کسان آندولن

0

 کسی بھی دیش کے لیے کسانوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، کیوں کہ آدمی چاہے جتنا بھی امیر ہو وہ کچھ کھائے پئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ لوگوں کے لیے مختلف طرح کی اشیائے خوردنی، سبزیاں اور کھانے کی دیگر چیزیں پیدا کرنے کا کام کسان ہی کرتے ہیں، اس لیے کوئی ملک ترقی یافتہ ہو یا پسماندہ، اس کی حکومت کسانوں کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتی۔ کسانو ںکی اہمیت کے مدنظر ہی لال بہادر شاستری نے ’جے جوان،جے کسان‘کا نعرہ دیا تھا۔ اٹل بہاری واجپئی کے وزیراعظم بننے تک حالات کافی تبدیل ہوگئے تھے، سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت بڑھ گئی تھی، اس لیے واجپئی نے شاستری کے نعرے میں ’جے وگیان‘ کا اضافہ کرتے ہوئے ’جے جوان، جے کسان، جے وگیان‘ نعرہ دیا۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ انہوں نے کسان کو نعرے سے ہٹایا نہیں، کیوں کہ یہ بات ان کی فہم سے بالاتر نہیں تھی کہ کسان کی اہمیت کم کردی گئی تو اس دیش کے لیے کئی مسئلے پیدا ہوجائیں گے۔ آج بھی ملک کی 44فیصد آبادی کھیتی کسانی سے وابستہ ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ زراعت کا جی ڈی پی میں تعاون 15.4 فیصد ہی ہے۔ اسے زیادہ ہونا چاہیے تھا مگر اس کے کم ہونے کی ذمہ داری صرف کسانوں پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ اس کے لیے وہ حکومتیں بھی ذمہ دار ہیں جنہوں نے زراعت میں نئی ٹیکنالوجی متعارف کرانے پر کبھی زیادہ توجہ دی ہی نہیں۔ حفاظت سے رکھنے کی سہولتوں کے فقدان میں ملک کا کافی اناج برباد ہوجاتا ہے۔ کسان جسے کئی لوگ ’ان داتا‘ بھی کہتے ہیں، ان کی حالت کیا ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کئی کسانوں کو حالات سے تنگ آکر خودکشی کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے مطابق 2015میں مہاراشٹر میں 3,030، تلنگانہ میں 1,358، کرناٹک میں 1,197، مدھیہ پردیش میں 581، آندھراپردیش میں 516، چھتیس گڑھ میں 854کسانوں نے خودکشی کی تھی۔ پنجاب اور دیگر علاقوں میں بھی خودکشی کرنے والے کسانوں کی خاصی تعداد تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر سب کچھ صحیح ہوتا تو پھر بڑی تعداد میں کسان خودکشی کیوں کرتے؟ پچھلی تین دہائیوں میں کسانوں کو انتہائی قدم اٹھانے سے روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں، یہ بھی ایک سوال ہے۔ اس صورت حال میں مودی حکومت اگر یہ کہتی ہے کہ اس کے نئے اقدامات کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہی ہیں اور کسان یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں تو حکومت کو ان سے بات کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے، انہیں سمجھانا چاہیے کہ حکومت کی اصل منشا کیا ہے، کیو ںکہ کئی بار غلط فہمی بھی بڑے آندولن کی وجہ بن جاتی ہے۔ لیکن موجودہ کسان آندولن مختلف اس لیے ہے کہ کھیتی کسانی اور اشیا کی خرید و فروخت کے حوالے سے نئے قانون پر این ڈی اے کی اتحادی پارٹی شرومنی اکالی دل بھی اس کے ساتھ نہیں ہے۔ اس پارٹی کی لیڈر ہرسمرت کور بادل کا کہنا ہے کہ وہ کسانوں کی بیٹی اوربہن کی حیثیت سے ان کے ساتھ کھڑی ہیں اور کسان مخالف آرڈیننس اور قانون سازی کے خلاف یونین کابینہ سے استعفیٰ دینے پر انہیں فخر ہے۔ دوسری طرف آرڈیننس کے بارے میں وزیراعظم نریند رمودی کا کہنا ہے کہ ’یہ آزادی کے بعد کسانوں کو کسانی میں ایک نئی آزادی‘ دینے والے آرڈیننس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی پارٹیاں آرڈیننس کے حوالے سے غلط تشہیر کررہی ہیں۔ وزیراعظم نے یہ بات بھی واضح کی ہے کہ کسانوں کو ایم ایس پی نہ ملنے کی بات بھی غلط ہے۔ ان کے مطابق، ’بچولیے جو کسانوں کی کمائی کا ایک بڑا حصہ کھاجاتے ہیں، ان سے بچانے کے لیے یہ آڈریننس لانا ضروری تھا۔‘ وزیراعظم نریندر مودی کی یقین دہانی کے باوجود کسان اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ پنجاب اور ہریانہ کے کسان دلی میں احتجاج کرنا چاہتے ہیں۔ پولیس نے بجاطور پر ان سے امن قائم رکھنے کی اپیل کی ہے اور اس اپیل پر کسانوں کو خصوصی توجہ دینی چاہیے، کیوں کہ بدامنی آندولن کو کمزور کردیتی ہے۔ ’سی اے اے، این آر سی کے خلاف مظاہرے ہورہے تھے تو کئی مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کی گئی تھی، یہ کہنا مشکل ہے کہ اس طرح کی سخت کارروائی کسانوں کے خلاف کی جائے گی کہ نہیں، کیوں کہ ایک جمہوری ملک میں سب کے مساوی حقوق ہیں اور سب سے یکساں سلوک کیا جانا چاہیے۔ ویسے جمہوریت کی جڑیں احتجاج و مظاہرے سے کمزور نہیں، مضبوط ہوتی ہیں۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، اسی لیے کسان احتجاج اور مظاہرے کے لیے آزاد ہیں، ورنہ یہ آزادی انہیںنصیب نہیں ہوتی مگر ہر آزادی کا ایک دائرہ ہے، احتجاج کرنے والے کسانوں کو یہ سمجھنا ہوگا، تبھی ان کا احتجاج پرامن رہے گا۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS