کسی چیز کی اہمیت ان لوگوں سے پوچھنی چاہیے جو ان کے پاس نہیں ہے، کسی نظام کی اہمیت ان لوگوں سے پوچھنی چاہیے جو ان کے ملک میں نہیں ہے، جمہوریت کی اہمیت ان لوگوں سے پوچھنی چاہیے جن کے ملک میں جمہوری نظام نہیں ہے مگر وہ چاہتے ہیں کہ جمہوری نظام ان کے یہاں ہو۔ وطن عزیز ہندوستان کے لوگوں کی یہ خوش نصیبی ہے کہ ہمارے لیڈروں نے جدوجہد کے بعد ملی آزادی کی اہمیت سمجھی، یہ بات سمجھی کہ آزادی کا مطلب کسی قابض طاقت سے ملک کا آزاد ہوجانا ہی نہیں ہے، آزادی کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دوسروں کی دلآزاری کا خیال کرتے ہوئے اظہار رائے کی آزادی حاصل ہو، مذہبی آزادی حاصل ہو، لباس ، زبان، ملبوسات کے انتخاب کی آزادی حاصل ہو اور اس آزادی کی حفاظت کے لیے وہ اپنا لیڈر خود چنیں، اپنی حکومت خود بنائیں۔ آزادی کی حفاظت کے لیے عدالتیں تعصبات سے پاک ہوں، وہ حکومت کے دباؤ میں آئے بغیر کام کریں۔ نظم و نسق قائم رکھتے وقت انتظامیہ بغیر جانب داری کے کام کرے۔ کہنے  کی ضرورت نہیں کہ ہمارا جمہوری نظام دنیا کے لیے ایک مثال ہے مگر نظام وہی قائم رہتا ہے جس پر وقتاً فوقتاً نظر ثانی کی جاتی رہے، یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی رہے کہ جمہوریت کے کسی ستون کی چول تو کہیں ڈھیلی  نہیں پڑ رہی ہے، کہیں جمہوری نظام کی جڑیں تو کمزور نہیں ہورہی ہیں۔
ابراہم لنکن نے جمہوری نظام کی جو تعریف 19 نومبر، 1863کو ’گیٹس برگ خطاب‘ میں کی تھی، اس کی وہی تعریف آج بھی کی جاتی ہے۔ لنکن نے جمہوریت کو ایک ایسا نظام بتایا تھا جس میں عوام کی حکومت ہوتی ہے، عوام کے توسط سے چلائی جاتی ہے اور عوام کے لیے ہی چلائی ہے، کیونکہ منتخبہ لیڈر عوام کے نمائندے ہوتے ہیں اور وہی مل کر حکومت بناتے ہیں، حکومت مفاد عامہ کے لیے کام کرتی ہے مگر ادھر کے برسوں میں دیکھنے میں یہ بات آئی ہے کہ لیڈروں نے جمہوری نظام میں بھی راج کرنے کی اپنی خواہش کی تسکین کے لیے گنجائش پیدا کرلی ہے۔ وہ عوام کو اس حد تک اپنے دائرۂ اثر میں لے لیتے ہیں کہ ان کے پرستار ملک سے زیادہ اہمیت انہیں دینے لگتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ حال ہی میں امریکہ میں دیکھنے میں آیا جبکہ جب کبھی دنیا کی بڑی جمہوریتوں کا ذکر ہوتا ہے، ہندوستان کے ساتھ امریکہ اور برطانیہ کا تذکرہ آجاتا ہے لیکن امریکیوں کو وقت رہتے یہ احساس ہو گیا کہ جمہوری نظام عوام کی آزادی کی حفاظت کرتا ہیمگر کبھی کبھی جمہوری نظام ہی خطرے میں پڑجاتا ہے، ضرورت اس کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کرنے کی ہوتی ہے اور امریکہ میں ذمہ دار لوگوں نے جمہوریت کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کر کے یہ بتا دیا کہ وہ جانتے ہیں، کب کیا کرنا ہے۔ خوش نصیبی کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں امریکہ کے حالیہ حالات جیسے حالات کبھی نہیں بنے۔ اس سلسلے میں ہمیں اپنے لیڈروں کی بھی تعریف کرنی چاہیے اور عوام کی بھی۔ یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارے لیڈران شکست قبول کرنے کے معاملے میں بڑا دل دکھاتے ہیں اور عوام پسندیدہ لیڈر کی شکست پر تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ بضد نہیں ہوتے کہ ہارے ہوئے ان کے لیڈر کی جیت تسلیم کی جائے ۔ پچھلی سات دہائی میں جمہوریت کو سمجھنے میں عوام نے ذہنی پختگی کا ثبوت دیا ہے۔ وہ قابل تعریف اس لیے ہیں، کیونکہ تین دہائی پہلے ہمارے ملک میں خواندہ لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ اس کے باوجود لوگوں نے اپنے قول و عمل سے یہ اشارہ ہمیشہ دیا کہ ہندوستان میں خواندگی بھلے ہی صد فیصد نہ ہو مگر وہ بصیرت سے محروم نہیں۔
امریکہ میں لوگوں کو دو پارٹیوں، ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی، میں سے ایک کے لیڈروں کو چننا ہوتا ہے جبکہ ہمارے ملک میں کئی پارٹیوں میں سے لیڈروں کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ امریکہ کے مقابلے ہمارے ملک میں کہیں زیادہ زبانیں بولنے والے لوگ رہتے ہیں، یہ ملک مختلف تہذیبوں کی آماجگاہ ہے، ذات اور دھرم کی سیاست بھی یہاں اپنا وجود رکھتی ہے مگر ان تمام باتوں کے باوجود جمہوری نظام یہاں قائم ہے، دنیا کے لیے مثال ہے تو یہ واقعی حیرت کی بات ہونی چاہیے مگر ہندوستان کو جاننے، ہندوستانیت کو سمجھنے والے لوگوں کو کوئی حیرت نہیں ہوگی۔ وہ جانتے ہیں کہ ہندوستان کی شناخت ہی ’کثرت میں وحدت ‘ والے ملک کے طور پر ہے۔ ہمارا بھائی چارہ باقی رہے گا تو ہندوستا نیت محفوظ رہے گی، ہندوستان محفوظ رہے گا اور اس ملک کے جمہوری نظام پر کبھی آنچ نہیں آئے گی۔ 26 جنوری کا دن واقعی بے حد اہم دن ہے۔ یہ دن ہمارے جمہوریہ کا دن ہے، اس لیے دل کی گہرائیوں سے یوم جمہوریہ مبارک ہو!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS