سرینگر(صریر خالد،ایس این بی):وادیٔ کشمیر میں نئے سال کی شروعات عام ہڑتال سے ہوئی جو سرینگر میں گذشتہ دنوں ہوئے ایک ’’متنازعہ اینکاونٹر‘‘میں تین نوجوانوں کے مارے جانے کے خلاف کی جارہی ہے۔ہڑتال کی کال کسی گروپ یا تنظیم نے نہیں دی تھی تاہم اسکے باوجود بھی سرینگر سمیت مختلف شہروں اور قصبہ جات میں اسکا خاصا اثر دیکھا گیا۔
سرینگر میں حالانکہ عام ٹرانسپورٹ معمول کے مطابق چلتا رہا تاہم یہاں کے قلبی علاقہ لالچوک سمیت سبھی بڑے بازار پوری طرح بند تھے۔لالچوک میں سبھی دکانوں کے شٹر گرے ہوئے تھے اور ماحول سنسان دکھائی دے رہا تھا ۔کریانہ وغیرہ کی ہول سیل دکانوں کیلئے مشہور کوکربازار کوکربازار میں ہو کا عالم تھا تاہم ایک دکان کے سامنے جمع چند لوگ جمع تھے جنہوں نے بتایا کہ وہ لاوے پورہ ہوکر سر سرینگر کے واقعہ کو لیکر رضاکارانہ طور ہڑتال پر ہیں۔ادھیڑ عمر کے عبدالمجید نے کہا ’’ابھی امشی پورہ واقعہ بہت پُرانا نہیں ہوا تھا کہ لاوے پورہ میں مزید تین بچوں کو قتل کیا گیا۔آخر اس طرح کے واقعات پر کب تک چُپ رہا جا سکتا ہے‘‘۔
واضح رہے کہ سرینگر- بارہمولہ شاہراہ پر واقعہ لاوے پورہ میں فوج نے گذشتہ دنوں ایک ’’جھڑپ‘‘ کے دوران تین ’’جنگجوؤں‘‘ کو مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا تاہم جنوبی کشمیر کے ان تینوں لڑکوں کے گھر والوں نے فوج کے دعویٰ کو جھٹلاتے ہوئے جوابی دعویٰ میں اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے خواہشمند طالبانِ علم بتایا۔ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ تینوں لڑکے امتحان کے فارم بھرنے یا اس طرح کی کسی علمی ضرورت کے تحت سرینگر گئے ہوئے تھے اور اگلے دن اُنہیں پُراسرار طور ایک ’’اینکاونٹڑ‘‘کے دوران مار گرایا گیا۔یہ معاملہ متنازعہ ہوچکا ہے یہاں تک کہ سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے لیفٹننٹ گورنر (ایل جی) منوج سنہا سے بذرئعہ خط اور نیشنل کانفرنس کے ممبرِ پارلیمنٹ حسنین مسعودی نے بذرئعہ ٹیلی فون معاملہ کی تحقیقات کی درخواست کی ہے۔
متنازعہ واقعہ میں مارے جاچکے لڑکوں کے آبائی اضلاع پلوامہ اور شوپیاں میں بھی مکمل ہڑتال رہی۔ذرائع نے بتایا کہ دونوں اضلاع میں کاروباری سرگرمیاں پوری طرح اور عام ٹرانسپورٹ کی نقل و حمل جزوی طور متاثر رہی۔ان لڑکوں کے گھروں میں تعزت پُرسی کرنے کیلئے لوگوں کا آنا جانا جاری ہے اور لوگ واقعہ کی غیر جانبدار تحقیقات کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
قابلِ ذکر ہے کہ لاوے پورہ سرینگر کا واقعہ اس وقت پیش آیا ہے کہ جب جنوبی کشمیر کے ہی شوپیاں ضلع میں جولائی کے مہینے میں ہونے والے ایک اینکاونٹر کا فرضی ہونا ثابت ہوگیا ہے۔اس واقعہ سے متعلق عدالت میں پیش کردہ فردِ جُرم میں پولس نے کہا ہے کہ ایک فوجی افسر نے ذاتی مفاد کی خاطر دو مقامی مخبروں کی مدد سے تین معصوم مزدوروں کا اغوا کرنے کے بعد اُنہیں ختم کیا تھا اور اُنہیں جنگجو ظاہر کرنے کیلئے اُنکی نعشوں پر اسلحہ رکھا تھا۔راجوری ضلع کے ان تین مزدوروں کی نعشوں کو ’’غیر شناخت شدہ جنگجوؤں‘‘ کی نعشیں بتاکر شمالی کشمیر میں سرکاری فورسز کے اہتمام سے آباد ایک قبرستان میں دفن کیا گیا تھا تاہم بھانڈا پھوٹ جانے پر عدالتی حکم کے تحت ان قبروں کو دو ماہ بعد کھول کو نعشیں ورثاٗ کے سُپرد کر دی گئی تھیں۔
!وادیٔ کشمیر میں متنازعہ اینکاونٹر کے خلاف ہڑتال سے سناٹا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS