ڈاکٹر سید ظفر محمود
فی الوقت ہم ملک کے سیاسی اُفق پر بے قرار ہیں پھر بھی ہمیںاس ایمانی مفروضہ پر یقین محکم رکھنا ہے کہ ’ہر تنگی کے ساتھ آسائش ہے‘۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سو برس مکمل ہو گئے، ہم نے ملک و دنیا میں خوب پرجوش محفلیں آراستہ کیں، مکالمے منعقد کیے، اخبارات میں مضامین پڑھے، بھلا ہو وائس چانسلر ڈاکٹر طارق منصور کا،اس موقع پر وزیراعظم و وزیر تعلیم بھی ہماری خوشیوں میں شامل ہوئے۔ ساتھ ہی یہ بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے خود انفرادی و اجتماعی طور پر سر سید احمد خاںؒ کا کتنا قرض اداکیا ہے؟ ہم نے کتنی ذاتی تگ و دو کی ہے ملت کی فلاح و بہبود کیلئے ؟ قرآن کریم میں اﷲنے بتایا ہے کہ انسانیت کی تخلیق اس لیے کی گئی ہے کہ پروردگار فیصلہ کرے کہ ہم میںسے کون زیادہ انہماک سے اس کی مخلوق کی زندگی بہتر بنانے کی جد و جہد میں لگا رہا۔ یہ کہ ہمارا پیدا کرنے والا خودہمیشہ کام میں مصروف رہتا ہے اور اس نے اپنی روح ہمارے اندر پھونکی ہے، لہٰذا ہمیں اس کے اوصاف میں سے اپنا حصہ لے لینے کی کاوش میں لگے رہنا چاہیے۔یہ کہ کائنات ابھی ناتمام ہے اور ہر جانب سے کن فیکون کا ورد ہمارے کانوں میں گونج رہا ہے۔لہٰذاکوئی بڑا کام کرنے کے لیے ہمارا سکندر ہونا ضروری نہیں، بلکہ ہمارے سینہ میں تمام سامان موجود ہے اور ہم اپنا آئینہ خود بنا سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے من میں ڈوب کر زندگی کا سراغ تلاش کرنا ہے۔ اگر ہم محفل میں شریک ہی نہیں ہوں گے تو قصور تو ہمارا ہی ہوا نا۔ ہماری جنت ہمارے سوز جگر میں پنہاں ہے۔ ہماری ہستی دانا و توانا ہے اور ہم اپنے چمنستان کی ہیئت ضرور بدل سکتے ہیں۔کچھ اہل وطن غلط فہمی میں ہیں کہ ہماری کشتی بھنور میں ہے ایسا ہرگز نہیں ہے، وہ موجیں تو در اصل ہمارے عزم کا طواف کررہی ہیں۔ اس ظلمت شب میںسے ہم اپنے درماندہ کارواں کو لے کے ضرورنکلیں گے۔اب صرف چشم کو نم کرنے اور جان کو شوریدہ کرنے سے کام نہیں چلے گا اور ملت سے ہمارا پوشیدہ عشق اب کافی نہیں ہے بلکہ اب تو ہمیں بازار میں پابجولاں چلنا ہو گا۔
سر سید احمد خاں ایسے زمانہ میں پیدا ہوئے تھے جب مملکت برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی مدد سے علاقائی سازش و سرکشی کے ذریعہ مغلوں کی وسعت و طاقت کو محدود کر دیا تھا۔موقع کی نزاکت کے لحاظ سے انھوں نے خود کمپنی کے کالج میں تعلیم حاصل کی اور عدل و قانون میں ڈگری حاصل کی۔ جدید سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے تعلیمی ادارے قائم کرنے کے ساتھ مسلم تاجروں اور کارو باریوں کو سر سید نے منظم بھی کیا۔انھوں نے اُس وقت مسلم سماج میں رائج جہالت،غیر عقلی اعتقاد اور ناکارہ رواجوں کی مخالفت کی۔ 1857کی بغاوت کے بعد انھوں نے دلیری سے ایک کتابچہ بہ عنوان ’ اسباب بغاوت ہند‘لکھا تھا ،جس میں انھوں نے انگریزوں کی پالیسی کی تنقید کی اور انھیں بغاوت کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا، انھوں نے کمپنی پر زور دیا کہ انتظامیہ میں مسلمانوں کو شامل کیا جائے۔حالانکہ ان کے دوستوں نے رائے دی کہ اس کتابچہ کے سب نسخے جلا دیے جائیں ورنہ سر سید کو ذاتی نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن سر سید نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو بھی مسلمانوں کو اس کا فائدہ پہنچے گا اور انھوں نے اﷲپاک کے علاوہ کسی اور سے خوف نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس کتابچہ کے 500 نسخے برطانوی حکومت و پارلیمنٹ کو بھیج دیے۔ وہاں اس کا انگریزی میں ترجمہ کروایا گیا اور اس پر بحث ہوئی اور پھر معمولی مخالفت کے بعدگورنر جنرل نے اس کتابچہ کو ایک مخلصانہ و دوستانہ رپورٹ کے طور پر تسلیم کر لیااور اس کی بنیاد پر برطانوی پالیسی میں تبدیلیاں بھی کی گئیں۔
سر سید نے انگلستان کی رائل سوسائٹی اور رائل ایشیاٹک سوسائٹی کی طرز پر علی گڑھ میں سائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔اس کے ذریعہ سالانہ کانفرنس کا انعقاد ہوتا تھا، تعلیمی اداروں کے لیے فنڈدیا جاتا تھا اور سائنس کے مضامین کا ایک جریدہ شائع کیا جاتا تھا۔انھوں نے ’تہذیب الاخلاق‘ کے عنوان سے رسالہ شائع کرنا شروع کیا،حضور اقد سؐ کی حیات طیبہ پر مضامین لکھے اوراسلامی اصولوں کا سائنس و ترقی یافتہ سیاسی خیالات سے موازنہ کیا۔ سر سید نے 1887 میں محمڈن سول سروسز فنڈ ایسوسی ایشن قائم کیا جس کے 500 رکن تھے اور ہر شخص سالانہ 2 روپے دیتا تھا جو رقم کافی ہوتی تھی 15 نوجوانوں کو ہر سال لندن بھیجنے کے لیے جہاں وہ سول سروس کے امتحان میں شریک ہوتے تھے۔ انھوں نے تجویز دی کہ مسلمان آپس میں گفت و شنید کرنے کے لیے اردو زبان کا استعمال کریں۔1840-41 میں شائع شدہ ان کی کتاب ’آثار الصنادید‘ میں سر سید نے دہلی میں مقیم قدیم یادگاری عمارتوں کی تفصیل بیان کی۔علی گڑھ میں محمڈن اینگلو اورینٹل اسکول قائم کرنے سے پہلے مرادآباد اور غازی پور میں بھی تعلیمی ادارے قائم کیے۔بعد ازاںعلی گڑھ کا ادارہ 1920 میں برطانوی پارلیمنٹ کے ایک خصوصی ایکٹ کے تحت مسلم یونیورسٹی بن گیا۔
ہم میں سے جس جس کے پاس انفرادی یا تنظیمی سطح پر زمین یا جائداد ضرورت سے زائد ہو انھیں اس کا کچھ حصہ کسی رجسٹرڈ ٹرسٹ کے نام منتقل کر کے وہاں تعلیمی ادارے قائم کردینے چاہئیں۔ملک میں جگہ جگہ مسلم تعلیمی کانفرنس کا انعقاد ہونا چاہیے،مسلم یونیورسٹی سے شائع ہونے والے رسالہ ’تہذیب الاخلاق کا انگریزی، ہندی،ملیالم، بنگالی، تیلگواور مراٹھی وغیرہ زبانوں میں ترجمہ شروع کرکے اس رسالہ کو ملک کے مختلف علاقوں کے طول و عرض میںتقسیم کیا جانا چاہیے۔ مسلم یونیورسٹی کے سول سروسز کے ادارہ کا ایک کیمپس دہلی میں بھی ہونا چاہیے کیونکہ سول سروسز کی کوچنگ کے لیے ملک کے کامیاب ترین کوچ صاحبان سب دہلی میں ہی ہیں۔دہلی کیمپس کے لیے ڈائریکٹر کی تعیناتی کے لیے سول سروسز میں کام کرنے والے کسی سینئر افسر کی خدمات کو ڈپیوٹیشن پر حاصل کیا جانا چاہیے۔
مشرقی اترپردیش کے ضلع بہرائچ میں شہر سے تقریباً 13 کلو میٹر دور ی پرتحصیل مہسی کے گائوں میگلا میں1954 سے مسلم یونیورسٹی کو جناب سنت رام چودھری سے تحفہ میں ملی ہوئی 40 ایکڑ زمین ابھی تک غیر مستعمل پڑی ہوئی ہے۔ بھلا ہو بہرائچ کی ہیومن ویلفیئر سوسائٹی کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر وجود خاں کا کہ انھوں نے تگ و دو کر کے ضروری کاغذی کارروائی کو کسی حد تک آگے بڑھایا۔انھوں نے مسلم یونیورسٹی کی انتظامیہ کی منظوری کے تحت آل انڈیا آیوش ٹیچرس ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر عبد اﷲخاں اور علامہ اقبال ایجوکیشنل سوسائٹی کے ممبر ڈاکٹر داور صدیقی کے ساتھ مل کے اس زمین پر مسلم یونیورسٹی کا سائن بورڈ لگا دیا، اس موقع پر گرام پردھان کامتا پرساد سونکر و دیگر اشخاص موجود تھے۔راقم الحروف نے یونیورسٹی انتظامیہ سے گفتگو کر کے وہاں کے لیے ایک مقامی کمیٹی تشکیل کروا دی ہے، جس میں یونیورسٹی کے رجسٹرار اس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ علیگ خواتین و حضرات و دیگر بہی خواہان ملت کا فریضہ ہے کہ اس کار خیر میں آگے بڑھ کے حصہ لیں۔بہرائچ شہر میں یونیورسٹی کے توسیعی دفتر کے لیے فوری طور پر زکوٰۃ فائونڈیشن آف انڈیاوہاں اپنی عمارت میں جگہ مہیا کر سکتا ہے۔بہتر ہو گا کہ بہرائچ میں اپنے تعلیمی ادارہ کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنا ایک اکائونٹ اسٹیٹ بینک آف انڈیا، بہرائچ کی مین برانچ میں کھول دے۔ کیا خوب تاکید کر گئے علامہ اقبال:
تری فطرت امیں ہے ممکناتِ زندگانی کی
جہاں کے جوہرِمضمر کا گویا امتحاں تو ہے
[email protected]