ملک کا کسان ایک بار پھر سڑکوں پر ہے۔ کچھ نئے زرعی قوانین سے متعلق واجب سوالوں کی وجہ سے اور کچھ بے جا سیاسی الزامات کے سبب۔ کھیت کھلیان چھوڑ کر سڑک پر اترے کسان خاص طور پر پنجاب، ہریانہ اور اترپردیش کے ہیں، جو راشن-پانی، پٹرول-ڈیژل کے ڈرم اور آٹا-چکی تک لے کر دہلی پہنچ گئے ہیں۔ اشارہ اس بات کی جانب ہے کہ لڑائی لمبی بھی کھنچ جائے تو مورچے سے پیچھے نہ ہٹنا پڑے۔ کسانوں کو روکنے کے لیے پولیس واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کررہی ہے تو بدلے میں کسان لاٹھی ڈنڈوں سے پولیس کو دھمکا رہے ہیں۔ کسان جگہ جگہ دھرنے پر بیٹھ گئے ہیں اور کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس سے عام زندگی متاثر ہورہی ہے۔ لیکن یہ حالت غیرمعمولی نہیں ہے، کیوں کہ ہر دھرنے میں ایسے ہی حالات بنتے ہیں۔ اسی طرح ایسے سنجیدہ مظاہروں کو ہائی جیک کرنے کی سیاست بھی برقرار نظر آرہی ہے۔ کسانوں کو کئی سیاسی پارٹیوں کی حمایت مل رہی ہے، لیکن یہ پارٹیاں اپنے بیانات سے مسئلہ کو سلجھانے کے بجائے اور الجھاتی جارہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ پنجاب میں تقریباً ایک سال بعد الیکشن ہیں اور کوئی سیاسی پارٹی کسانوں کے مخالف خیمے میں نظر نہیں آنا چاہتی۔
اپوزیشن کہہ رہا ہے کہ نئے قانون آنے کے بعد کسانوں کے پاس دہلی کوچ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا تھا، جب کہ حکومت کی دلیل ہے کہ نئے قانون کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کی اس کی امیدوں سے پُر ہدف کی جانب بڑھایا گیا مضبوط قدم ہے اور اس پر کسانوں کو ڈھال بناکر اپوزیشن صرف سیاسی روٹی سینک رہا ہے۔ اپوزیشن پر حکومت کے حملہ کو سیاسی روایت بھی سمجھ لیا جائے تو بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے ملک کے زرعی سیکٹر میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت کو سال 2014میں اپنی پہلی مدت کار میں ہی بھانپ لیا تھا۔ زرعی شعبہ کی بہتری کے لیے حکومت کی کوششوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ تینوں قوانین اسی سلسلہ کی کڑی نظر آتے ہیں۔ بالخصوص زرعی پیداوار تجارت اور کمرشیل (فروغ اور آسانیاں) (Agricultural Produce Trade and Commerce (Promotion and Simplification))قانون، جو کسانوں کو بچولیوں کے چکروں سے نکال کر اپنی مرضی سے فصل فروخت کرنے کی آزادی دیتا ہے۔ واقعی یہ حقیقت حیران کن ہے کہ ملک کو آزاد ہوئے 70سال سے زیادہ کا وقت گزر گیا، لیکن ہمارا کسان آج بھی منڈیوں کا غلام بنا ہوا ہے۔ گلوبلائزیشن کے عمل کو شروع ہوئے تین دہائی سے زیادہ وقت گزر چکا ہے، لیکن ملک کا کسان ابھی تک ایسا اکلوتا مینوفیکچرر بنا ہوا ہے، جسے اپنی فصل کو صرف مقامی منڈیوں میں فروخت کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا رہا ہے۔ نئے قانون سے کسان اب اپنی فصل کو ملک میں کہیں بھی، اور سب سے اہم اپنی مرضی سے کسی کو بھی فروخت کرسکیں گے۔ اسی طرح باقی دونوں قوانین میں بھی ایک کسانوں کو کاروباریوں، ایکسپورٹروں اور کمپنیوں سے راست جوڑے گا اور دوسرا ذخیرہ اندوزی اور پروسیسنگ کی صلاحیت میں اضافہ کرے گا، جس سے کسانوں کا مستقبل خوشگوار ہونے کی امید پیدا ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے تو تینوں ہی قوانین کسانوں کی آمدنی بڑھانے کی سمت میں اٹھائے گئے انقلابی قدم نظر آتے ہیں۔
سب سے خاص بات حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ ان قوانین کے تحت بھی منیمم سپورٹ پرائس(ایم ایس پی) سسٹم جاری رہے گا۔ حکومت ہر سال 23فصلوں پر ایم ایس پی کا اعلان کرتی ہے۔ کسان اس مورچے پر اپنے خدشات سے مکمل طور پر آزاد ہوجانے کے لیے ایم ایس پی کو بھی قانون کے تحت لانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ کسانوں کو غلط بھی نہیں کہا جاسکتا، کیوں کہ حکومت بھی یہ جانتی ہوگی کہ اس کا کوئی بھی بیان قانون میں ایم ایس پی کی گارنٹی کی برابری کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ حکومت اور کسانوں کے مابین جب بھی راست بات چیت کے حالات بنیں گے، تب ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔ ویسے حکومت نے ربی کی بوائی سے پہلے حال ہی میں چھ فصلوں کا ایم ایس پی اعلان کرکے کسانوں کا اعتمادقائم رکھنے والا کام کیا ہے۔ ان میں گیہوں کا ایم ایس پی لاگت کی قیمت سے 106فیصد زیادہ رکھا گیا ہے، جب کہ چنا، مسور، جو اور سرسوں کے لیے بھی 50 سے 93فیصد زیادہ ایم ایس پی اعلان کیا گیا ہے۔
ویسے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ یوپی اے حکومت کے مقابلہ این ڈی اے کے موجودہ دور میں سوامی ناتھن کمیشن کی رپورٹ پر زیادہ کام ہوا ہے۔ گزشتہ 6سال میں ملک کے کسانوں کو ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ایم ایس پی دیا گیا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ اسی طرح کسانوں کو قرض دینے کے معاملہ میں بھی مودی حکومت نے خزانہ کھولنے میں کنجوسی نہیں دکھائی ہے۔ یوپی اے نے جہاں کسانوں کو 20لاکھ کروڑ کا قرض دیا، وہیں موجودہ حکومت 35لاکھ کروڑ سے زیادہ کا قرض دے چکی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ کسانوں کو بہتر زندگی کی گارنٹی دینا اس کا مشن ہے اورملک میں ایم ایس پی بھی رہے گا اور کسانوں کو کہیں بھی فصل فروخت کرنے کی آزادی ملنے والا وزیراعظم مودی کا بیان اسی منشا کے تاثرکا اظہار کرتا ہے۔
نئے قوانین سے کسانوں کو نہیں، بلکہ کارپوریٹ کو فائدہ پہچانے کی بات بھی نظریہ کے فرق والا معاملہ لگتا ہے۔ اپوزیشن الزام لگارہا ہے کہ حکومت نے ملک کے فصل چکر کو کارپوریٹ کے پاس گروی رکھ دیا ہے اور اب کھیت میں کیا اُگانا ہے، اس کا حق کسان کے پاس نہیں بلکہ کارپوریٹ کے پاس چلا گیا ہے۔ اس سے مستقبل کی پیداوار ملک کی ضرورت کے بجائے کارپوریٹ کے فائدے سے طے ہوگی۔ دوسری جانب حکومت کی دلیل ہے کہ کسانوں کے مفاد کہیں سے متاثر نہیں ہوں گے اور نئی تبدیلی ’فارم ٹو فورک‘ سسٹم کو بڑھاوا دے گی۔ گاؤوں میں پرائیویٹ سرمایہ کاری ہوگی تو بازار میں مقابلہ آرائی میں اضافہ ہوگا جس سے کسانوں کو راست فائدہ ملے گا۔ ساتھ ہی جب سپلائی چین چھوٹی ہوگی تو کسانوں کے ساتھ ہی عام صارف کو بھی مہنگائی سے راحت ملے گی۔
سب سے زیادہ راحت چھوٹے کسانوں کو ملے گی، جنہیں اب تک چھوٹی جوت ہونے کی وجہ سے بڑے سرمایہ کار نہیں ملتے اور پیداوار اتنی کم ہوتی ہے کہ اسے منڈیوں تک لے جانا فائدہ کا سودا نہیں ہوتا۔ بچولیے اسی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر دہائیوں سے چھوٹے کسانوں کا استحصال کرتے آئے ہیں۔ گاؤں تک سرمایہ کاری پہنچنے سے ایسے کسانوں کے لیے پیداوار سے ایکسپورٹ تک کے راستے آسان ہوسکیں گے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ ملک کے کل کسانوں میں سے 86فیصد اسی چھوٹی اور معمولی فہرست میں ہی آتے ہیں۔ صرف انہیں اعدادوشمار کو دیکھ لیں تو یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ نئے قانون کو لے کر ہورہی گھماسان کتنی بے معنی ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
سڑک پر کسان، سیاست کی گھماسان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS