اَمے یا بوکِل/ نکیتاسوناوانے/ سُروجَنابیج
(مترجم: محمد صغیر حسین)
گزشتہ ماہ دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، ڈی این پٹیل نے قیدیوں کو عبوری ضمانت دینے کے سلسلے میں عدالت کے جامع حکم کی توسیع مزید کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ ’’وقت آگیا ہے کہ ہم لوگوںکو کووڈ کا باب بند کردینا چاہیے۔ عبوری ضمانت پر رہا ہونے والے قیدیوں کو یا تو عدلت کے روبرو حاضر ہونا چاہیے یا انہیں جیل جانا چاہیے۔‘‘ اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دہلی کی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی (High Powered Committe /HPC) نے جیلوں کی بھیڑبھاڑ کم کرنے کی خاطر ہدایت جاری کی کہ 3,337زیرسماعت قیدیوں اور 1,182 مجرم قیدیوں کو 30دنوں کی ایک فائنل توسیع دی جائے گی جس کے بعد انہیں دسمبر کے اوائل سے جیلوں میں واپس آنا پڑے گا۔
عالمی ماہرین صحت نے ابھی تک کووڈ-19وبا کے خاتمے کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ گمان کرنا کہ قیدی جیلوں میں صحت مند لوٹیں گے، پوری طرح بے جا ہے اور اس سے جیل کے حکام کا بے چین ہونا لازمی ہے۔ ایچ پی سی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، ڈائریکٹر جنرل(جیل) برائے دہلی نے توجہ دلائی ہے کہ جیلوں میں واپسی کے بعد ’’دہلی جیل کی مجموعی آبادی 22,000تک پہنچ سکتی ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قیدیوں کی اتنی بڑی تعداد کا انتظام ممکن نہ ہو۔‘‘ دوسری ریاستوں کے جیل محکموں نے بھی اپنی اپنی حکومتوں سے ایسی ہی اپیلیں کی ہیں۔
مارچ 2020میں، ہندوستانی جیلوں نے سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے زیرسماعت قیدیوں کو عبوری ضمانت پر اور سزایافتہ قیدیوں کو ایمرجنسی پیرول پر رہا کردیا۔ عدالت نے ریاستی حکومتوں کو حکم دیا کہ وہ رہائی کی شرائط طے کرنے کی غرض سے ایچ پی سی بنائیں۔ کووڈ-19کے متعدی صفت ہونے اور جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہونے کے تناظر میں، ریاستوں نے جیلوں کی آبادی کم کردی ہوتی، مگر کئی ریاستیں اس کوشش میں ناکام ہوگئیں اور کووڈ-19کی وبا جیلوں تک پہنچ گئی۔
گزشتہ سات مہینوں میں، عدلیہ کی لاعلمی میں، جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ ان نئے قیدیوں میں زیادہ تر زیرسماعت ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ میں ڈائریکٹر جنرل(جیل) برائے دہلی نے جو اعدادوشمار پیش کیے ہیں، ان کے مطابق ایچ پی سی کمیٹیوں کی رہنما ہدایت کے تحت عدالتوں نے 5,581 زیرسماعت قیدیوں کو عبوری ضمانت اور 1,200سے 1,500سزایافتہ قیدیوں کو ایمرجنسی پیرول پر رہا کردیا۔ دہلی کی جیلوں کی گنجائش 10,033 قیدیوں کی ہے۔ ایچ پی سی کمیٹیوں کی رہنما ہدایات سے قبل دہلی کی جیلوں میں 17,300قیدی تھے۔ ایچ پی سی نے اپریل تک 7,000قیدیوں کو رہا کردیا۔ تاہم اکتوبر 2020تک دہلی کی جیلوں میں 15,900 قیدی تھے جن میں 90فیصد زیرسماعت قیدی تھے۔ ہمارے تعزیری نظام عدل نے دہلی کی جیلوں میں مزید 5,500قیدیوں کا اضافہ کردیا جس کی وجہ سے بھیڑ میں 155فیصد کا اضافہ ہوگیا جب کہ دوسری جانب کووڈ-19وبا کا قہر مسلسل جاری رہا۔ اگر عدالت کے حضور حاضری کے بارے میں دہلی ہائی کورٹ کے احکام نافذ ہوگئے تو زیرسماعت قیدیوں کی دوبارہ واپسی سے جیلوں کی آبادی محض چند ہفتوں میں 200فیصد تک بڑھ جانے کے امکانات ہیں۔
وبا کے دوران تعزیری نظام عدل خود اپنے احکام سے متضاد رہا، اور دہلی کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ اترپردیش میں ملک بھر کی جیلوں میں بند قیدیوں کی مجموعی تعداد کی 21.1فیصد تعداد جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔ وبا کی وجہ سے اترپردیش نے 9,000قیدیوں کو رہا کردیا۔ مگر طرفہ تماشا یہ ہے کہ 17,000نئے زیرسماعت قیدی جیلوں میں بھردیے گئے جس کے سبب، سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، فروری میں جہاں 66فیصد بھیڑ بڑھ گئی وہیں ستمبر میں یہ تعداد بڑھ کر 79فیصد ہوگئی۔ اسی طرح مدھیہ پردیش نے ایچ پی سی کمیٹیوں کے احکام کی پیروی میں 7,500قیدیوں کو رہا تو کردیا لیکن 30ستمبر کے آتے آتے اتنی ہی تعداد میں نئے قیدیوں کو دعوتِ زنداں دے ڈالی۔ مدھیہ پردیش میں زیرسماعت قیدیوں کا تناسب جہاں فروری میں 53.4فیصد تھا وہیں ستمبر میں یہ تناسب بڑھ کر 67.5فیصد ہوگیا۔ مہاراشٹر نے مارچ میں 10,000قیدیوں کو رہا کیا لیکن محض ستمبر اور اکتوبر میں 5,000نئے قیدیوں کا اضافہ کرلیا۔ اگر ان ریاستوں کی ہائی کورٹس نے کووڈ کی وجہ سے رہا کے گئے قیدیوں کی پھر سے جیل واپسی کے یکساں احکامات جاری کردیے تو یوپی، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کی جیلوں کی آبادی بالترتیب 200%، 180% اور 160%بڑھ جائے گی۔ ایسی صورت میں جیلوں میں وبا کی دوسری لہر کا آنا تقریباً یقینی ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ وبا کے دوران جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی ٹھونس دیے گئے؟ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ پولیس تعیناتی ترجیحات مکمل طور پر بے جا تھیں۔ ہم نے تالہ بندی کے پہلے تین مرحلوں میں، مدھیہ پردیش میں کی جانے والی گرفتاریوں کا مطالعہ کیا۔ یہ وہی عرصہ تھا جب کیسوں کے اندراجات اور گرفتاریوں میں اضافہ ہوا۔ مدھیہ پردیش میں، جہاں لاک ڈاؤن سے متعلق گرفتاریاں 14.8% تھیں وہیں ایکسائز ایکٹ کے تحت 15.8%اور پبلک گیمبلنگ ایکٹ (Public Gambling Act) کے تحت 12.2% گرفتاریاں کی گئیں۔ سرکاری کارروائیوں کے بارے میں دو باتوں کا انکشاف ہوا۔ عوامی صحت کے بحران کی تشخیص غلط کی گئی اور اسے نظم و نسق کے مسئلے کے طور پر حل کرنے کی کوشش کی گئی، اور یہ کہ سرکاری اقدامات میں یہ رجحان دیکھنے کو ملا کہ اُس نے کم آمدن والی حاشیے پر کھڑی برادریوں کے خلاف شراب رکھنے یا عوامی جگہوں پر جوا کھیلنے جیسے بے ضرر جرائم کی پاداش میں محاذ کھول لیا۔ ہمارے تجزیے سے یہ انکشاف ہوا کہ لاک ڈاؤن سے متعلق جرائم میں مسلمانوں کو ناموزوں طور پر نشانہ بنایا گیا۔
دوسری بات یہ کہ عدالتوں میں کم شنوائی کے سبب گرفتار شخص کی ضمانت پر سماعت نہیں ہوسکی۔ ضمانت پر مستقل سماعتیں ہفتوں تک مؤخر ہوگئیں۔ Virtual کورٹ کا تصور اپنانے کی وجہ سے عدالتی تاخیر میں مزید اضافہ ہوگیا۔ وبا اور اُس کے نتیجے میں ہونے والی قیدیوں کی حالت زار سے اپنے تعزیری نظام عدل کی پیچیدہ ساخت اور منطق کا اندازہ ہوتا ہے۔ پولیس، عدالتیں اور جیلیں خود کو الگ تھلگ سمجھتی ہیں اور متحد ہوکر کام کرنے سے گریزاں ہیں۔ اُن کی یہ روش وبا کے دوران بھی جاری ہے جب کہ جیلوں کی بھیڑبھاڑ کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ پولیس کی اوّلین ترجیح یہ ہے کہ گرفتار کرنے کے اختیارات کا پوری طرح استعمال کیا جائے خواہ سماجی تناظر کچھ بھی ہو۔ اسی طرح چند عدالتیں، جیلوں میں حد سے زیادہ بھیڑبھاڑ سے بے پرواہ ہیں۔ اس صورت حال میں دو اہم سوالات ابھر کر سامنے آتے ہیں: اولاً یہ کہ زیادہ گرفتاریوں کی وبا پر توجہ کیوں نہیں ہے؟ اور دوسرا یہ کہ تعزیری نظام عدالت کے کارکنان، جیلوں کی آبادیوں اور اُن میں تیزی سے اضافے کی ذمہ داری کیوں قبول نہیں کرتے؟
جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کے مسئلے کو حل کرنے کی سپریم کورٹ کی سنجیدہ کوششیں صفر ہوگئیں۔ زیادہ گرفتاریوں اور پولیس کے داخلی مسئلوں پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ زیرسماعت قیدیوں کی تعداد کم کرنے کی غرض سے مطلوبہ اصلاحات کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا۔ اگر ملک اور عوام عالمی وبا سے نبردآزما نہ بھی ہوتے تو ملک کی جیلوں میں بند قیدیوں کی مجموعی تعداد میں 55% سے لے کر 90%زیرسماعت قیدیوں کا ہونا بذات خود باعث تشویش ہے۔ لیکن ارباب اقتدار کو شاید یہ سب کچھ دکھائی نہیں دیتا جو پہلے سے ہی زیربار جیل نظام میں ہزاروں افراد کو دھکیل دینے پر مصر ہیں۔
(بشکریہ: انڈین ایکسپریس)
(مضمون نگاران بھوپال مقیم Criminal Justice and Police Accountability Projectسے وابستہ ہیں)