جمال الدین افغانی اور ہندوستانی علماء

0

عارف محمد خاں
(مترجم: محمد صغیرحسین)

اب جبکہ جمعیۃ علماء نے دیوبند میں منعقد ہونے والی تیسویں کانفرنس میں حکومت کو متنبہ کردیا ہے کہ مؤخر الذکر نصاب مدارس میں جدید مضامین کو داخل کرنے کی کوششوں سے باز رہے، میں انیسویں صدی کے عالم گیر اسلام کے زبردست موید سید جمال الدین کا بیش بہا مشورہ یاد کرنے کا خواہاں ہوں۔ واضح ہو کہ ہندوستان کے روایتی علماء جمال الدین افغانی کے لئے دیدۂ و دل فرش راہ کئے رہتے ہیں۔
افغانی 1838میں پیداہوئے۔ وہ ایک ایسے ممتاز عالم تھے جنہوں نے مغربی استعماریت کے خلاف متعدد ملکوں میں مسلمانوں کو متحرک کرنے کے لئے اپنی بیش بہا زندگی وقف کردی۔ انہوں نے انتہائی چابکدستی سے استعماریت سے نبرد آزما ہونے کے لئے مذہب کو قوت محرکہ بنایا اور یہی وجہ ہے کہ انہیں دور جدید کے پہلے کل۔ اسلامی بطلِ عظیم کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ کئی سالوں تک ایران، فارس اور ترکی میں رہے۔ انہوں نے کچھ وقت فرانس میں بھی گزارا۔ انہوں نے 1880سے لے کر 1882تک ہندوستان میں قیام کیا۔ اس عرصے میں انہوں نے اپنے سیاسی ایجنڈا کو بروئے کار لانے کے لئے عوامی تقریروں کے ساتھ ساتھ طویل رسالے تحریر کئے۔ انہیں ہندوستانی علماء کے درمیان کافی مقبولیت ملی۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ اولاً ان کی برطانیہ مخالف سرگرمیاں اور دوئم سرسید کی انتہائی شدت سے فضیحت وملامت۔ انہوں نے سرسید کی مخالفت میں ایک مضمون بھی تحریر کیا تھا جس کا عنوان تھا: ’’نیچریوں (مادّہ پرستوں کے بارے میں حقائق۔‘‘)
سرسید کی مخالفت کے باوجود افغانی نے انہیں کی طرح فلسفے اور جدید سائنس کی افادیت پر زور دیا۔ انہوں نے علماء سے فرط جذبات کے ساتھ اپیل کی وہ جدید سائنس کو اپنائیں اور علم وآگہی کو اسلامی اور مغربی خطوط پر تقسیم نہ کریں۔
کلکتہ میں ’’تعلیم و تعلم‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: ’’تمام بڑی سلطنتیں بشمول یورپی فاتحین کو سائنس کا تعاون حاصل تھا۔ سائنس نے جہل کو ہمیشہ مغلوب کیا ہے، اور سائنس ہی تمام میدانوں میں ترقی یافتہ تکنالوجی کی اساس رہی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید فرمایا کہ ’’یہ کوئی فرانسیسی یا برطانوی قوتیں نہیں تھیں جنہوں نے غیر یورپی دنیا کو مسخر کرکے اپنی نو آبادیاتی کالونی بنالیا بلکہ یہ کارنامہ سائنس کی عظیم قوت نے انجام دیا۔ فلسفے کی عظمت بیان کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: ’وہ سائنس جسے ایک جامع روح کا مقام اور ایک محافظ قوت کا منصب حاصل ہے، وہ در اصل فلسفے کی سائنس ہے کیوں کہ اس کے موضوعات آفاقی ہیں۔ اپنے مناسب مقام پر ہر سائنس پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔‘
اس معرکۃ الآرا خطاب میں انہوں نے علماء ہند کی تنقید کی اور کہا کہ ان کی فکر پر مُلاّ سدرہ اور مُلاّ محمود جونپوری اور ان کی ساتویں صدی کی کلاسیکی تصنیف ’’شمسِ بازغہ‘‘ مسلط ہے۔ انہوں نے ان کو پھٹکارتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو درویش ظاہر کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ کوتاہ علم ہیں اور علم و آگہی کے بحرِ ذخّار کی غواصی سے گریزاں ہیں۔ انہوں نے فرمایا: ’’وہ کبھی نہیں پوچھتے کہ بجلی کس طرح پیدا ہوتی ہے، وہ کبھی دریافت نہیں کرتے کہ بھاپ سے چلنے والی کشتیاں یا ریلیں کیا ہوتی ہیں۔‘‘
افغانی نے فرمایا کہ وہ اس بات پر متعجب ہیں کہ علماء نے سائنس کو مسلم سائنس اور یورپی سائنس میں تقسیم کردیا ہے اور اپنی درسگاہوں میں انتہائی مفید علوم کی تحصیل پر پابندی لگا رکھی ہے۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ ’’وہ لوگ جو سائنس اور علم کی ممانعت کرتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اس طرح مذہب اسلام کا تحفظ کررہے ہیں، تو جان لیں کہ درحقیقت وہی اسلام کے دشمن ہیں۔‘‘
افغانی کا خیال تھا کہ اسلام وہ دینی نظام ہے جو جدید سائنسوں سے غیر ہم آہنگ نہیں ہے۔ ان کے مطابق ’’مولویان مجرم ہیں جنہیں نہ صرف سائنس بلکہ پوری دنیا کے تئیں اپنا رویہ تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے، جس نے گزشتہ چند صدیوں میں نہایت تیز قدمی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ انہوں نے مسلم علما کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’’وہ ایک ننھے سے دئے کی مانند ہے جو نہ خود اپنے ماحول کو منور کرسکتا ہے اور نہ ہی دوسروں کے لئے مشعلِ راہ ہوسکتا ہے۔‘‘
مقالات جمالیہ میں انہوں نے علما کے ’’اس بے جا مذہبی جوش پر انہیں متنبہ کیا جس نے علم ودانش اور سائنسوں کے تئیں مسلمانوں میں نفرت پیدا کی اور انہیں صنعت و حرفت اور ایجاد و اختراع سے بیزار کردیا۔‘‘
کیا اکیسویں صدی کے علما، انیسویں صدی کی اس ہوشمندانہ اور تعقل پسندانہ آواز پر کان دھریں گے یا پھر یہ صدا  بصحرا ثابت ہوگی۔
(صاحب مضمون سردست ریاست کیرالہ کے عزت مآب گورنر ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS