عارف محمد خاں
(مترجم:محمد صغیر حسین)
انیسویں صدی میں ہندوستانی نشأۃ ثانیہ کے رہنماؤں کو جس ہستیٔ محترم نے متحرک کیا وہ کوئی اور نہیں، دکفلیشور کے عظیم سنت شری رام کرشن پرم ہنس تھے۔ اُن کی سوانح حیات، انسانی وقار پر مبنی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ اور چھواچھوت کی بیخ کنی جیسی سماجی اصلاحات کے پروگراموں کے تئیں اُن کی گہری وابستگی کی غماز ہے۔ کیشب چندرسین، ایشورچندر ودّیا ساگر، دیویندر ناتھ ٹیگور وغیرہ جیسے مصلحین کی کہکشاں اُن کی روحانی ہدایت اور سکون قلبی کی تلاش میں اُن کی خدمت میں جوق در جوق حاضر ہوتی رہی ہے۔
یہ برہمو سماج تحریک کے بانی، آچاریہ کیشب چندر سین تھے جنہوں نے شری رام کرشن پرم ہنس کے بارے میں خوب لکھا اور انہیں کولکاتہ کے عوام سے متعارف کیا۔ سوامی وویکانند جو بعد میں اپنے گرو کے نظریات کے عظیم ترجمان اور شارح بنے، وہ بھی آچاریہ کیشب چندرسین کی تحریروں کے توسط سے ہی اپنے گرو سے متعارف ہوئے تھے۔
ان کے ہم عصروں کی روئدادوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شری رام کرشن ایک سادہ منش اور پرخلوص آدمی تھے جنہوں نے کوئی رسمی تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی لیکن انہیں سادہ اور سلیس الفاظ میں مشکل سے مشکل مذہبی مسئلوں کو واضح کردینے کا ملکہ حاصل تھا۔ وہ نہ صرف تمام مذاہب اور پیغمبروں کو تسلیم کرتے اور اُن کی تعلیمات میں یقین رکھتے تھے بلکہ اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں انہوں نے ایک باعمل عیسائی اور مسلم بن کر اِن عقائد کی سچائیوں کا بھی تجربہ کیا۔
شری رام کرشن پرم ہنس، عوامی فلاح و بہبود کے کاموںکے لیے خودکو وقف کردینے والے افراد سے ملنا اور اُن کی حوصلہ افزائی کرنا پسند کرتے تھے۔ ایشور چندر ودّیا ساگر جنہیں تعلیم نسواں اور سماجی اصلاحات کے علمبردار کی حیثیت سے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی، انہوں نے خاص طور پر شری رام کرشن کو متوجہ کیا۔ ایک بار سنت جی ودّیا ساگر سے ملاقات کی غرض سے اُن کے گھر تشریف لے گئے۔ دونوں کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ برجستہ اور فی البدیہہ تھی۔
شری رام کرشن پرم ہنس: میں آپ کے پاس یہاں اُسی طرح آیا ہوں جس طرح ایک چھوٹا سا گدلا چشمۂ آب گہرے ساگر سے جاملتا ہے۔
ایشور چندر ودّیا ساگر: لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ سمندری پانی نمک سے بھرا ہوتا ہے اور چشمے کا آبِ شیریں، سمندر میں مل جانے کے بعد اپنی تمام شیرینی کھو بیٹھتا ہے اور نمکین ہوجاتا ہے۔
شری رام کرشن پرم ہنس: یہ جہل کا سمندر(اَوِدّیا ساگر) نہیں ہے جس سے احتراز کرنا لازم ہے بلکہ یہ تو حکمت و دانائی کا سمندر(وِدّیاساگر) ہے جس کی جانب میں کشاں کشاں کھنچا چلا آیا ہوں۔
ایشور چندر ودیا ساگر: لیکن سمندر خطرات اور پریشانیوں سے بھرے ہوئے ہیں اورہزاروں عفریت خود کو اس کے ناقابل اعتبار پانی میں چھپائے رہتے ہیں۔
شری رام کرشن پرم ہنس: کیا سمندر کے گہرے پانی میں موتی نہیں ہوتے؟ اُن موتیوں کی تلاش میں، میں یہاں آیا ہوں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ سمندر میں خزینے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ آپ عظیم قدر اور اکرام کے قابل ہیں، ودیاساگر۔
اپنے بچپن سے ہی شری رام کرشن پرم ہنس نے ذات پات کی نسبی تفریق کو سختی سے مسترد کیا۔ اپنے جنیئو دھارن کی تقریب میں، انہوں نے اس وقت تک تخت پر بیٹھنے سے انکار کردیا جب تک کہ ایک لوہار ذات کی عورت، دھانی کو ایک باوقار جگہ پر نہیں بٹھایا گیا۔ بعدمیں، دکشنیشور میں کئی بار ایسا ہوا کہ وہ لوگوںکی نظروں سے غائب ہوگئے۔ تلاش کرنے پر یہ عقدہ کھلا کہ وہ جھاڑو اور بالٹی لیے ہوئے مندر کی اجابت گاہیں صاف کررہے تھے۔
رسِک لال، مندر میں جھاڑو لگاتا تھا اور صفائی ستھرائی کے دیگر کام کرتا تھا۔ وہ دیکھا کرتا تھا کہ لوگ سنت مہاراج کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آتے رہتے ہیں۔ اس کے دل میں تمنا جاگی کہ وہ بھی اُن کے پیر چھوکر گلہائے عقیدت نثار کرے لیکن سماجی رسم و رواج کی رو سے وہ کسی بھی پاک اور مقدس چیز کو چھو نہیں سکتا تھا۔ بس وہ جھاڑیوں کی آڑ سے شری رام کرشن جی کو نگاہِ احترام و عقیدت سے دیکھتا رہتا تھا۔ ایک دن، رسِک لال نے دیکھا کہ سنت مہاراج اُس کی جانب آرہے ہیں۔ اُس نے پیچھے کی جانب ہٹنا شروع کیا لیکن شری رام کرشن نے تیزی سے چل کر اُسے پکڑ لیا اور محبت سے اُس کو گلے لگالیا۔
شری رام کرشن پرم ہنس نے نہ صرف تمام مذہبی روایات کو تسلیم کیا اور اُن کا یقین کیا بلکہ دوسرے مذاہب کے پیرؤں کو یکساں محبت اور احترام سے نوازا۔ جب سماج کے رسم و رواج سے مجبور ہو کر انہوں نے اس کے برعکس کوئی عمل کیا تو انہیں اپنی کوتاہی کے اعتراف میں ذرّہ برابر بھی تذبذب نہیں ہوا اور انہوں نے فوری طور پر اُس کی تلافی کی۔
ایک بار سوامی نے، سڑک پر آئس کریم بیچنے والے کی آواز سنی۔ چوں کہ وہ آئس کریم کے شوقین تھے، اس لیے انہوں نے اس آئس کریم بیچنے والے کو بلوایا جو مسلمان نکلا۔ مروجہ سماجی تعصبات اور ذہنی تحفظات کی بنا پر سوامی جی نے کسی مسلمان سے اشیاء خوردونوش خریدنے سے احتراز کرتے ہوئے اُسے واپس لوٹا دیا۔ لیکن ’’ایشور تو ہر پران میں جلوہ گر ہے‘‘ کے زرّیں اصول نے اُن کے ضمیر کو بیدار کیا اور دفعتاً انہیں خیال آیا کہ وہ روحانی منازل سے گر گئے ہوں۔ انہوں نے فوراً ہی آئس کریم والے کو بلایا، اظہار تاسف کیا، آئس کریم خریدی اور اُس مسلم آئس کریم والے کی موجودگی میں اُسے کھایا۔
بلاشبہ، شری رام کرشن پرم ہنس کی زندگی نے لاتعداد لوگوں میں جذبۂ ایثار و قربانی کو پروان چڑھانے اور انہیں نوع انسانی کی خدمت کرنے پر آمادہ کرنے کا بیش بہا کارنامہ انجام دیا ہے اور یہ سلسلہ ابدالآباد تک جاری و ساری رہے گا۔
(مضمون نگار سردست ریاست کیرالہ کے عزت مآب گورنر ہیں)