ڈاکٹر سید ظفر محمود
سچر کمیٹی اور مشرا کمیشن دونوں نے دستاویزوں کی بنیاد پر خوب واضح طور پر بتا دیا ہے کہ ہمارے ملک میں سماجی، اقتصادی اور تعلیمی طور پر مسلمان سب سے پیچھے ہیں اور اس کی بڑی وجہ ہے ملک کی سیاسی و انتظامی حکمرانی میں ان کی نمائندگی کا فقدان۔ سول سروسز میں مسلم نمائندگی میں کمی کا تو ذکرگزشتہ دس برس میں گاہے بگاہے ہونے لگا ہے اور مجموعی ملی کاوشوں کا کچھ مثبت اثر بھی الحمدﷲنظرآنے لگا ہے، بلکہ اس کی وجہ سے چند برادران وطن کو ’ تشویش ‘ بھی ہے، لیکن سیاسی نمائندگی میں مسلمانوں کی کثیر غیرموجودگی اب بھی اندرون ملت بحث و تگ ودوکا موضوع نہیں بن سکا ہے۔ دستور ہند کے تحت لوک سبھا کے پہلے انتخاب 1952 میں ہوئے تھے، اس وقت ملک کی کل آبادی 35.6 کروڑ تھی، لوک سبھا میں 489 ممبر تھے اور اس میں سے 21 مسلمان تھے جبکہ اس وقت سرکاری شمار کے مطابق مسلمانوں کی قومی آبادی 9.91 فیصد تھی، اس لیے لوک سبھا میں اس وقت 49 مسلم ممبر ہونے چاہیے تھے۔ مردم شماری 2001 کے مطابق ہمارے ملک کی کل آبادی102.7 کروڑ تھی جس میں سے 13.4 فیصد مسلمان تھے۔ حدبندی 2008 کے مطابق لوک سبھا کی ایک سیٹ اوسطاً 18.9 لاکھ آبادی پر مختص کی گئی تھی۔لہٰذا اگر صرف مسلم آبادی کو18.9 لاکھ سے تقسیم کیا جائے تو لوک سبھا میں مسلمانوں کی 83 سیٹیں بنتی ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ مسلم آبادی پورے ملک میں مختلف فیصدوں میں بٹی ہوئی ہے اور اس زمینی حقیقت کو مدنظر رکھا جائے تو جس کو ہندی میں ’ مسلم بہولیہ چھیتر‘کہتے ہیں یعنی وہ انتخابی حلقے جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ با اثر ہو، ان کی تعداد 122 ہونی چاہیے۔ لیکن حدبندی ایسی کی گئی کہ 2009کے لوک سبھا الیکشن میں صرف 29 مسلمان کامیاب ہوئے، پھر 2014 میں22 اور 2019 میں 27۔
معلوم یہ ہوا کہ انتخابی حلقوں اور وارڈوں کی حدبندی (Delimitation)کی عام گڑبڑی کے علاوہ یہ بھی سلسلہ چل رہا ہے کہ جہاں مسلمانوں کا فیصد زیادہ ہو، ان انتخابی حلقوں کو شیڈیولڈ کاسٹ کے لیے ریزرو کر دیا جاتا رہا ہے جبکہ ایسا کرنا حدبندی قانون و ضابطہ کی صریح خلاف ورزی ہے۔اُدھر حدبندی قانون 2008 کے مطابق اب 2026 کے بعد ہونے والی پہلی مردم شماری یعنی 2031تک لوک سبھا کے انتخابی حلقوں کی حدبندی کو منجمد(Freeze) کردیا گیا ہے یعنی اس میں تبدیلی نہیں ہو گی۔ جھارکھنڈ اسمبلی کی حدبندی میں تبدیلی کو بھی اسی طرح 2026/2031 تک روک دیا گیا ہے۔ آسام، اروناچل پردیش، ناگالینڈ اور منی پور کے لیے یہ کہا گیا کہ وہاں ایسے حالات ہیں کہ جس سے ہندوستان کی سلامتی، اتحاد، امن و امان اور انتظام عام کو خطرہ ہے، اس لیے وہاں تازہ حدبندی کا کام اگلے احکامات تک ملتوی رکھا جائے گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اگر موجودہ حدبندی میں دستورہند، قوانین یا ضابطہ کے کچھ خلاف ہے تو اس کے ازالہ پر روک لگی ہو۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ آگے کے برسوں میں جو حدبندی کی کارروائی ہونے والی ہے، اس سے متعلق زمینی تیاری فی الوقت نہ کی جائے۔ در اصل انتخابی حلقوں کی حدبندی کاموضوع کچھ دلکش نہیں ہے اور زیادہ تر لوگوں کو اس کی اہمیت کا اندازہ بھی نہیں ہے۔جموں و کشمیر میں حدبندی کا کام فی الوقت چل رہا ہے، امید ہے کہ وہاں کے بیدار عوام اس پر نظر رکھ کے ضروری مداخلت کریں گے۔
حدبندی سے متعلق لا علمی ایسی ہی ہے جیسے کسی کو یہ معلوم نا ہو کہ اس کے خون میں کینسر کے عناصر سرایت کر گئے ہیں، اگر وقت سے معلومات ہوجائے اور صحیح علاج ہوجائے تو آگے کی زندگی خوشگوار ہو سکتی ہے لیکن معلومات ہی نہ ہو تو ظاہر ہے کہ علاج کی جب نوبت آئے گی تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی اور زندگی دکھ سے بھرسکتی ہے، یہی حال ملت اسلامیہ کی ہے، وارڈوں اور انتخابی حلقوں کی حدبندی کے تعلق سے اگر معلومات نہیں ہو گی تو علاج نہیں ہو گا۔ اس خلا کو کسی حد تک پر کرنے کے لیے zakatIndia.org پر حدبندی سے متعلق ایک سیکشن موجود ہے اس میں وقتاً فوقتاً معلومات فراہم کی جاتی ہے، حق اطلاع قانون کے تحت معلومات حاصل کرنے کے لیے خط کا نمونہ بھی وہاں دیا گیا ہے۔ اس کو پڑھ کے قارئین کو چاہیے کہ اپنے علاقہ میں کارروائی کریں اور اگر ضروری ہو تو ہم سے [email protected] پر مشورہ کرسکتے ہیں۔ ورنہ فی الحال تو حدبندی کے کام پر تعینات افسرشاہی اور اسٹاف یہ جانتے ہیں کہ کسی کو اس کام کی جانچ پڑتال کرنے میں دلچسپی نہیں ہے اور ہم جیسا چاہیں سیاہ سفید کرتے رہیںاور عوامی حقوق کی جڑ بھی کاٹ سکتے ہیں۔گریٹرممبئی میونسپل کارپوریشن کے الیکشن فروری 2017 میں ہوئے تھے، اس سے قبل زیڈ ایف آئی نے معلومات حاصل کی کہ وہاں کل 227 وارڈ ہیں جس میں مسلم ممبر اُس وقت صرف 23 تھے جبکہ آبادی کے مطابق یہ تعداد 35 ہونی چاہیے تھی۔ مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ وہاں17ریزروڈ وارڈوں میں شیڈیولڈ کاسٹ کا فیصد کم ہے اور دیگر 24 وارڈ ایسے ہیں جہاں شیڈیولڈ کاسٹ کا فیصد تمام17 ریزروڈ وارڈوں سے زیادہ ہے، پھر بھی انھیں ریزرو نہیں کیا گیا۔ اسی کے ساتھ 30 علیحدہ وارڈوں میں حدبندی کے رولس کی خلاف ورزی کی گئی تھی جس پر باقاعدہ اعتراض داخل کر کے زیڈ ایف آئی نے ان وارڈوں کی حدود کو حتی الامکان ٹھیک کروایا، نتیجتاً ملت کی نمائندگی میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح کی کامیاب کارروائی دہلی میونسپل کارپوریشن سے متعلق بھی 2016-17 میں کی گئی تھی، دیگر صوبوں میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
قارئین اپنے ضلع و صوبہ میں ہونے والے انتخابات کی تاریخیں برائے مہربانی نوٹ فرمالیں اور اب سے الیکشن تک کا ٹائم ٹیبل مرتب کرلیں کہ کس تاریخ تک کون سا انفرادی اور اجتماعی مثبت عمل کب ہوجانا چاہیے۔ یہ کوشش ذاتی یا خالص سیاسی نقطہ نظر سے نہیں ہونی ہے بلکہ پورے طور پر ملت کے دوررس مفاد میں ہونی ہے۔ہر الیکشن کو اپنی زندگی کا ایک اہم جز بنا لیجیے، جیسے بچہ کی نشوونما میں سنگ میل مقرر ہوتے ہیں کہ کب اس کی بسم اﷲ ہو گی،کب اسکول میں داخلہ، کب مولوی صاحب اور ٹیوٹر آئیں گے، آگے کیا مضامین پڑھوانے ہیں، اسے زندگی میں کیا بنوانا ہے وغیرہ۔ اسی طرح آپ کی پوری زندگی میں تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد کوئی نہ کوئی الیکشن ہونا ہے جس کا دیرپا اثر ملت کی فلاح پر پڑنا ہی ہے۔ اس لیے اپنے بچے کی طرح ہمیں ملت سے بھی محبت ہونی چاہیے اور اس کی بہبود کے لیے ہر الیکشن کو ملت کے حق میں کارگر بنانے کے لیے طویل مدتی تگ و دو کرنی چاہیے، خواتین کو اس کام میں برابر کی دلچسپی لینی ہوگی، امام و خطیب صاحبان اس کو خطبہ کا موضوع بنائیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر پہلی اینٹ ٹیڑھی ہوئی تو اس پر دیوار اوپر تک ٹیڑھی ہی بنے گی۔ الیکشن کے ذریعہ ملی فلاح کی دیوار کی پہلی اینٹ ہے انتخابی حلقوں اور وارڈوں کی صحیح حدبندی۔اس کام کے لیے ہر انتخابی حلقہ اورہروارڈمیں آپس میںپانچ ملی کارکنوں کی ایک کمیٹی تشکیل کرلیجیے، ایسے اشخاص کی جن کے دل میں ملت کے لیے بے لوث محبت ہو۔ معلوم کیجیے کہ مردم شماری 2011 کے مطابق آپ کے انتخابی حلقہ کی کل آبادی کتنی ہے، اس میں سے مسلم آبادی کہاں کہاں کتنی کتنی ہے، کل آبادی کا مسلم فیصد کتنا ہے، حلقہ کی آخری حدبندی کب ہوئی تھی، اس کا اثر مسلم مفاد پر کیا پڑا، آگے کس طرح کی حدبندی ہونی چاہیے تا کہ مسلم حق تلفی ختم ہوجائے۔ دوسرا اہم کام یہ ہے کہ ملی مفاد کے مد نظر ہر الیکشن میں سو فیصد ملی ووٹنگ کروانا ہے، اس کے لیے وقت سے نقل و حرکت شروع ہوجائے ووٹ دینے کی اہمیت لوگوں کو سمجھانے کے لیے اور یہ بتانے کے لیے کہ ووٹنگ کے اتحاد میں ملت کے کیا کیا فائدے ہیں۔ فکر کیجیے 2047 کی جب آزادی کو 100 برس ہو چکے ہوں گے اور لوک سبھا کے5، صوبائی اسمبلیوں کے درجنوں اور لوکل سطح پر سیکڑوںالیکشن ہوچکے ہوں گے، کیا علامہ اقبال ؔ کی طرح کسی اور کو اﷲتعالیٰ کی طرف سے جوابِ شکوہ دینے پر مجبور کردیں گے کہ ’ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمھیں پیاری ہے‘۔
[email protected]