پہلے نوٹیفکیشن کی شکل میں لانے، پھر پارلیمنٹ سے منظور کرانے میں بھی اتنی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وہ ہڑبڑی نہ برتتی اور کسانوں سے بات چیت کے جو 11دور ان کی تحریک شروع ہوجانے کے بعد چلائے، پہلے چلاکر انہیں یقین دہانی کرانی چاہیے تھی تو نہ تو اس پر ان کے خلاف اس طرح کی کارروائی استعمال کرنے کے الزام لگتے، نہ بات اتنی بگڑتی۔ مان لیجئے، یقین میں نہ لینے کی غلطی ہوہی گئی تھی، جیسا کہ وزیر داخلہ امت شاہ خود قبول بھی کرچکے ہیں، تو اسے لے کر غیر اطمینان کے الفاظ کی انسنی نہیں کی جانی چاہیے تھی۔ انسنی بھی نہیں ٹالی جاسکی اور اس کے پیٹ سے تحریک شروع ہوگئی جسے اتنا لمبا نہیں ہونے دیا جانا چاہیے تھا کہ کسان کڑاکے کی سردی کے دوران 120سے زیادہ دن راتیں سڑکوں پر بتانے اور ان میں سے کئی تو ناامید ہوکر اپنی جان سے بھی گزر گئے اور خود کشی کرلی۔ ان میں سے کوئی ڈیڑھ سو کی جانیں بھی چلی گئیں۔
سرکار کو لگ رہا تھا کہ ان کے زرعی قوانین کو رد کرنے کی مانگ مان لینے سے ان کا اقبال بلند نہیں رہ پائے گا، اس وجہ سے وہ ایسا نہیں کررہی تھی، تو بھی اسے اپنے حامی میڈیا اور کارکنان کے ساتھ پہلے ہی دن سے ان کی کسان کی پہچان پر حملہ آور ہوکر اسے بدنام کرنے میں نہیں لگ جانا چاہئے تھا، لیکن اس کے برعکس انہیں کبھی خالصتانی کہا گیا کبھی پاکستانی، کبھی بھٹکا ہوا، کبھی ملک مخالف تو کبھی متشدد۔ دوسرے پہلو پر غور کریں تو یہ بھی نہیں ہونا چاہیے تھا کہ سرکار اپنی ضدوں کو مسائل کے حل کی کوششوں سے بڑی کرکے بیٹھ جائے اور زرعی قوانین کو 2سال تک روکنے کو تیار ہوجائے تو بھی اس سوال کا جواب نہ دے پائے کہ اگر اس کے پاس 2سال کا وقت تھا تو انہیں منظور کرانے کی اتنی جلدی کیا تھی؟
ٹریکٹر پریڈ میں ہڑدنگ کے دوران دہلی پولیس جس طرح بے سہارا دکھی اسے نہیں دکھنا چاہیے تھا۔ بالخصوص، جب اس کا دعویٰ تھا کہ کچھ عناصر کے ذریعہ اس پریڈ کے دوران گڑبڑیاں پھیلانے کی سازشیں رچے جانے کی خفیہ جانکاری ملی ہے اور راجدھانی ابھی مشکل سے سال بھر پہلے ہی فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جھلس چکی ہے، اسے تشدد کی سازش سے نپٹنے کی اپنی صلاحیت دکھانی چاہیے تھی۔ جان بوجھ کر، انجانے میں یا کسی مجبوری کے تحت کسانوں کے نام پر راجدھانی، خاص کر لال قلعہ میں گھس آئے ہڑدنگیوں کے تئیں نرم دلی برتی، وہ بھی اسے نہیں برتنی چاہیے تھی۔ لال قلعہ پر غیر ترنگا جھنڈا پھہرانے اور اودھم مچانے والوں کی یہ لائنیں لکھنے تک جو پہچان سامنے آئی ہے، ساتھ ہی ان کے ’سرغنہ ‘ دلیپ سدھو اور لکھا سدانہ کی وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی ممبر پارلیمنٹ سنی دیول کے ساتھ سوشل میڈیا پر جیسی تصویریں آرہی ہیں، وہ بھی نہیں آنی چاہیے تھیں۔
لیکن یہ سب ، ’جو نہیں ہونا چاہیے تھا‘ ہوا اور اب اس کا سب سے بڑا نقصان کسانوں اور سرکار کے درمیان پہلے سے چلی آرہی غیر یقینی کی گانٹھ کے اور بڑی ہونے کی شکل میں ہی سامنے آنا ہے۔ ایسا ہوا تو اصل مسئلے کے حل کی راہ اور کٹیلی ہوسکتی ہے۔ مبینہ تصویروں کی بنا پر آگے چل کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہڑدنگیوں کی قیادت سرکار حامی عناصر بھی کررہے تھے تو کسانوں کے ذریعہ اس تحریک کو بدنام کرنے کی سرکار کی سازش کے طور پر ہی دیکھا جائے گا، یقینی طور سے تب سرکار کسی طرح اسے مناسب نہیں ٹھہرا پائے گی۔
سوال ہے کہ ایسے میں اس کے پاس تحریک ختم کراکر عام حالات بحال کرنے کے کون کون سے متبادل ہیں؟ دھیان رکھنا ہوگا کہ تحریک کو طویل عرصے تک کھینچ کر کسانوں کو ہٹادینے والا رویہ اپنے امتحان میں بری طرح فیل ہوچکا ہے جب سے یہ تحریک شروع ہوئی ہے، سردی، بارش اور کہرے جیسے دیگر موسمی مسائل کے باوجود اس میں کسانوں کی حصے داری بڑھتی ہی گئی ہے۔اس پر کسان بار بار یہ جتا رہے ہیں کہ وہ لمبی لڑائی کا ارادہ بناکر میدان میں اترے ہیں۔ صرف پنجاب اور ہریانہ کے امیر کسانوں کی تحریک کی اپیل کرنے کا طریقہ بھی کچھ کام نہیں آیا ہے، جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ سرکاروں کی تحریکوں کو دباکر رکھنے والی پالیسی سے حالات معمول پر آنے کے بجائے مزید  بھڑکتے ہی ہیں اس لئے ہڑدنگوں کے سلسلے میں درج کی جارہی ایف آئی آر کے بہانے کسان لیڈران پر ہاتھ ڈالنے کی پولیس کی سختی سے بھی کچھ خاص حاصل ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ 
تب؟ ملک اور سرکار دونوں کے لئے راحت کی بات ایک ہی ہے۔ یہ کہ تحریک کی قیادت کررہا سنیکت کسان مورچہ نہ اس ہڑدنگ کو اپنی جیت یا حوصلہ بتارہا ہے، نہ ہی اس کا کریڈٹ لینے کو آگے آرہا ہے۔ حالانکہ ماضی میں ہماری آزادی، جمہوریت اور آئین کو نقصان پہنچانے والی کئی تنظیمیں اپنی تحریکوں میں اس طرح جھنڈا پھہرانے کے بعد اسے اپنی جیت بتاتی اور جشن مناتی رہی ہیں۔ 
کسانوں کے ایک لیڈر یوگیندر یادو نے کہا ہے کہ جو کچھ بھی ہوا ہے اس سے وہ شرمندہ ہیں، محسوس کرتے ہیں کہ اس سے تحریک کو نقصان ہی ہوگا، کیونکہ امن کے ساتھ اور تشدد نہ ہونا ہی اس کی طاقت تھی۔ دوسرے لیڈر راکیش ٹکیت نے بھی ہڑدنگ کے دوران ہی ہڑدنگیوں سے کنارہ کرلیا تھا اور اب سنیکت کسان مورچہ یہی رخ اپنا رہا ہے۔ 
سرکار کو اس کے اس رخ کو بہترین عمل کے شکل میں دیکھنا اور اب جب سانپ نکل گیا ہے تو لاٹھی پیٹنے کی طرز پر کسی بھی بھڑکانے والی کارروائی سے پرہیز رکھنا چاہیے۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ کسانوں کے نام پر جو ہڑدنگی تشدد میں شامل ہوئے، ان پر کارروائی نہ کی جائے، انہیں ان کے کیے کی سخت سزا ملنی ہی چاہیے۔ لیکن تشدد کی آڑ میں کسان تحریک کو ختم کرنے کی بات سوچی بھی نہیں جانی چاہیے اور نہ ہی تحریک چلانے والوں سے بات چیت کا سلسلہ ختم کیا جانا چاہیے۔ سمجھا جانا چاہئے کہ کسی بھی مسئلے کو بات چیت کے ذریعہ ہی بہتر ڈھنگ سے سلجھایا جاسکتا ہے۔
دوسرے الفاظ میں کہیں تو اس ہڑدنگ کو لے کر پوری کسان تحریک پر دھبہ لگانے کی نئی کوشش سرکار کی ایک اور بڑی غلطی ثابت ہوگی۔ اس کے حامی میڈیا کے ایک بڑے حصے کے ذریعہ یہی دکھانے کے لئے جیسے عمل کیا جارہا ہے، وہ دو مہینے سے پرامن تحریک چلا رہی کسان تنظیموں کے تئیں بے دلی تو ہے ہی، سرکار اور اس کے پولیس نظام کی حالات سے نمٹنے میں ناکامی کی جانب سے دھیان ہٹانے کی کوشش بھی ہے۔ ممکن ہے کہ کسان تنظیموں کی آپسی تناتنی میں انہیں ایک دو نے لال قلعہ تک پہنچ جانے کو اپنی جیت کے طور پر دیکھا اور اس کے لئے جی جان لگادی ہو، لیکن ایسا کہنے والے تحریک چلانے والے بھی تھے ہی کہ پولیس نے پہلے ہمیں بے روک ٹوک جانے دیا، پھر اچانک لاٹھی چارج کرنے لگی کیا مطلب ہے اس کا؟ اگر یہ کہ پولیس کو پتہ ہی نہیں تھا کہ کن حالات میں اسے کیا کرنا ہے تو اس کے لئے کون ذمہ دار ہے؟
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS