کولکاتا:اسدالدین اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم)کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس نے حالیہ اختتام پذیر بہار اسمبلی انتخابات میں عظیم اتحاد کے کھیل کو خراب کردیا ہے۔ بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ کیا واقعی اویسی کی پارٹی نے عظیم اتحاد کو نقصان پہنچایا ہے اور اقلیتی ووٹوں کو تقسیم کیا ہے۔ جس سے بی جے پی کو فائدہ پہنچایا ہے۔آئندہ برس مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور اویسی پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ ان کی پارٹی بنگال کے انتخابات بھی حصہ لے گی، ایسی صورتحال میں بہت سے لوگوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ بہار کی طرح بنگال میں بھی مسلم ووٹوں کو تقسیم کرکے اے آئی ایم آئی ایم بی جے پی کو فائدہ پہنچائے گی۔ انہی خدشات اور الزامات کے جواب میں اے آئی ایم آئی ایم کی قیادت نے مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی کو آئندہ انتخابات میں بی جے پی کو روکنے کیلئے ترنمول کانگریس-اے آئی ایم ایم اتحاد کے لیے کھلی دعوت دی ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم کے قومی ترجمان اور پارٹی کے بنگال کے نگراں عاصم وقار نے کہا کہ ہماری قیادت بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لیے ترنمول کانگریس سے معاہدہ کرنا چاہتی ہے، 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج سے یہ واضح ہے کہ ترنمول کانگریس اس بار بی جے پی سے مقابلہ نہیں کرسکے گی، لہٰذا ہمارے رہنما اسدالدین اویسی ترنمول کانگریس کے ساتھ اتحاد چاہتے ہیں، اب یہ فیصلہ ممتا بنرجی کو کرنا ہے، اگر وہ اتحاد کے لیے تیار ہیں تو پھر ان کا خیرمقدم ہے، ورنہ اے آئی ایم ایم بنگال کے انتخابات اپنے طور پر لڑے گی۔ جلد ہی ہم نشستوں کی تعداد اور ان حلقوں کے ناموں کا فیصلہ کریں گے جہاں سے ہمارے امیدوار انتخابات میں حصہ لیں گے۔ تاہم ترنمول کانگریس کے رہنما اس معاملے پر کچھ بھی بولنے کو تیار نہیں ہیں، مغربی بنگال اسمبلی میں ترنمول کانگریس کے چیف وہپ تاپس رائے نے کہا کہ چونکہ یہ اتحاد ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے، لہٰذا صرف وزیر اعلیٰ ہی اس پر کوئی فیصلہ لیں گی، اور وہ واحد شخصیت ہیں جو اس تبصرہ کریں گی، مغربی بنگال کے بجلی کے وزیر شوبھن دیو چٹوپادھیائے نے بھی ایسی ہی رائے کا اظہار کیا۔شوبھن دیو نے کہا کہ یہ ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے، اس معاملے پر صرف وزیراعلیٰ فیصلہ اور بات کرسکتی ہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ مغربی بنگال کے ووٹرز کی نوعیت بہار سے بالکل مختلف ہے، ریاستی حکومت کے حالیہ ترقیاتی منصوبوں سے لوگوں کو مذہب سے قطع نظر بہت فائدہ ہوا ہے۔ مغربی بنگال کے سیاسی طور پر باشعور ووٹروں نے ہمیشہ سرکار کے ذریعہ کیے گئے کام کی بنیاد پر ووٹ دیا ہے، وہ آئندہ برس بھی ایسا ہی کریں گے۔