کلیانی شنکر
(مترجم: محمد صغیر حسین)
چوبیس اکتوبر کو اقوام متحدہ اپنا 75واں یوم تاسیس منائے گی۔یہ نسبتاً کم سن تنظیم ہے لیکن سال رواں میں اس کے جشن سالگرہ پر اس کی گزشتہ کارکردگیوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اکتوبر 1945میں، سین فرانسسکو میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں ہندوستان سمیت پچاس ملکوں نے اقوام متحدہ کی خاکہ گری کی تھی۔ اس وقت سے یہ ترقی کرتی رہی جس کے نتیجے میں آج اس تنظیم کے 193ارکان ہیں۔ مزید برآں آج کی اقوام متحدہ کچھ 75سال قبل والی نہیں ہے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ اس عالمی ادارے نے اپنا کردار مناسب اور معقول انداز میں ادا کیا ہے یا یہ اب مہمل ہوکر رہ گیا ہے؟ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل آنجہانی ڈیگ ہیمرشولد (Dag Hammarskjold) نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کی تشکیل ’’بنی نوع انسانی کو جنت تک پہنچانے کے لیے نہیں کی گئی تھی بلکہ انسانیت کو جہنم سے بچانے کے لیے کی گئی تھی۔‘‘ اُن کا یہ قول بہت مشہور ہوا۔
لطف کی بات یہ ہے کہ جو لوگ اقوام متحدہ کی تائید وحمایت کرتے ہیں، اُن کی دلیل یہ ہے کہ اس عالمی ادارے نے ہر طرح سے اپنے اغراض ومقاصد کی تکمیل کی ہے۔ تمام نشیب و فراز کے باوجود اس کا زندہ و باقی رہنا، اس کی کامیابی کا بین ثبوت ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ گزشتہ 75سالوں میں کوئی نیوکلیائی جنگ نہیں ہوئی۔ دیگر حضرات اس کے بقاء امن کے مشن کی ستائش کرتے ہیں۔ وہ اس کے تحفظ پسندانہ ترقیاتی پروگراموں کی بھی تعریف کرتے ہیں۔ لیکن کئی اسباب کی بنا پر اقوام متحدہ کے موثر نہ ہونے پر اس کی تنقید بھی کی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی نگاہوں کے سامنے، متعدد آمروں نے بے گناہ شہریوں کے خلاف مروّجہ اسلحوں کا بے دریغ استعمال کیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں لازمی نہیں ہوتیں۔ اس عالمی ادارے سے یہ توقعات تھیں کہ وہ جنگوں اور تنازعات کو روکے گا لیکن اس کے قیام سے لے کر آج تک 80سے زیادہ جنگیں ہوچکی ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں میں، امریکی صدور-بش سے لے کر ٹرمپ تک-سب نے اقوام متحدہ کی ناقص کارکردگی پر اُسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ادارہ مالی پریشانیوں سے بھی دوچار ہے کیوں کہ اس کے ارکان بشمول امریکہ پابندیٔ وقت کے ساتھ اپنا مالی تعاون نہیں دیتے۔
اقوام متحدہ سے ہندوستان کی وابستگی قابل ذکر ہے۔ رکنِ تاسیسی کی حیثیت سے اقوام متحدہ کے منشور کے اہداف کی تکمیل اور اس کے پروگراموں کے نفاذ میں نئی دہلی کا کردار لائق ستائش رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے کئی اداروں میں ہندوستان شامل ہے۔ یہ ڈبلیو ایچ او (World Health Organisation) کی مجلس عاملہ کا موجودہ صدر بھی ہے۔ ہمارا ملک اس وقت اقوام متحدہ کے کمیشن برائے حالات خواتین (UNCSW) کارکن ہے۔ یہ میقات 2021 سے 2025تک چار سالہ ہے۔ جون میں ہندوستان کو طاقتور سلامتی کونسل کا بحیثیت غیرمستقل رکن نامزد کیا گیا۔ اس کی میقات دوسالہ ہوتی ہے۔ اس سے پہلے بھی ہندوستان آٹھ بار یہ فریضہ انجام دے چکا ہے۔ نئی دہلی نے ہمیشہ سلامتی کونسل کی توسیع کے لیے کوششیں کی ہیں۔ اس نے سلامتی کونسل میں ایک مستقل رکن بنائے جانے کا دعویٰ بھی پیش کیا ہے۔ جب بھی ہمارا کوئی وزیراعظم غیرملکی دورے پر گیا یا کوئی سربراہ حکومت ہندوستان آیا تو توسیع شدہ سلامتی کونسل میں ہندوستان کی رکنیت کی تائید کا موضوع ضرور زیربحث آیا۔ تاہم کئی وجوہات کی بنا پر اقوام متحدہ میں اصلاحات نہیں ہوپارہی ہیں۔ مثال کے طور پر، پانچوں مستقل ارکان اپنا ویٹو پاور چھوڑنے پر رضامند نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے سربراہ نے قیام امن فورسز کے سلسلے میں ہندوستان کے تعاون کی ستائش کی ہے۔ کئی مسئلوں مثلاً سامراجیت، نسلی تفریق، عالمی تخفیف اسلحہ اور دہشت گردی کے خاتمے میں ہندوستان پیش پیش رہا ہے۔ ہندوستان، اقوام متحدہ میں اصلاحات کا ایک پرجوش حامی و موید رہا ہے۔ شروع میں ہندوستان سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بننے کا آرزومند نہ تھا۔ تاہم جب 1992میں،جنرل اسمبلی نے اقوام متحدہ میں اصلاحات کا عندیہ ظاہر کیا تو جاپان،جرمنی اور برازیل نے توسیع شدہ سلامتی کونسل میں رکنیت کی خواہش ظاہر کی۔ ہندوستان نے بھی ایسے میں ہاں میں ہاں ملائی۔ ہوا یہ کہ کئی یوروپی ملکوں نے جرمنی کے دعوے پر اعتراض کیا، ارجنٹائنا نے برازیل کی مخالفت کی اور پاکستان نے ہندوستان کی مخالفت کی۔ بعد میں 2005میں، ان چاروں ملکوں نےG4نامی ایک گروپ بنایا تاکہ مل کر کام کرسکیں۔
ایک سوال جو آج کی صورت حال میں بار بار پوچھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا مستقبل کیا ہے؟ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ عالمی امور میں اور بڑا رول ادا کرے جب کہ دوسرے لوگوں کی خواہش یہ ہے کہ یہ عالمی ادارہ خاص طور پر کاروانِ انسانی کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کرے۔ فی الوقت اقوام متحدہ کی اہم ترین ضرورت اپنے نظام کی اصلاح کرنا اور بڑے پیمانہ پر عالمی معاونت اور فنڈز حاصل کرنا ہے۔ 1990کی دہائی کے اوائل سے ہی اس کی اصلاحات کے چرچے ہیں لیکن اس سمت کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جو یقینا بدنصیبی کی بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کو طرزجدید پر ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ کئی لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ موجودہ ڈھانچہ ناقص ہے اور اس کے پروگرام اکثروبیشتر فرسودہ ہوتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ لوگوںمیں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ اقوام متحدہ کو طاقتور بنایا جانا چاہیے۔ اس عالمی ادارے کو زیادہ قوت و اختیارات حاصل ہونا چاہیے تاکہ خاطی ارکان کی سرزنش کی جاسکے۔
چوتھی بات یہ کہ اقوام متحدہ کو ملنے والا مالی تعاون کسی بھی وجہ سے رکنا نہیں چاہیے کیوں کہ اس عالمی ادارے کو خودمختار رہنا لازم ہے۔ اقوام متحدہ اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے اپنے ارکان ملنے والے مالی تعاون، سازوسامان اور خدمات پر منحصر ہے۔ پانچویں یہ کہ اقوام متحدہ کے عملے کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ گارجین اخبار کے مطابق کچھ عرصے پہلے ’’کم وبیش 85000اہلکار مصروف کار تھے۔ اس کے سالانہ اخراجات تقریباً 40 بلین ڈالر ہیں۔ یہ بجٹ اقوام متحدہ کے سال قیام (1946) کے بجٹ سے 2000گنا زیادہ ہے۔ اخراجات گزشتہ 20سالوں میں چارگنا ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود کئی ایجنسیاں فنڈز کی کمی سے پریشان ہیں۔‘‘
پھر بھی ان تمام شکایتوں اور تنقیدوں کے باوجود سردست اقوام متحدہ ہی وہ عالمی ادارہ ہے جہاں سربراہان حکومت جمع ہوکر اہم مسائل پر تبادلۂ خیال کرسکتے ہیں اور دنیا کے متعدد مسئلوں کو حل کرنے کے لیے اجتماعی کوششیں کرسکتے ہیں۔ مجموعی طور پر اقوام متحدہ ستائشوں، تنقیدوں اور تنقیص کی زد پر ہے۔ اب اس بات کا انحصار اس کے ارکان پر ہے کہ اس عالمی ادارے کو موثر بنائیں۔ اس تشویشناک موڑ پر، اقوام متحدہ کو تباہ و برباد کرنے کے بجائے اسے سجانے، سنوارنے اوربہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ: دی پائنیر)
(مضمون نگار ایک سینئر صحافیہ ہیں)