اپنے مطالبات منوانے کے لیے کسان ڈٹے ہوئے ہیں۔ مظاہرہ کرنے والے کسانوں کی تعداد میں اضافہ کا امکان بڑھتا جارہا ہے۔ کسانوں کی مہم اگر وسعت اختیار کرتی چلی گئی تو پھر حالات کو قابو میں کرنا آسان نہیں ہوگا۔ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ کسانوں کو وہ منالے۔ انہیں یہ سمجھانے میں کامیاب ہوجائے کہ زرعی اصلاحات کے قوانین کسان مخالف نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں کل وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ ’ان قوانین میں کسانوں کے لیے نئے امکانات کے دروازے کھلے ہیں۔۔۔۔ ان قوانین سے نہ صرف کسانوں کے بہت سے بندھن ختم ہوتے ہیں بلکہ قوانین نے انہیں حقوق اور مواقع فراہم کیے ہیں۔‘ لیکن شبہات میں گھرے کسانوں نے ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم مودی کی باتوں پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ حکومت کے کسانوں کو منانے میںناکامی کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ شرومنی اکالی دل جیسی پارٹیاں کسانوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔ کسانوں کے مفاد کے ایشو پر ہرسمرت کور بادل نے کابینہ سے علیحدگی اختیار کی۔ یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا کہ ایک طرف وزیراعظم اور بی جے پی کے لیڈران کسانوں کوسمجھانے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری طرف شرومنی اکالی دل جیسی بی جے پی کی اتحادی پارٹی اور دیگر پارٹیوں کے لیڈروں نے بھی کسانوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ زرعی اصلاحات کے قوانین سے ان کی زندگی میں کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی۔
لگتا یہی ہے کہ کسانوں کو منانے میں جلد کامیابی حاصل نہ کی گئی تو پھر پنجاب، ہریانہ اور مغربی اترپردیش کے کسانوں کی طرح دیگر ریاستوں اور علاقوں کے کسان بھی مظاہرے کے لیے سڑکوں پر اترجائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے اثرات کئی علاقوں کے سیاسی حالات پر پڑیں گے۔ کسانوں کا ہمدرد ثابت کرنے اور ان کے مفاد کی باتیں کرنے والے لیڈروں کو یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑے گا کہ کسانوں کی ناراضگی کا مطلب سیاست میں ان کے مستقبل کے لیے کیا ہوگا۔ اس صورت حال میں اگر لیڈران ہرسمرت کور بادل جیسا موقف اختیار کرنے لگیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے مگر فی الوقت حالات حکومت کے کنٹرول سے باہر نہیں ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی اس بات کے لیے مسلسل کوشاں ہیں کہ کسانوں کو وہ یہ سمجھائیں کہ زرعی اصلاحات کے قوانین ان کے خلاف نہیں ہیں۔ وارانسی سے پریاگ راج کو جوڑنے والی 6لین کی قومی شاہراہ 19کا افتتاح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’نئے زرعی اصلاحات سے کسانوں کو نئے متبادل اور نئے قانونی تحفظ دیے گئے ہیں۔ پہلے منڈی کے باہر ہوئے لین دین ہی غیرقانونی تھے، اب چھوٹا کسان بھی منڈی سے باہر ہوئے ہر سودے پر قانونی کارروائی کرسکتا ہے۔ کسانوں کو اب نئے متبادل بھی ملے ہیں اور دھوکے سے قانونی تحفظ بھی ملا ہے۔‘ وزیراعظم نے کہا کہ ’ہم نے وعدہ کیا تھا کہ سوامی ناتھ کمیشن کی سفارش کے مطابق لاگت کا ڈیڑھ گنا ایم ایس پی دیں گے۔ یہ وعدہ صرف کاغذوں پر ہی پورا نہیں کیا گیا بلکہ کسانوں کے بینک کھاتے تک پہنچ گیا ہے۔‘ وزیراعظم مودی کے مطابق، ’2014 سے پہلے کے 5برسوں میں تقریباً ساڑھے 600کروڑ روپے کی ہی دال کسانوں سے خریدی گئی لیکن اس کے بعد کے 5سالوں میں ہم نے 49ہزار کروڑ روپے کی دالیں خریدی ہیں یعنی تقریباً 75گنا اضافہ کیا ہے۔‘ ایسی صورت میں یہ سوال فطری طور پر اٹھتا ہے کہ حکومت کی اس کارکردگی کے باوجود کسان سڑکوں پر کیوں ہیں؟ یہ جاننا بہت ضروری ہے، کیوں کہ ہندوستان میں زراعت کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔ ہندوستان میں تقریباً 44فیصد لیبر فورس (Labour Force) زراعت سے وابستہ ہے۔ ایسی صورت میں کسانوں کے ہر شبہ کو دور کرنا ضروری ہے۔ شبہات دور کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ حکومت کسانوں کو مذاکرات کے لیے تیار کرے۔ ان سے باتیں کرے۔ انہیں سمجھائے۔ ان کے شبہات دور کرے۔ یہ بتائے کہ آزادی کے بعد سے ہر حکومت نے کسانوں کے مفاد کا خیال کیا ہے اور یہ حکومت بھی کسانوں کے مفاد کو نظرانداز نہیں کرے گی۔ ویسے وزیراعظم کی شخصیت پرکشش ہے۔ ان کی ایک اچھی امیج ہے، یہ امیج ایماندار لیڈر کی ہے، ملک کے لیے کرنے والے لیڈر کی ہے، اس لیے امید یہی رکھنی چاہیے کہ کسان مان جائیں گے۔ اپنے آندولن جلد ہی ختم کردیں گے۔
[email protected]
کسانوں پر پی ایم کے بیانات
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS