کسان تحریک اور اسلامی-خالصتانی دہشت گردی کا شگوفہ

0

محمد حنیف خان

قومی سلامتی ایک ایسا موضوع ہے جو ہر شخص کو جذباتی بنا دیتا ہے،کوئی بھی شخص نہیں چاہتا ہے کہ ملک میں بد امنی ہو یا کوئی باہری شخص ہمارے ملک کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی دیکھے۔قومی سلامتی ہر شخص کے لیے مقدم اور جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے الیکشن میں کامیابی سے لے کر حکومت پر آنے والی ہر افتاد کو اسی ہتھیار سے ٹالا جاتا ہے۔اس وقت ملک میں کسان ملک گیر تحریک چلارہے ہیں جن کا مقصد ہے کہ حکومت ان کی آواز سنے اور ان کے مفادات کا تحفظ وہ ترجیحی بنیاد پر کرے کیونکہ جن بلوں کے خلاف وہ تحریک چلا رہے ہیں، اس سے پورے ملک کا کسان پریشان ہے۔ پیداوار کی حمایت یافتہ قیمت سے لے کر دوسرے ایسے مسائل ہیں جنہوں نے کسانوں کی آنکھوں سے نیند اور خواب دونوں چھین لیے ہیں۔
جب سے یہ تحریک شروع ہوئی اور اس نے ملک گیر شکل اختیار کی، اس پر سوالات اٹھائے جانے لگے۔چونکہ یہ تحریک مذہبی بنیاد پر نہیں تھی، اس لیے اس کو وہ رنگ نہیں دیا جاسکا جو سی اے اے اور این پی آر کے خلاف ہونے والی تحریکوں کو دیا گیا تھا۔البتہ غیر حکومتی سطح پر اس تحریک کو خالصتانی تحریک سے ضرور جوڑا جانے لگا تھا،جس سے یہ اندازہ ہونے لگا تھا کہ اس تحریک کوبھی قومی سلامتی سے جوڑ کر کسانوں کو بدنام کرنے اور ان کو ملک مخالف یا غدار یا سازباز کرکے عوام کی زندگی کو خطروں سے دو چار کرنے والا باور کرا دیا جائے گا۔کیونکہ بی جے پی اقتدار میں حکومت کے خلاف جب بھی کوئی تحریک شروع ہوئی خواہ وہ ملک کے کسی کونے یا کسی بھی طبقے کی طرف سے رہی ہو، اس کو قومی سلامتی سے جوڑ دیا گیا۔مسلموں کی تحریک کو تو دہشت گردی کا مرکز ثابت ہی کیا گیا، طلبا کی تحریکیں بھی ٹکڑے ٹکڑے گینگ میں بدل دی گئیں، قبائلیوں کی زمینیں اور ان کی زندگیوں کو بچانے کے لیے جب دانشوروں نے حکومت کے خلاف آواز اٹھائی تو وہ اربن نکسلی بنا دیے گئے یعنی جس نے بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھائی،انسانیت اور آئین کی بات کی اس کو قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والا ایک نام دے کر غدار ثابت کردیا گیا۔اس طرح حق کی آواز اٹھانے والے ہر فرد/طبقے کو سماج میں اچھوت بنانے کی کوششیں کی گئیں۔ایسے میں ایسی تحریک جو حکومت کے ان بلوں کے خلاف ہے جنہیں پارلیمنٹ میں منظور کیا گیا ہے، کیسے قبول کیا جا سکتا تھا۔چونکہ اس تحریک کی شروعات پنجاب اور ہر یانہ سے ہوئی،یہ دونوں ریاستیں ملک میں زرعی معاملات میں سب سے آگے رہی ہیں،جس کی وجہ سے یہاں کے عوام اس سے سب سے زیادہ متاثر بھی ہورہے تھے،اسی وجہ سے تحریک میں سکھ پیش پیش ہیں۔سکھ کسانوں کی بد قسمتی یہ رہی کہ ان کے ہی طبقے سے آزادی کے وقت الگ خالصتان کی آواز اٹھی جس نے 1980 میں تشددکی شکل اختیارکرلی جو 1984میں اندرا گاندھی کے آپریشن بلیو اسٹار پر منیج ہوا، مگر چونکہ کسان تحریک کا آغاز پنجاب کے سکھ کسانوں نے کیا تھا، اس لیے اس کی شروعات کے ساتھ ہی خالصتانی تحریک سے اس کو جوڑا جانے لگا تھا اور سوالات کیے جانے لگے تھے کہ آخر اس کے اخراجات کہاں سے آ رہے ہیں، اس تحریک کی فنڈنگ کون کر رہا ہے۔سوشل میڈیا پر دھیرے دھیرے حکومت کے ایسے حامیوں کا جو اس کے ہر کام پر آنکھ بند کر کے بہتر ہونے کا یقین رکھتے ہیں ایک ایسا گروپ تیار کردیا جو اس تحریک کو خالصتانی تحریک سے جوڑنے لگے۔مگر ان کو پوری طرح سے کامیابی نہیں مل رہی تھی،جس کی سب سے بڑی وجہ ان کسانوں اور تحریک کا مذہبی بنیادوں پر استوار نہ ہونا تھا۔
 حکومت کسانوں کی تحریک کو اپنی سطح سے کوئی رنگ نہیں دے رہی تھی کیونکہ اس کو اس بات کا خطرہ تھا کہ اس سے اس کا نقصان ہوگا،وہ دھیرے دھیرے اس تحریک کا زور کم کرنا چاہ رہی تھی مگر مسئلہ کسانوں کی زندگی اور ان کی خون پسینے کی محنت سے تیار فصل کا تھا اس لیے وہ میدان میں ڈٹے رہے،جب حکومت کو کوئی راستہ نہیں ملا تو با لآخر اس کو اپنا آزمودہ ہتھیار استعمال کرنا پڑالیکن اس میں بھی حکومت نے بہت چالاکی کا ثبوت پیش کیا۔براہ راست حکومت نے اس تحریک کو خالصتانی تحریک کا نام نہیں دیا ہے بلکہ اس نے اس کے لیے بہت دور کا راستہ اختیار کیا ہے،جس کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ لوگوں کا ذہن اس جانب مبذول ہو اور اس تحریک کو وہ شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگیں۔حکومت براہ راست اس تحریک پر اس طرح کا کوئی الزام عائد نہیں کرسکتی تھی کیونکہ اس میں پورے ملک کا کسان شامل ہے۔ وہ ہر ایک کو خالصتانی تو نہیں قرار دے سکتی ہے۔اس لیے خالصتانی نظریہ کے ساتھ مبینہ /مزعومہ اسلامی دہشت گردی کو جوڑ کر ’’اسلامی خالصتانی دہشت گردی‘‘ کے ایک ایسے گٹھ جوڑ کا پردہ فاش کرنے کا دعویٰ کیا گیا جو بالکل الگ تناظر رکھتا ہے۔دہلی حکومت کی پولیس مرکزی حکومت کے ماتحت کام کرتی ہے جس نے دہلی میں ایک انکاؤنٹر کے بعد پانچ افراد کی گرفتاری کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ یہ سب پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے لیے کام کرتے تھے، منشیات کے کاروبار سے حاصل ہونے والی رقم کا وہ استعمال دہشت گردی میں کرتے تھے،ان گرفتار شدگان میںتین مسلم ہیں جن کا تعلق کشمیر سے ہے جبکہ دو سکھ ہیں جن کا تعلق پنجاب سے ہے۔اس گرفتاری اور اسپیشل سیل کے دعوے کو حکومت کے ہتھکنڈے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ وہ بہت دور سے کسانوں کی تحریک کو گھیر رہی ہے۔ اسلامی-خالصتانی دہشت گردی کی اصطلاح اس وقت میڈیا میں بہت عام ہوگئی ہے،جس سے ایک ساتھ کئی مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔اول یہ باور کرایا جا سکتاہے کہ پاکستان اب سکھوں کے ساتھ مل کر ہندوستان کے خلاف کام کر رہا ہے،چونکہ اس تحریک کی بنیاد پنجاب کے سکھوں نے رکھی ہے، اس لیے اس تحریک کے پس پشت اسلامی -خالصتانی نظریہ کام کر رہا ہے جو در اصل پاکستان کا نظریہ ہے جو ملک کے خلاف ہے۔اس طرح اس تحریک پر عوام کو شبہ ہونے لگے گا کہ یہ بھی ملک مخالف ہے جسے سکھ اور مسلمان مل کر چلا رہے ہیں تاکہ ان کے اپنے مذہبی مقاصد پورے ہوسکیں،مسلموں کو اس لیے جوڑا گیا ہے تاکہ نشانہ درست بیٹھے کیونکہ ان سے متعلق لوگوں کے ذہن پہلے سے ہی پراگندہ ہیں، اس طرح آسانی کے ساتھ لوگ ان کی باتوں کو تسلیم کرلیں گے لیکن جس طرح سے گزشتہ منگل کو پورے ملک میں کسانوں نے ذات،برادری،مذہب اور زبان و علاقہ سے اوپر اٹھ کر حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا ہے، اس نے حکومت اور اس کے غیر سرکاری کارندوں کے ہوش ٹھکانے لگادیے ہیں۔ان کو اس بات کا اندازہ ہوگیا ہے کہ ٹکڑے ٹکڑے گینگ اور اربن نکسل کی طرح اسلامی-خالصتانی دہشت گردی جیسی اصطلاحات کا استعمال کرکے کسانوں کو نہ تو ملک مخالف قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کی آواز کو دبایا جا سکتا ہے۔
 حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ قومی سلامتی کو داخلی سلامتی کے ساتھ یقینی بنائے۔ لیکن اس کے لیے وہ ایسی اصطلاحات کا استعمال نہ کرے جس سے نیا تناظر دکھائی دیتا ہو،اس طرح کی اصطلاحات کی ایجاد اور ان کے استعمال سے قومی سلامتی کو خطرہ ہی لاحق ہوگا،اس طرح کی اصطلاحات ملک دشمنوں کو نیا آئیڈیا دیتی ہیں جن سے احتراز کی ضرورت ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کے خلاف منظور بل کو واپس لے اور خود کوایسے ایجنڈوں سے روکے جس سے ’’ انّ داتا‘‘کی زندگی ان پر بوجھ بن رہی ہو۔ اس لیے حکومت کو کسی کو بدنام کرنے کے بجائے اصل مسائل کے حل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، اسی میں ملک و قوم کے مفادات ہیں۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS