تلک دیواشر
22 اکتوبر 1947 جموں و کشمیر کی تاریخ کی شاید سب سے اہم تاریخ ہے۔ اس تاریخ کو پاک اسپانسرڈ قبائلی حملہ آوروں نے ریاست کو نئے بنائے گئے ملک سے زبرستی جوڑنے کے لیے حملہ کیا۔ کشمیر کے مہاراجہ نے 12 اگست 1947 کو پاکستان کے ساتھ ’اسٹینڈ اسٹیل معاہدہ‘ کیا تھا۔ اس کے تحت پاکستان نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ یکطرفہ طور پر جموں و کشمیر کی صورت حال تبدیل نہیں کی جائے گی یعنی وہ جموں و کشمیر کو ایک آزاد ریاست کے طور پر سمجھنا جاری رکھے گا لیکن پاکستان نے جان بوجھ کر معاہدہ توڑا اور اس آزاد ریاست پر حملہ کر دیا۔ جیسا کہ مشہور ہے، حملہ آوروں نے لوٹ مار کی اور تشدد کا عریاں کھیل کھیلا۔ بالآخر اس کا مقابلہ ہندوستانی فوج نے کیا۔
اگرچہ پاکستان ریاست جموں و کشمیر پر زبردستی قبضہ کرنے میں ناکام رہا لیکن وہ کشمیر پر ایک نیا پروپیگنڈہ شروع کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ایک طرف پاکستان نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور 1947 کے حملے پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہو گیا تو دوسری طرف یہ دعویٰ کرنے میں وہ کامیاب رہا کہ جموں و کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ انضمام جعلی تھا اور 27 اکتوبر 1947 کو ہندوستانی فوج کا کشمیر میں داخل ہونا غیر قانونی تھا۔ اس قسم کی داستان کو تقویت دینے کے لیے پاکستان کئی دہائیوں سے اس دن کو ’یوم سیاہ‘ کے طور پر مناتا ہے۔
بدقسمتی سے ہندوستان نے پاکستان کے اس پروپیگنڈے کے خلاف سنجیدہ لڑائی نہیں لڑی لیکن اب 22 اکتوبر کو کشمیر کی تاریخ کے اصل ’یوم سیاہ‘کے طور پر منانے کی ضرورت ہے، کیونکہ اسی دن پاکستان کی طرف سے کشمیر پر وحشیانہ حملے ہوئے۔ اس سے وہ لوگ خصوصاً کشمیری نوجوان واقعے کی تاریخ جان پائیں گے اور یہ سمجھ پائیں گے کہ کس طرح ان کے آبا و اجداد پاکستان کے مظالم کے شکار ہوئے۔ انہیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہی وہ دن تھا جب کشمیر کی پوری تاریخ مسخ کر دی گئی تھی اور کیسے ایک رجواڑہ ایک ’ایشو‘ اور ایک ’سوال‘ بنا اور کیسے پاکستانی ایجنڈہ اس کی تاریخ مسخ کرنے میں معاون بنا۔
پاک مقبوضہ کشمیر کے مصنف محمد سعید اسد نے اپنی کتاب ’یادوں کے زخم‘میں قبائلیوں کے حملے پر خصوصاً مظفر آباد اور اس کے قریبی علاقوں کے عینی شاہدین کے تاثرات کو پیش کیا ہے۔ یہ تاثرات ان لوگوں کے لیے ظالمانہ انکشاف ہیں جو ان واقعات کو بھول چکے ہیں یا مسخ شیشوں سے کشمیر کو دیکھتے ہیں۔
عینی شاہدین کے تاثرات سے پتہ چلتا ہے کہ ان قبائلیوں کے وحشیانہ حملے سے قبل جموں و کشمیر کا معاشرہ انتہائی رواداری والا اور پرامن نوعیت کا تھا۔ مظفرآباد میں تینوں مذہبی برادریاں، مسلمان، ہندو اور سکھ، تھیں۔ ان میں اکثریت میں مسلمان تھے۔ تمام برادریاں ہم آہنگی کے ساتھ رہتی تھیں اور ان کے مابین باہمی روابط اعلیٰ معیار کے تھے۔ یہ برادریاں صرف دوست ہی نہیں تھیں ، ان کے رابطے ان کے وجود کے تمام پہلوؤں، تہواروں، شادیوں اور آخری رسومات کی ادائیگی، سے وابستہ تھے۔ جیسا کہ ایک عینی شاہد نے بتایا، ان دنوں یہ تعلقات مسلمانوں کے باہمی تعلقات سے کہیں زیادہ خوشگوار تھے۔
مظفر آباد میں حملہ آوروں کی وسیع پیمانے پر توڑ پھوڑ تباہ کن تھی۔ ہندوؤں اور سکھوں کی املاک کو جلایا گیا، انہیں ہلاک کیا گیا۔ کئی دنوں تک ان کی لاشیں ان کے گھروں یا گلیوں میں پڑی رہیں۔ کئی لوگوں کو ندی میں پھینک دیا گیا۔ لوٹ مار کرتے وقت حملہ آوروں نے مسلم اور غیر مسلم املاک میں شاید ہی کوئی فرق کیا ہو، چنانچہ مسلمانوں کی دکانوں کو اسی طرح لوٹا گیا جیسے قبائلیوں نے غیر مسلموں کے گھر خالی کرائے۔ یہاں تک کہ قرآن پاک کی بھی بے حرمتی کی گئی۔ چوری کے سبھی سامانوں کو ٹرکوں پر لاد کر صوبہ سرحد بھیج دیا گیا۔
ایک عینی شاہد کے مطابق،راستے میں پڑنے والا کوئی گاؤں ایسا نہیں تھا جہاں حملہ آوروں نے لوٹ مار اور توڑ پھوڑ نہیں کی ہو۔ جہاں انہوں نے مردوں کو ہلاک کیا وہیں بلا تفریق مذہب و ملت خواتین سے زیورات چھین لیے۔ اگر کسی خاتون نے مزاحمت کی جرأت کی تو یا تو انہوں نے جھٹکے سے اس سے زیورچھین لیا یا زیور والے جسم کے حصے کو کاٹ دیا۔ کئی خواتین نے کلمہ پڑھا اور اپنی زندگی کی بھیک مانگی لیکن حملہ آوروں نے ان کی ایک نہیں سنی۔ بہت سی خواتین صوبہ سرحد لے جائی گئیں اور سب سے زیادہ بولی لگانے والوں کو فروخت کر دی گئیں۔
ہندوستان میں جہانگیر کے شعر کے مطابق کشمیر کو جنت کہا جاتا ہے۔ سرحد کے اس پار اسی طرح کا ایک قول ہے۔ جب بھی شاعر، ادیب اور دانشور کوہلہ پل سے جہلم کو عبور کرتے ہوئے جموں و کشمیر میں داخل ہوئے تو انہوں نے بے ساختہ فارسی زبان میں اعلان کیا کہ ’من خدا را دیدم ایں جا بے حجاب (میں شاہد ہوں کہ اللہ پوری شان و شوکت سے، بے حجاب، یہاں ہے۔)
یہ جنت 22 اکتوبر1947کو دو ٹکڑے کر دی گئی۔ زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے، ان پاکستانیوں کی جو قبائلی جارحیت کے اصل ذمہ دار ہیں ، عوامی سطح پر شناخت کرنی ہوگی، شرم دلانا ہوگا اور وقت کی عدالت میں پیش کرنا ہوگا۔ وہ کشمیری عوام کے اصل دشمن ہیں۔ ان کے اس عمل نے کشمیر کی یکجہتی کو تباہ کر دیا۔ اس کی سماجی، مذہبی، ثقافتی اور تہذیبی خصوصیات کو مستقل طور پر نقصان پہنچایا۔
یہ ستم ظریفی ہے کہ کشمیر میں جرائم کے لیے پاکستان کو کوئی سزا نہیں ملی۔ اس سے بدتر بات یہ ہے کہ وہ اپنی مذموم حرکتوں کوعوام کی نظروں سے ہٹانے اور کسی حد تک ہندوستان کو مورد الزام ٹھہرانے میں کامیاب ہو گیا، چنانچہ یہ بتایا جانا چاہیے کہ اصل میں ہوا کیا تھا اور کشمیر کی اس صورت حال کے لیے پاکستان کے جرم کو کشمیر کے لوگوں کو خود جاننا چاہیے۔ خاموشی اور بے حسی اب متبادل نہیں ہیں۔
(مضمون نگار قومی سلامتی مشاورتی بورڈ کے رکن ہیں)