کسانوں کے وہ سات خدشات

0

یوگیندر یادو

اگلے ہفتہ ملک کسانوں کا ایک تاریخی اجتماع نظر آئے گا۔ یوم آئین 26نومبر کو ملک کے کسانوں نے ’دلّی چلو‘ کا عہد لیا ہے۔ ٹرین اور بسیں نہ چلنے سے دوردراز کے کسان دہلی نہیں آسکیں گے۔ لیکن ہریانہ، اترپردیش، اتراکھنڈ، راجستھان اور بالخصوص پنجاب سے بڑی تعداد میں کسان دہلی کوچ کرنے کی تیار کرچکے ہیں۔ دو ماہ سے ریاست میں تاریخی تحریک چلا رہے پنجاب کے کسانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب باہر نکلنے کا وقت ہے۔ اب وہ ’سنیکت کسان مورچہ‘ لگاکر دلّی دربار بند کرنے کے لیے ٹریکٹر ٹرالی لے کر نکلیں گے۔
کسان تحریک کا راستہ تبھی اختیار کرتے ہیں جب پانی ناک کے اوپر چلا جاتا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے کسان پریشان ہیں۔ وہ گزشتہ حکومتوں کے زمانہ میں بھی پریشان تھے، کیوں کہ ملک کی کوئی بھی حکومت کسان دوست نہیں رہی ہے۔ لیکن مودی راج میں تو حد پار ہوگئی۔ وعدے ہوتے رہے، جھوٹے دعوے کیے جاتے رہے۔ 2014کے الیکشن سے پہلے سوامی ناتھن کمیشن کے فارمولے سے فصل کی ڈیڑھ گنا قیمت دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن حکومت نے چالاکی سے فارمولہ ہی بدل دیا۔وعدہ کیا تھا 6سال میں کسان کی آمدنی دوگنی کرنے کا، لیکن اب تک حساب ہی کبھی نہیں دیا۔ باتیں کسان کو آزاد کرنے کی ہوتی رہیں، لیکن کسان کو ملی ایک کے بعد ایک بندی۔ پہلے نوٹ بندی، پھر لاک ڈاؤن سے ملک گیر بندی اور اب کسانوں کی گھیرابندی۔
کسانوں کو تاریخی سوغات کے نام پر جو قانون حکومت لائی ہے، ان میں کسان کو آنے والی نسلوں کی گھیرابندی نظر آتی ہے۔ ان کا مستقبل سات سمتوں سے بند کیا جارہا ہے۔ کسان کا پہلا بڑا ڈر ہے منڈی بند ہونے کا۔ پارلیمنٹ نے قانون پاس کردیا ہے کہ منڈی سسٹم کے بائی پاس کے طور پر پرائیویٹ منڈی بنائی جائے گی۔ کسانوں کو ڈر ہے کہ دوتین برس میں سرکاری منڈی بیٹھ جائے گی۔ جسے حکومت کسان کی آزادی بتاتی ہے، کسان کو اس میں بربادی نظر آتی ہے۔ منڈی بیٹھ گئی تو کسان کے سر پر جو ٹوٹا پھوٹا چھپر ہے، وہ بھی ہٹ جائے گا۔ حکومت کہتی ہے، کسان کو نیلا آسمان نظر آئے گا، چاند-تارے نظر آئیں گے۔ کسان کہتے ہیں کہ انہیں ایسی آزادی نہیں چاہیے۔
دوسرا ڈر ہے ایم ایس پی یعنی منیمم سپورٹ پرائس بند ہونے کا۔ کسان جانتا ہے کہ سرکاری منڈی نہیں ہوگی تو سرکاری قیمت پر فصل خریدنی آہستہ آہستہ بند ہوجائے گی۔ حکومت کہتی ہے کہ ایم ایس پی بند نہیں ہوگی۔ لیکن کسان سمجھدار ہیں وہ جانتے ہیں کہ حکومت اعلان کرکے ایم ایس پی بند نہیں کرے گی۔ کاغذ میں اعلان ہوتے رہیں گے، بس خرید نہیں ہوگی۔ کسان کہتے ہیں کہ اگر حکومت ایم ایس پی پر پکی ہے تو اسے قانون میں لکھ دے۔
تیسرے ڈر کی زیادہ چرچا نہیں ہوتی، لیکن گاؤں کے غریب، چھوٹے کسان و مزدور کے دل میں بڑی بات ہے وہ۔ اگر حکومت گیہوں و دھان کی خرید بند کرے گی تو دیر سویر غریبوں کو ملنے والا سستا راشن بھی بند ہوگا۔چوتھا ڈر ہے کہ کانٹریکٹ کھیتی کے قانون سے کسان یرغمال ہوجائے گا۔ کسان و کمپنی کے مابین کانٹریکٹ کا نیا سسٹم شروع ہوگا۔ جب کانٹریکٹ کمپنی کے فائدے میں ہوگا تو اسے نافذ کروایا جائے گا۔ جس سال کسان کو فائدہ ہوگا، تب کانٹریکٹ کے قانونی داؤپیچ لگاکر کمپنی مکر جائے گی۔ کسان کمپنی کے یرغمال بن جائیں گے۔
پانچواں ڈر جمع خوروں پر روک ٹوک بند کرنے کے بارے میں ہے۔ ضروری اشیا قانون میں ترمیم کرکے کاروباریوں کو جمع خوری اور کالا بازاری کی مکمل چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاکر بڑے تاجر کسان کی فصل کی قیمت گرا دیں گے، لیکن خریداروں کے لیے قیمت بڑھا دیں گے۔
چھٹا ڈر سستی بجلی بند ہونے کا ہے۔ کسان نے سن لیا ہے کہ مودی حکومت قانون لارہی ہے تاکہ ریاستی حکومتیں کسان کو مفت یا سستی بجلی نہ دے سکیں۔ کسان پوچھتا ہے کہ اگر سستی بجلی ریاستی حکومتی اپنی جیب سے دے رہی ہیں تو مرکز اس کے بارے میں قانون کیوں نہیں بنارہا ہے؟
اب حکومت ساتواں ڈر اور لے آئی ہے۔ دلّی اور این سی آر علاقہ کے ماحولیات کو بچانے کے لیے کسان کو جیل میں بند کرنے کا قانون بھی بن گیا ہے۔ پرالی جلانے پر کسان کو ایک کروڑ روپے تک کا جرمانہ اور پانچ سال تک کی سزا کا نیا قانون نافذ ہوگیا ہے۔ کسان پوچھتے ہیں کہ ہوا صاف کرنے کے لیے دلّی کے لوگ پہلے گاڑیاں کم کیوں نہیں کرتے، اپنی صنعتیں اور عمارتوں کی تعمیر کی آلودگی بند کیوں نہیں کرتے؟ 
اس لیے اب کسانوں نے بھی حکومت کی ان سات طرح کی گھیرابندی کے خلاف اب مٹھی بند کرلی ہے۔ پورے ملک کی تقریباً500کسان تنظیمیں دلّی میں ’سنیکت کسان مورچہ‘ کے پروگرام کے تحت متحدہوگئی ہیں اور آرپار کی جنگ کا بگل بج گیا ہے۔ کسانوں نے طے کرلیا ہے کہ جو لیڈر اور پارٹی ان کسان مخالف قوانین کے ساتھ ہیں، ان کا ووٹ بند کریں گے۔ چاہے مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومت، جو اس سوال پر کسان کے ساتھ نہیں کھڑی، اس کا بوریا بستر باندھ دیں گے۔ یوم آئین 26نومبر سے کسان اپنے آئینی حق کی جنگ شروع کریں گے۔
(بشکریہ: دینک بھاسکر)
(مضمون نگار سیفولاجسٹ اور سوراج انڈیا کے صدر ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS