پریم کمار منی
گزشتہ بدھ کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں موجودہ، لیکن اگلے صدارتی عہدہ کے الیکشن میں شکست یافتہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے سیکڑوں مسلح حامیوں نے امریکی پارلیمنٹ میں گھس کر ایسی افراتفری کا ماحول پیدا کردیا کہ پوری دنیا حیران رہ گئی۔ یہ مسلح ٹرمپ حامی پارلیمنٹ کی اس کارروائی پر دباؤ بنارہے تھے، جہاں الیکشن نتائج پر پارلیمنٹ کی مہر لگنی تھی۔ یہ امریکہ میں صدارتی الیکشن کا ایک عمل ہے۔ گویا کہ پرتشدد ہجوم طاقت سے ضمانت کو متاثر کرنا چاہ رہا تھا۔
74سالہ ڈونالڈٹرمپ فی الحال صدر ہیں۔ اگلے صدارتی عہدہ کے لیے جو الیکشن ہوئے، اس میں وہ اپنی ریپبلکن پارٹی کے دوبارہ امیدوار تھے، لیکن گزشتہ دنوں جو الیکشن ہوئے اس میں وہ ڈیموکریٹ امیدوار جوبائیڈن سے پیچھے رہ گئے۔ انہوں نے عدالت کی پناہ لی، لیکن وہاں بھی ان کی حمایت حاصل نہیں ہوئی۔ امریکی قائدوں کے مطابق رواں ماہ کی 20تاریخ کو نو منتخب صدر کو عہدہ سنبھالنا ہے۔ اس سے قبل پارلیمنٹ کی مہر لگتی ہے۔ اس سے متعلق جو کارروائی چل رہی تھی اسے جبراً متاثر کرنے کے ارادہ سے ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے پارلیمنٹ کی طرف کوچ کرنے کی اپیل کی اور تیار بیٹھے حامی پارلیمنٹ کی عمارت میں دوپہر تقریباً 2بجے گھس بھی گئے۔ ان لوگوں کے گھستے ہی افراتفری ہونا فطری تھا۔ یہ تقریباً ویسا تھا جیسا ہندوستان میں 13دسمبر2001کو پارلیمنٹ کی چل رہی کارروائی کے دوران لشکرطیبہ اور جیش کے دہشت گردوں کا حملہ تھا۔ اس دوران پارلیمنٹ نے جو بائیڈن اور ہندنژاد کملا ہیرس کے بالترتیب صدر اور نائب صدر منتخب ہونے کی تصدیق کردی ہے۔ 538 ممبران والی کانگریس(یو ایس اے پارلیمنٹ) میں جو بائیڈن کو 306اور ڈونالڈٹرمپ کو 232سیٹیں ملی ہیں۔
بدھ کا واقعہ کوئی ابھرتے ہوئے جمہوری ملک میں نہیں اس امریکہ میں ہوا ہے، جہاں آزادی اور جمہوریت کی طویل جنگ لڑی گئی ہے۔ 4جولائی 1976 کو جارج واشنگٹن کی قیادت میں ایک طویل جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی تھی اور جمہوریت کا عزم کیا تھا۔ ہر برس 4جولائی کو امریکہ اپنی آزادی کا جشن مناتا ہے۔ وہ یوروپی ممالک سے کچھ معنوں میں مختلف ہے کہ وہاں نشاۃ ثانیہ یا روشن خیالی نہیں آئی اور سوشلسٹ بخار بھی اس طرح نہیں آیا جیسا یوروپ کے ممالک میں آیا، لیکن جمہوریت کے اس کے وعدے ہمیشہ نشان زد کیے جاتے رہے ہیں۔ جدید زمانہ کے متعدد سماجی فلاسفرز نے وہاں کی جمہوری تحریک سے ترغیب حاصل کی ہے۔ اس میں کارل مارکس بھی ہیں اور جواہر لعل نہرو و بھیم راؤ امبیڈکر بھی۔ انیسویں صدی میں ہندوستان کے کسان لیڈر اور مہاراشٹریہ نوجاگرن کے علامتی شخص مہاتما جیوتی با پھولے نے اپنی مشہور کتاب ’غلام گیری‘ ان امریکی جنگجوؤں کے نام کی ہے، جنہوں نے غیرانسانی غلامی کے خلاف تحریک کی تھی اور کامیابی حاصل کی تھی۔ انسانیت کی نجات کے لیے امریکہ کو ہمیشہ یاد کیا جاتا ہے۔ وہ جارج واشنگٹن کا ملک ہے تو اینڈرو جیکسن اور ابراہم لنکن کا بھی۔ 1829 میں جب وہاں اینڈرو جیکسن صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے یکبارگی کئی طرح کے تام جھام کو اُتار پھینکا۔ وہ عام کارکنان کے ساتھ وہائٹ ہاؤس میں گھسا اور اس کے پورے رائل ڈھکوسلے کو تہس نہس کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ہی امریکہ میں حقیقی جمہوریت لایا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں حقیقی(رئیل) جمہوریت ہے، جب کہ برٹش جمہوریت میں آج بھی رائل عناصر حاوی ہیں، لیکن یہ بھی ہے کہ ہر ملک کی طرح وہاں بھی بالادست طاقتیں بنی ہوئی ہیں اور کبھی کبھار سر بھی اٹھاتی ہیں۔ انیسویں صدی میں خانہ جنگی کے بعد کے دنوں میں وہاں گوروں کی ایک نسلی تنظیم کو-کلکس-کلان کی دھوم رہی۔ ایک عجیب سی وردی پہنے کو-کلکس-کلان یعنی 3کے، کے سویم سیوک جگہ جگہ پریڈ کرکے اپنے اثر کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ان کی جانب سے دہشت گردانہ کارروائیاں بھی کی گئیں۔ لیکن کچھ ہی برسوں بعد ان کے اثر سمٹنے لگے۔ اس صدی کے آغاز میں یہ سنا گیا کہ 3کے کی ممبرشپ میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہورہا ہے، لیکن تبھی خبر آئی کہ ایک بلیک براک اوباما امریکی صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر امریکی جمہوریت نے دنیا کو یقین دلایا کہ ہم وہی امریکہ ہیں جس کی بنیاد واشنگٹن، جیکسن اور لنکن جیسے لوگوں نے رکھی ہے۔ جس نے ایک وقت نسلی غلامی کا قانون کے ذریعہ خاتمہ کیا ہے۔ جہاں سوجارنر ٹروتھ نے کبھی غلامی کے خلاف تحریک کی ہے۔ لیکن افسوس دنیا بھر میں جمہوریت کے بجھتے چراغوں کو طاقت دینے والا امریکہ آج خود کہاں آگیا ہے؟
امریکہ آج اس سطح تک کیسے پہنچا؟ اس کے لیے امریکی معاشرہ میں آئی گراوٹ اور اس کے بیچ ابھرتی نئی زندگی کی اقدار کو دیکھا جانا چاہیے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی شخصیت اور سروکاروں کو بھی دیکھا جانا چاہیے۔ ٹرمپ کا سیاسی پس منظر انتہائی کمزور رہا ہے۔ وہ لیڈر نہیں بلکہ بزنس مین رہے ہیں، کاروباری رہے ہیں۔ انہوں نے یین کین ریپبلکن پارٹی کی امیدواری حاصل کرلی اور جیت بھی گئے۔ ان کا صدارتی عہدہ کا الیکشن جیتنا زیادہ تر لوگوں کو متحیر کرگیا تھا۔ لیکن وہ جیتے یہ ایک سچائی تھی، جیسے آج ہارے یہ ایک سچائی ہے۔ کیا ہم نے ان کی جیت کے اسباب کا کبھی تجزیہ کیا ہے؟ شاید نہیں۔ ان کی جیت کیا براک اوباما کے دو مرتبہ صدر بن جانے کا ایک فطری ردعمل نہیں تھا؟ میرا ماننا ہے یہی سچ تھا۔ براک اوباما کا صدر ہونا امریکہ کی سماجی-سیاسی زندگی میں اگر ایک انقلاب تھا، تو ڈونالڈ ٹرمپ کا جیتنا ایک انسدادانقلاب۔ یہ ایک نسلی دھماکہ تھا جو چپ چاپ ہوا تھا۔ اس کی جڑیں کو-کلکس-کلان جیسی سوچ میں تھیں۔ اور یہیں پوری دنیا کو سوچنا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس ایک واقعہ سے امریکہ میں جمہوریت کی جڑیں کمزور ہوںگی۔ میرا ماننا ہے کہ اس کے برعکس وہ مضبوط ہوںگی۔ اگر امریکہ کے تحریک آزادی کا پوری دنیا میں اثر پڑا تھا تو اس واقعہ کا پڑنا بھی لازمی ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان میں اس کا کیا ردعمل ہوگا، ابھی دیکھنا ہے۔ یہ وہی امریکہ ہے جو ایمرجنسی کے دوران(1975) ہمیں سبق دے رہا تھا۔ ہندوستان میں جیسے ہی اندراگاندھی ہاریں، انہوں نے اقتدار چھوڑ دیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی ایسا واقعہ ہوگا کہ اندرا الیکشن نتائج کو ماننے سے انکار کردیں۔ جیسا کہ کچھ برس قبل متحدہ پاکستان میں ہوا تھا کہ الیکشن میں مجیب الرحمن کو واضح اکثریت حاصل کرلینے کے بعد بھی یحییٰ خان- ذوالفقار علی بھٹو کی جوڑی نے اقتدار سونپنے سے انکار کردیا تھا۔ ہندوستان میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ لیکن ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکی صدر کی انتخابی مہم میں حصہ لے کر ٹرمپ کے لیے ووٹ مانگے تھے۔ کسی دوسرے ملک کے حکمراں کی دوسرے ملک کی سیاست میں اس طرح کی مداخلت قابل مذمت ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج ہندوستان کے سوا کروڑ لوگ شرمندگی کا احساس کررہے ہیں۔ حالاں کہ ہندوستانی وزیراعظم نے اپنے نام نہاد دوست کی حرکتوں پر ناراضگی اور رسمی غصہ درج کیا ہے۔rvr