آدمیکی زندگی سے چنوتیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ چنوتیاں ختم ہوجائیں، زندگی میں راحت ہی راحت ہو تو پھر دنیا کی رفتار رک جائے گی۔ ہر چنوتی صلاحیتوں اور حالات سے مقابلہ کرنے کی طاقتوں کا احساس دلاتی ہے۔ کورونا وبا کے آنے کے بعد یہ بات کہی گئی تھی کہ جیسے پہلے وبائیں آتی رہی ہیں اسی طرح آئندہ بھی وبائیں آتی رہیں گی، اس لیے لوگوں کو کورونا سے ڈرنے اور گھبرانے کے بجائے اس سے بچنے کے لیے احتیاط کرنی چاہیے جبکہ حکومتوں کو یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہنگامی حالات میں کیسے کام کرنا چاہیے، یہ دیکھنا چاہیے کہ ہیلتھ کیئر سسٹم میں کیا خامی ہے، کن شعبوں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جن ریاستوں کی حکومتوں نے ہیلتھ کیئر سسٹم کی خامیوں کو دور کر لیا ہوگا، برڈ فلو کی آمد سے وہ زیادہ متفکر نہیں ہوں گی، البتہ ان ریاستی سربراہوں کے لیے برڈ فلو کی دستک باعث تشویش ہوگی جو لوگوں کو طبی سہولتیں پہنچانے کے حوالے سے بڑی بڑی باتیں کرتے رہے ہیں مگر اپنی ریاست کے ہیلتھ کیئر سسٹم کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ ویسے مرکزی حکومت کو بھی برڈ فلو کی روک تھام کی پیشگی تیاری کر لینی چاہیے۔ مرکزی حکومت کو برڈ فلو کی وجہ سے مرغیوں، بطخوں اور چڑیوں کے کاروبار پر پڑنے والے منفی اثرات سے کاروباریوں کو نجات دلانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے تاکہ وہ، ان کے ساتھ کام کرنے والے لوگ اور ان کے اہل خانہ برڈ فلو کے منفی اثرات سے بچے رہیں۔
راجستھان کے کوٹا میں جنوری کے پہلے ہفتہ میں کئی کوؤں کی موت کی خبر آئی تھی۔ اس نے مقامی لوگوں میں یہ ڈر پیدا کر دیا کہ کوؤں کی موت برڈفلو کی آمد کی طرف اشارہ ہے۔ پچھلے کچھ دنوں میں دلی کے میور وہار فیز-3 میں 100 سے زیادہ کوؤں کی موت نے ہلچل مچا دی ہے۔ آج دلی کے ہی ترلوک پوری میں واقع سنجے لیک سے 10 بطخوں اور کچھ کوؤں کے مرنے کی خبر آئی ہے۔ ان کا سیمپل جانچ کے لیے بھوپال کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہائی سیکورٹی اینیمل ڈیزیز بھیج دیا گیا ہے۔ رپورٹ آنے کے بعد ہی یہ پتہ چل پائے گا کہ کوؤں اور بطخوں کے مرنے کی اصل وجوہات کیا ہیں لیکن ان کی اموات نے لوگوں میں یہ خوف پیدا کر دیا ہے کہ برڈ فلو دستک دے چکا ہے، اب وہ تیور دکھائے گا لیکن اس خوف کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ حالات کا مقابلہ خوف زدہ ہوکر کرنے والے لوگ ہار جاتے ہیں اور حالات سے نمٹنے میں کامیابی ان لوگوں کو بھی نہیں ملتی جو پرامید نہ ہوں، کیونکہ برے حالات میں سب سے زیادہ ضرورت خود پر قابو رکھنے اور مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ہوتی ہے۔ ایسا کرنے پر توانائی کی کمی نہیں ہوتی اور حالات سے نمٹنے کے لیے توانائی ضروری ہے۔
ڈرنے سے آدمی کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے اور جو ڈرپوک ہو، اسے تو کوئی بھی چیز ڈرا سکتی ہے، بیماری ہی کیوں نہ ہو، اس لیے پہلی فرصت میں یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ برڈ فلو ہے کیا؟ اس سے بچنے کے لیے کیا احتیاطی تدابیر کی جائیں؟ سبھی احتیاطی تدابیر کے باوجود اگر یہ وبا جسم کو لگ ہی جائے تو اس کا علاج کس طرح کرایا جائے؟ آس پاس کے کن اسپتالوں میں اس کے علاج کی سہولتیں دستیاب ہیں؟ویسے دلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال اس طرح کے معاملوں کی سنگینی کا احساس کرنے میں تاخیر نہیں کرتے۔ وہ بروقت اقدام کرتے ہیں۔ برڈ فلو کا ابھی کوئی تصدیق شدہ معاملہ سامنے نہیں آیا ہے، اس کی وجہ سے ابھی کسی کی جان نہیں گئی ہے، اس وبا نے دلی میں ابھی پاؤں نہیں پسارے ہیں مگر کجریوال نے دلی کی غازی پور مرغا منڈی کو 10 دنوں کے لیے بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سے کل تک کم ہوتی مرغیوں کی قیمتیں پھر آسمان چھونے لگیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ کئی لوگ اس وقت تک احتیاط نہیں برتے جب تک کہ حالات کی سنگینی کا احساس انہیں اچھی طرح نہ ہو جائے جبکہ یہ روش غلط ہے۔ ’جان ہے تو جہان ہے‘ ایک پرانی کہاوت ہے۔ اس کے مفہوم کو کم سے کم ایسے حالات میں سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ دلی کے وزیراعلیٰ غریبوں کو نظرانداز کر کے کسی پالیسی پر عمل نہیں کرتے، کچھ اعلان کرتے وقت عام لوگوں کا خیال کرتے ہیں، اس سلسلے میں عورتوں کے لیے فری بس سروس ، 200 یونٹ تک فری بجلی اور 20 ہزار ماہانہ فری پانی قابل تقدید مثالیں ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ مرغا منڈی کے بند رہنے سے چھوٹے کاروباریوں پر جو اثرات پڑیں گے، اروند کجریوال اس سے نمٹنے کے لیے اقدامات کریں گے، انہیں یہ محسوس کرائیں گے کہ ان کی پریشانیوں سے وہ بے خبر نہیں ہیں۔ وہ کچھ اہم اعلان کرتے وقت تمام پہلوؤں پر توجہ دیتے ہیں۔
[email protected]
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS