یہ پیش گوئی کی جا رہی تھی کہ بحرین بھی اسرائیل سے ہاتھ ملا لے گا اور اب اس نے یہ پیش گوئی سچ ثابت کر دی ہے۔ وہ مشرق وسطیٰ کا چوتھا ملک ہے جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان باضابطہ طور پر سفارتی تعلقات قائم ہو گئے ہیں۔ یہ امید رکھی جانی چاہیے کہ ابھی اور عرب ممالک اسرائیل سے ہاتھ ملائیں گے، وہ ممالک بھی ہاتھ ملائیں گے جن کے بارے میں یہ غلط فہمی ہے کہ وہ عالم اسلام کے سربراہ ہیں۔ جب مسلم ملکوں کا کوئی اتحاد ہی نہیں ہے، پھر ان کی سربراہی کی بات ہی کہاں اٹھتی ہے۔ برسوں کا بنا بھرم ٹوٹ رہا ہے اور اس بھرم کے ٹوٹ جانے میں ہی بہتری ہے۔ 1967 کی 6 دن کی جنگ میں ہی یہ بات ثابت ہو گئی تھی کہ عرب ملکوں کے پاس بیان بازی کرنے والے لیڈر تو ہیں، اپنے ملکوں کو مضبوط کرنے والے لیڈر نہیں ہیں۔ ان کی بیان بازی کی حقیقت پہلے عراق جنگ میں دنیا نے دیکھی، پھر لیبیا اور دیگر ملکوں میں دیکھی۔ لیبیا کی خانہ جنگی میں پتہ چلا کہ کرنل معمر قذافی لیڈی باڈی گارڈس کے بل بوتے پر امریکہ کو دھمکایا کرتے تھے، ورنہ لیبیا کوئی شمالی کوریا جیسا ملک نہیں ہے۔ تو ظاہر ہے جو خود کمزور ہو، وہ دوسرے کی مدد کیا کرے گا، اس لیے ایک کے بعد ایک عرب ملک کا اسرائیل سے ہاتھ ملانا حیران کن نہیں ہے۔
تیل عرب ملکوں کی طاقت ہوا کرتا تھا لیکن اس کے متبادل کے طور پر کئی چیزیں آچکی ہیں۔ تیل کی پیداوار کے معاملے میں سعودی عرب جیسا ملک امریکہ اور روس سے پچھڑ چکا ہے۔ یہ بات نظر آنے لگی ہے کہ زیادہ دنوں تک تیل کا کھیل نہیں چلے گا۔ دوسری طرف دنیا دو گروپوں میں بٹتی ہوئی نظر آرہی ہے اور واقعات اس اندیشے کو تقویت پہنچا رہے ہیں کہ کوئی بھی بات تیسری عالمی جنگ کے چھڑنے کا بہانہ بن سکتی ہے تو عرب ملکوں کو بھی وقت رہتے ایک بڑے گروپ سے وابستہ ہونا ہے۔ وہ آج تک امریکہ سے وابستہ رہے ہیں۔ اسے چھوڑ کر دوسرے گروپ سے وابستگی اختیار کرنا ان کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا مگر امریکہ میں اسرائیلی لابی کافی مضبوط ہے، ٹرمپ امریکہ کے دوبارہ صدر بنیں یا صدر بائیڈن بن جائیں، امریکہ کی اسرائیل پالیسی میں زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی۔ فلسطینیوں کو وہ کچھ امداد دے دے، یہ بات الگ ہے مگر اسرائیلیوں کے مفاد کو نظرانداز کر کے وہ فلسطینیوں کی مدد نہیں کرے گا۔ اسرائیل کا دوست بننے پر ہی امریکہ عرب ملکوں کو دوست سمجھے گا، اس لیے اسرائیل سے ہاتھ ملانا ان کی مجبوری ہے۔ وہ مسجد اقصیٰ کے تحفظ کی باتیں کر کے، فلسطینیوں کے فلاح و بہبود کی باتیں کر کے اور کچھ امداد وغیرہ دے کر یہ دکھانے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ یہ سب فلسطینیوں سے محبت میں ہی وہ کر رہے ہیں مگرحقیقت یہ ہے کہ عرب ممالک کے لیڈر اسرئیل کو جب صفحۂ ہستی سے مٹانے کی باتیں کیا کرتے تھے، اسرائیلی لیڈر نئے ہتھیار بنانے کے لیے ریسرچ سینٹرس قائم کر رہے تھے، عرب ملکوں میں جب پانی امپورٹ کرنے پر تیل کی دولت خرچ کی جا رہی تھی تو اسرائیل میں سمندر کے کھارے پانی کو پینے لائق بنانے پر ریسرچ ہو رہی تھی، جب عرب ملکوں کے کسان نخلستان کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے تھے تو اسرائیل کے سائنس داں ریگستان کو نخلستان بنانے کے لیے کوشاں تھے۔ اسرائیل کی جہد مسلسل کا نتیجہ ہے کہ آج وہ اس مقام پر ہے جہاں عرب ممالک اس سے ہاتھ ملانے کے لیے کوئی سخت شرط نہیں رکھ سکتے۔ رہی بات فلسطینیوں کی تو ان کے لیڈروں نے انہیں وہ لیڈر شپ فراہم نہیں کرائی جو اسرائیلی لیڈروں نے اپنے عوام کو فراہم کرائی۔ پچھلے 72 سال میں فلسطینی لیڈروں نے یہ بات بار بار ثابت کی ہے کہ وہ بڑی باتیں کرنا جانتے ہیں، بڑے کام کرنا نہیں جانتے اور اس وقت تک نہیں جان سکتے جب تک ان کا چھوٹا مفاد فلسطینیوں کے بڑے مفاد پر حاوی رہے گا۔ الفتح فلسطینیوں کے حقوق کے حصول کی جدوجہد کر رہی تھی تویہ حماس تھی جس نے فلسطینیوں کے اتحاد کو توڑا تھا۔ دھیرے دھیرے وہ خود کو فلسطینیوں کا محافظ بتانے کی کوشش کرنے لگی مگر اس کی محافظت کا تماشہ دنیا نے اس وقت دیکھا جب الفتح کے ساتھ اس کی اتحادی حکومت چل نہیں سکی۔ اسی موقع پر عالمی برادری نے الفتح کے لیڈروں کی سیاسی حصول کی تڑپ بھی دیکھی۔ حماس غزہ پٹی پر قابض ہو گئی اور الفتح مغربی کنارے پر۔ اس کے بعد سے دونوں پارٹیاں یہ کہتی ضرور ہیں کہ وہ فلسطینیوں کی پارٹیاں ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ حماس غزہ کے لوگوں کی پارٹی ہے اور الفتح مغربی کنارا کے لوگوں کی، اس لیے ان دونوں پارٹی کے لیڈروں کی باتوں کی زیادہ اہمیت نہیں رہ گئی ہے، البتہ عام فلسطینیوں کی باتوں کی آج بھی اہمیت ہے۔ اب اپنے مفاد کی جدوجہد انہیں خود ہی کرنی ہے اور وہ کریں گے، اس بات کی امید رکھی جانی چاہیے۔
edit2sahara@gmail.com
بحرین-اسرائیل معاہدہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS






