خاورحسن
ایک نظام بنانے میں برسوں لگ جاتے ہیں اور اسے مسمار کرنے کے لیے زیادہ وقت درکار نہیں ہوتا۔ امریکہ میں بھی جمہوری نظام قائم کرنے میں برسوں لگ گئے لیکن اسے مسخ کرنے میں ٹرمپ کے حامیوں نے ذرا تامل سے کام نہیں لیا۔ ان کے لیے ایک لیڈر کی اہمیت اپنے ملک کے تشخص سے زیادہ بڑھ گئی۔ اسی لیے اس بات کی پروا انہوں نے نہیں کی کہ ان کے عمل سے دنیا بھر میں امریکہ کی کیا امیج بنے گی۔ انٹرنیٹ کے اس دور میں دو چار منٹوں میں کسی خبر کا دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچ جانا کوئی مشکل نہیں ہے مگر آدمی جذباتی ہو تو کہاں کچھ سوچتا ہے۔ ٹرمپ کے حامی کیپٹل ہل میں نہیں گھستے اگر وہ یہ سوچنے کی زحمت گوارہ کرتے کہ ٹرمپ سے امریکہ نہیں ہے، امریکہ سے ٹرمپ ہیں۔ جمہوری نظام قائم رہے گا تو امریکہ کی ساکھ قائم رہے گی، چار برس بعد پھر ٹرمپ کے لیے صدارتی انتخابات میں امیدوار بننے کی گنجائش ہوگی مگر انہوں نے خود کو ٹرمپ کا حامی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ان کے لیے ٹرمپ، امریکہ سے بڑے ہو گئے ۔ ٹرمپ پریہ الزام ہے کہ انہوں نے لوگوں کو مشتعل کیا۔ کیپٹل ہل میں گھس جانے والے لوگوں سے مخاطب ہونے پر بھی ان کا لہجہ سخت نہیں تھا جبکہ اس وقت انہیں سختی دکھانی چاہیے تھی مگر ظاہر سی بات ہے کہ وہ بنجامن فرینکلن یا جان ایف کنیڈی جیسے لیڈر نہیں ہیں۔ اگر وہ بنجامن فرینکلن جیسے صدر ہوتے تو پرستاروں سے یہ کہتے کہ امریکہ جمہوریہ ہے اوراس وقت تک جمہوریہ رہے گا جب تک سبھی امریکی جمہوری نظام رکھنا چاہیں گے اور اگر وہ جان ایف کنیڈی جیسے صدر ہوتے تو پرستاروں سے یہ کہتے، آپ یہ مت دیکھئے کہ امریکہ نے مجھے کیا دیا ہے، دو بارہ صدر نہیں بن پایا ہوں، آپ یہ دیکھئے کہ میں نے امریکہ کو کیا دیا ہے، آپ امریکہ کو کیا دے سکتے ہیں۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی پچھلی انتخابی مہم یہ اشارہ تھی کہ وہ امریکہ کے صدر اگر بن گئے تو ان کا انداز حکمرانی اب تک کے امریکی صدور سے الگ ہوگا۔ اس کے باوجود وہ جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ تھا کہ امریکہ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ٹرمپ کے مزاج کی ہی ہے، چنانچہ ٹرمپ نے اپنی پالیسیوں میں بڑی تبدیلی نہیں کی۔ وہ اپنی ڈگر پر آگے بڑھتے رہے۔ بات داخلہ پالیسی کی ہو یا خارجہ پالیسی کی، ٹرمپ نے اپنے قول و عمل سے یہ بتایا کہ وہ کسی کی چلنے نہیں دیں گے۔ ان کی اس روش نے عالمی لیڈروں میں گھبراہٹ بھی پیدا کی اور امید بھی۔ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ- اُن بڑی بے باکی سے آرا کا اظہار کیا کرتے تھے مگر ٹرمپ کے آگے انہیں جھکنا پڑا۔ وہ ان سے ملنے کے لیے تیار ہوئے۔ ٹرمپ نے بھی اُن سے ملاقات کی۔ اس ملاقات سے یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ گئی کہ ٹرمپ جانتے ہیں، کس کو مرعوب کرنا ہے اور کس سے گفتگو کرنی ہے۔ ایران کے ایٹم بم بنانے کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ نے اس کے ایٹمی پروگرام پر امن معاہدے کومسترد کر دیا۔ دوسری طرف شمالی کوریاکے مسئلے کا حل مذاکرات کی میز پر تلاش کرنے کی کوشش کی، کیونکہ اس کے پاس ایٹم بم ہے۔ اسی طرح افغان جنگ اختتام تک پہنچانے کے لیے امریکہ کا طالبان سے معاہدہ ٹرمپ کے دور حکومت میں ہی ہوا۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے پہلے دن سے اسرائیل کے تئیں واضح پالیسی رکھی۔ اس سے عرب لیڈروں کے لیے یہ بات سمجھ سے بالاتر نہیں رہی کہ اسرائیل سے قربت امریکہ سے انہیں قریب کر دے گی، یہ قربت انہیں ایران کے مقابلے مضبوط کر دے گی، اس لیے اسرائیل سے رشتہ استوار کرنے میں انہیں دشواری نظر نہیں آئی مگر ٹرمپ اس پر توجہ نہیں دے سکے کہ ان کی پالیسی کی وجہ سے ایران چین کے کچھ اور قریب ہو جائے گا، اس کا رشتہ روس سے کچھ اور مضبوط ہو جائے گا اور یہ امریکہ کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا مگر جو بائیڈن کے صدر منتخب ہو جانے سے یہ امید بندھی ہے کہ حالات بدلیں گے۔ بائیڈن نرم رویہ اختیار کر کے ایران کو چین اور روس سے دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ صدر منتخب ہونے پر چین اور روس سمیت دیگر ملکوں کے سربراہوں نے بائیڈن کو مبارکباد دینے میں تاخیر کی۔
شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ- اُن نے یہ اندازہ لگا لیا ہے کہ بائیڈن اور ٹرمپ میں فرق ہے، اس لیے اُن نے پرانا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے۔ اُن نے امریکہ کو شمالی کوریا کا ’سب سے بڑا دشمن‘ بتایا ہے اور یہ بات کہی ہے کہ امریکہ کا صدر خواہ کوئی بھی ہو، پیونگ یانگ کے تئیں واشنگٹن کی پالیسی میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ اُن نے شمالی کوریا کے ایٹمی ہتھیاروں میں اضافے اور فوجی طاقت بڑھانے کی بات کہی ہے۔رپورٹ کے مطابق، ’تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مسٹر کم کے ریمارکس آنے والی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہیں۔‘سوال یہ ہے کہ اس کوشش کی وجہ کیا ہے؟ اس کوشش کی وجہ یہ ہے کہ بائیڈن، ٹرمپ نہیں۔ وہ امریکہ کو کسی جنگ میں الجھانے سے پہلے کئی بار سوچیں گے مگر ٹرمپ کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے یہ خدشہ رہتا تھا کہ امریکہ کبھی بھی ایک اور جنگ میں الجھ سکتا ہے اور وہ اگر نئی جنگ میں الجھ گیا تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ چین اور پھر روس کو ملے گا۔
2016 میں ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد اچانک یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ حالات بدل گئے ہیں۔ سیاہ فام لوگوں کے لیے حالات پہلے بھی بے حد اچھے نہیں تھے، البتہ اس ایشو پر بیان دیتے وقت امریکی صدور اپنے وقار کا لحاظ رکھا کرتے تھے مگر جارج فلوئیڈ کے قتل کے بعد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تو اس پر ٹرمپ کے بیانات کی مذمت کی گئی۔ مذمت بے وجہ نہیں تھی، ٹرمپ نے اس ایشو پر بیانات دیتے وقت یہ نظر انداز نہیں کیا تھا کہ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں زیادہ دن نہیں بچے ہیں۔ اسی طرح کورونا وائرس کی وبا کو ٹرمپ نے پہلے گمبھیرتا سے نہیں لیا۔ انہیں لگتا تھا کہ یہ کوئی عام وائرس ہے۔ کورونا سے نمٹنے کے بجائے ان کی توجہ آئندہ ہونے والے صدارتی انتخابات پر تھی۔ وہ خوش تھے کہ پچھلی کچھ دہائیوں میں امریکہ میں بے روزگاری کی شرح سب سے کم ہے لیکن کورونا نے اچانک تیور دکھانے شروع کیے، لوگوں کی نوکریاں جانے لگیں، دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں، کروڑوں لوگ بے روزگار ہوگئے، ہیلتھ کیئر سسٹم کی خامیاں سامنے آنے لگیں اور یہ چیزیں ٹرمپ کے خلاف گئیں، ورنہ صدارتی انتخابات کی مہم کے ابتدائی دنوں میں یہی لگتا تھا کہ ٹرمپ بولنا جانتے ہیں، بائیڈن ان کے سامنے مباحثے میں ٹک نہیں پائیں گے مگر اندازہ ہوا کہ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ حالات بنانے یا بگاڑنے کی صلاحیتوں کا اظہار کوئی لیڈر بار بار کر لے مگر حالات پر مستقل اور پوری طرح کنٹرول نہ کبھی کسی لیڈر کے پاس تھا اور نہ کبھی رہے گا، کیونکہ ایسا ہونے پر تبدیلی رک جائے گی اور تبدیلی قدرت کا قانون ہے۔
ٹرمپ صدارتی انتخاب ہار چکے ہیں، زیادہ سے زیادہ 20 جنوری 2021 تک امریکہ کے صدر رہیں گے، 2024 کے صدارتی انتخابات میں وہ امیدوار بن پاتے ہیں یا نہیں، یہ وقت بتائے گا مگر فی الوقت یہی لگتا ہے کہ ان کے لیے آگے کی راہیں مسدود ہوگئی ہیں۔ ان کے حامیوں نے انجانے میں ہی سہی مگر ان سے محبت نہیں، دشمنی کر ڈالی ہے۔ ان کی شبیہ مسخ کر دی ہے۔ امریکہ کی جمہوری تاریخ پر ایک دھبہ لگا دیا ہے۔ اسے مٹانے کے لیے بائیڈن کو بڑی محنت کرنی ہوگی۔ وہ سلجھے ہوئے لیڈر ہیں، امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے کی اہلیت ان میں ہے مگر 2020 کے صدارتی انتخاب میں انہیں اگر 81,268,757 ووٹ ملے ہیں تو ٹرمپ کو 74,216,722 ووٹ ملے ہیں، اس لیے بائیڈن کی راہ آسان نظر نہیں آتی۔ ایسا لگتا ہے کہ عالمی سطح پر انہیں جتنی چنوتیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اس سے کم چنوتیوں کا سامنا اندرونی سطح پر نہیں کرنا پڑے گا۔ اگلے چار سال ان کے تحمل، دور اندیشی اور اس بات کا امتحان ہوں گے کہ بدلتے حالات کو وہ کتنی جلدی سمجھتے ہیں اور ان میں بروقت فیصلہ لینے کی کتنی اہلیت ہے۔
[email protected]