خاورحسن
20 برس پہلے امریکہ کے حالات میں اتنی بڑی تبدیلی کا اندازہ شاید ہی کسی کو رہا ہوگا۔ امریکہ کے مستحکم جمہوری نظام، سیکورٹی افسروں میں ذمہ داری کے احساس، امن کی اہمیت سے عام لوگوں کی واقفیت اور دانستہ طور پر قانون شکنی سے حتی الامکان گریز، جان ایف کنیڈی کی اس سوچ کو۔۔۔کہ ’یہ مت دیکھئے کہ امریکہ آپ کے لیے کیا کرتا ہے، یہ دیکھئے کہ امریکہ کے لیے آپ کیا کرتے ہیں۔‘۔۔۔امریکی لیڈروں کے آگے بڑھانے کی کوششوں کے مدنظر یہ بات سوچی نہیں جا سکتی تھی کہ امریکہ میں ایک لیڈر کی اہمیت اتنی بڑھ جائے گی، امریکیوں کی ایک بڑی تعداد امریکہ کے وقار پر ٹرمپ کے اقتدار کو ترجیح دے گی، وہ اپنے قول و عمل سے یہ ظاہر نہیں کرے گی کہ امریکہ ہے تو ٹرمپ ہیں اور ٹرمپ جیسے لیڈران ہیں، وہ ظاہر یہ کرے گی کہ ٹرمپ ہیں تو امریکہ ہے، امریکہ کی طاقت ہے، امریکہ کی عظمت ہے۔امریکہ کو خود اپنے ہی کئی لوگوں سے خطرہ پیدا ہو گیا ہے، کیونکہ وہ یہ سوچنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ملک بڑا ہے یا لیڈر؟ وہ کیپٹل ہل پر دھاوا بول کر یہ دکھا چکے ہیں کہ ان کے لیے ڈونالڈ ٹرمپ کی اہمیت زیادہ ہے مگر یہ حالات ایک دن میں نہیں بنے ہیں۔ ٹرمپ پچھلے کئی برسوں سے اپنے انداز کی سیاست کر رہے تھے اور ان کے سامنے امریکہ کا جمہوری نظام کسی حد تک بے بس نظر آرہا تھا۔ یہ سوال جواب طلب ہے کہ سیاہ فام جارج فلوئیڈ کے قتل پر انسان دوست امریکی مظاہرے کر رہے تھے اور ٹرمپ صدارتی انتخابات کے مدنظر بیانات دے رہے تھے تو امریکہ کے جمہوریت پسند لیڈروں نے متوقع حالات کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کی اور اگر کی تو غیر جمہوری حالات بننے سے روکنے کے لیے انہوں نے کیا اقدامات کیے؟
سیاست میں اکثر پرانی سوچ نئے چہروں میں نظر آتی ہے مگر سیاست میں مفاد کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ ایک مقبول حکمراں لیڈر کے مذموم بیانات، اس کی غلطیوں پرحریف لیڈران اسی حد تک احتجاج کرتے ہیں کہ عوام میں ان کی مثبت شبیہ رہے، ورنہ بڑی حد تک خاموشی اختیار کیے رکھتے ہیں تاکہ حکمراں لیڈر کا اپنے اوپر اعتماد بڑھتا رہے، وہ ایک کے بعدایک مذموم بیانات دیتا رہے، ایک کے بعد ایک غلط فیصلے کرتا رہے تاکہ اپنے ہی بیانات، اپنے ہی فیصلے اس کی شبیہ منفی بنا دیں ۔ کیا یہی ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ نہیں ہوا؟ بات اگر یہ نہیں تو پھر یہ کہا جائے گا کہ اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈران متوقع حالات کا اندازہ نہیں لگا پائے۔ موجودہ حالات کا اندازہ اگر ہوتا تو نینسی پلوسی پہلے ہی متحرک ہو جاتیں، ان کے ساتھ جمہوریت پسند لیڈران انتخابی سرگرمیوں پر توجہ دینے سے پہلے امریکہ میں امن و امان قائم رکھنے پر توجہ دیتے۔
خبروں کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ میں حالات سنگین ہیں، لوگ اندیشوں میں وقت گزارنے پر مجبور ہیں۔ نو منتخب صدر جو بائیڈن کی پرامن حلف برداری کے لیے ہزاروں سیکورٹی فورسز لگانی پڑی ہے۔ خدشہ اس بات کا ہے کہ کبھی بھی اور کہیں بھی حالات بگڑ سکتے ہیں، تشدد کی آگ بھڑک سکتی ہے۔ تفتیشی ادارے فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن یعنی ایف بی آئی نے متنبہ کیا ہے کہ امریکہ کی سبھی 50 ریاستوں اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں مسلح مظاہرے ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، ’20 جنوری 2021 کو بائیڈن کی تقریب حلف برداری سے قبل واشنگٹن ڈی سی کا اکثر حصہ لاک ڈاؤن میں ہوگا اور یہاں نیشنل گارڈ کے دستوں کی صورت میں ہزاروں جوان تعینات کیے جائیں گے۔ کیپٹل ہل سے کئی میل دور سڑکیں بند کر دی گئی ہیں اور وہاں کنکریٹ اور دھات کی رکاوٹیں نصب ہیں۔۔۔۔حلف برداری کی تقاریب کے دوران نیشنل مال جہاں عام طور پر لوگوں کا رش ہوتا ہے، اسے بھی سیکرٹ سروس کی درخواست پر بند کر دیا گیا ہے۔‘ان تیاریوں سے متوقع خطرے کا اندازہ ہوتا ہے لیکن ان حالات میں بھی جو بائیڈن کا تحمل برقرار ہے۔
بائیڈن نے اب تک نپا تلا بیان دیا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلے، ان کے حامی اور ٹرمپ کے حمایتی باہم متصادم ہوں، حالات مزید سنگین ہوں۔ لوگوں سے ان کی یہ درخواست ناقابل فہم نہیں کہ کورونا کے مدنظر وہ حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے واشنگٹن ڈی سی کا سفر نہ کریں۔ رپورٹ کے مطابق، کل پیر یعنی امریکہ کے حساب سے اتوار، 18 جنوری کو مسلح مظاہروں کا خدشہ ہے۔ ’انٹرنیٹ پر ٹرمپ کے حامیوں اور انتہائی دائیں بازوں کے گروہوں نے اس روز اپنی آن لائن کمیونٹی میں مسلح مظاہروں کی کال دے رکھی ہے۔‘ راحت کی کچھ بات یہ ہے کہ ’کچھ مسلح گروہوں نے اپنے حامیوں سے ان مظاہروں میں نہ جانے کا کہا ہے۔‘ ان کا ماننا ہے کہ ’پولیس نے یہ مظاہرے ایک منصوبے کے تحت رکھوائے ہیں تاکہ ان میں شمولیت کرنے والے لوگوں کو حراست میں لیا جا سکے۔‘ انہیں شبہ ہے کہ ’ان مسلح مظاہروں میں سیکورٹی کے سخت انتظامات ہو سکتے ہیں۔‘ یہ باتیں یہ اشارہ ہیں کہ ٹرمپ کے سبھی حامی ہر حال میں مسلح مظاہرہ نہیں کریں گے، سیکورٹی انتظامات کا خوف انہیں مسلح مظاہرہ نہ کرنے سے روکے گا مگر یہ بات نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے حق میں 46.9 فیصد ووٹروں نے ووٹ دیے ہیں۔ یہ تعداد 7 کروڑ، 40 لاکھ سے زیادہ ہے۔ پتہ نہیں کہ کتنے لوگ ہر حال میں ٹرمپ کو امریکہ کا صدر دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیا امریکہ کی کسی ایجنسی کے لیے ٹرمپ پر جان تک فدا کرنے کے لیے تیار حامیوں کا پتہ کرنا آسان ہے؟ظاہر سی بات ہے، اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ امریکہ میں اندیشوں اور خدشات کی یہ ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔ دیگر ملکوں کے امریکہ کے صدارتی انتخابات میں مداخلت کی باتیں کہی جاتی رہی ہیں۔ کیا روس اور چین کی امریکہ سے مخالفت کی وجہ سے بھی اتنی بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز تعینات کی گئی ہیں؟
مسلح مظاہرین سے نمٹنے کے لیے امریکہ کی سبھی ریاستوں نے تیاری کر رکھی ہے۔ ماہرین کے حوالے سے آنے والی رپورٹ کے مطابق، ’جن ریاستوں میں صدارتی انتخابات کے دوران جو بائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان کڑا مقابلہ دیکھا گیا تھا وہاں پرتشدد واقعات ہونے کا زیادہ اندیشہ ہے۔ ان ریاستوں میں سے ایک مشی گن ہے جہاں ریاستی عمارتوں کے گرد 6 فٹ کی دیوار بنائی گئی ہے۔‘امن قائم رکھنے کے لیے سوشل میڈیا نگرانی میں ہے، اس پر کچھ چیزوں کے پوسٹ کرنے پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ نیشنل گارڈ کے مزید فوجی دستے واشنگٹن ڈی سی روانہ کر دیے گئے ہیں۔ ان پر یہ ذمہ داری ہوگی کہ پرتشدد حالات پھر پیدا نہ ہوں، البتہ یہ کہنا مشکل ہے کہ فوجی دستے اپنی ذمہ داری کس حد تک نبھاتے ہیں۔
سیکورٹی فورسز نے امریکہ کے جمہوری تشخص کے تحفظ کے لیے ٹرمپ حامیوں کے خلاف ذرا سختی دکھائی ہوتی تو 6 جنوری ان کے ملک کی جمہوری تاریخ کا سیاہ دن نہیں بنتا۔ امریکہ واقعی مسلسل امتحان کے ایک دور سے گزر رہا ہے۔ اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں، کیونکہ امریکیوں کی بڑی تعداد جمہوری نظام کی اہمیت سے واقف ہے۔ وہ جمہوری نظام کے فوائد کے بارے میں جانتی ہے۔ جمہوری نظام کی وجہ سے ہی 9/11 کے واقعے کے بعد امریکہ میں حالات قابو میں رہے تھے، ورنہ لیڈروں کی ایک تعداد 9/11 کی آگ پر مفاد کی روٹی سینکنے کی کوشش کرتی، بیشتر صحافی امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنانے کی مہم چلاتے، وہ عوام کو مذہب کی بنیاد پر بانٹنے میں رول ادا کرتے مگر امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف اکا دکا واقعوں کے علاوہ بڑے واقعوں کا سلسلہ نہیں چلا۔ اس وقت کے صدر جارج واکر بش کی خارجہ پالیسی چاہے کیسی ہی رہی ہو مگر ان کی حکومت نے بڑی تعداد میں مسلمانوں کو امریکہ کی شہریت دے کر یہ اشارہ دے دیا تھا کہ امریکہ میں حکومت کی سطح پر تعصب نہیں۔ فی الوقت امریکی لیڈران امتحان کے ایک دور سے گزر رہے ہیں، امریکہ کے جمہوری نظام کے لیے بھی یہ امتحان کا دور ہے۔ اس میں کامیابی امریکہ کے سنہرے مستقبل کے لیے ضروری ہے۔ امریکہ کی مضبوطی عوام کے اتحاد میں پنہاں ہے۔ امریکی اگر اپنے ملک کی ساکھ اور استحکام برقرار رکھنے کے لیے متحد ہو جائیں گے تو بدلتے حالات امریکہ پر اثرانداز نہیں ہوں گے،اگر وہ ایسا نہیں کر سکے تو بتانے کی ضرورت نہیں، عدم اتفاق سے قوموں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے تو ملک کا استحکام بھی اس کے لوگوں کے اتحاد پر موقوف ہوتا ہے۔
[email protected]