پوری دنیا میں کسی ایک تاریخ کا دو ہی صورتوں میں بے صبری سے انتظار ہوتا ہے- یا تو اس تاریخ کا تعلق کسی آفت سے ہو یا پھر وہ تاریخ کوئی موقع لے کر آرہی ہو۔ 3نومبر ایسی ہی تاریخ ہے، جس کا راست تعلق یوں تو امریکہ سے ہے، لیکن بالواسطہ طور پر آنے والے چار سال تک پوری دنیا اس کا اثر محسوس کرے گی۔ اس تاریخ کو امریکہ کو اپنا اگلا صدر ملے گا اور دنیا کو یہ معلوم ہوگا کہ سپرپاور کا اقتدار ایک بار پھر موجودہ صدر ری پبلکن لیڈر ڈونالڈٹرمپ کے پاس رہے گا یا پھر جو بائیڈن کی قیادت میں ڈیموکریٹ چار سال پہلے گنوائے اقتدار کو دوبارہ حاصل کرلے گی۔
امریکہ میں انتخابی رسم کے مطابق پریزیڈیشنل ڈیبیٹ شروع ہوچکی ہے اور الیکشن سے قبل سروے بھی آنے لگے ہیں۔ زیادہ تر سروے میں امریکی عوام صدارتی الیکشن کو ڈونالڈ ٹرمپ سے چھٹکارا پانے کے موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان سروے میں جو بائیڈن50فیصد سے زیادہ ووٹ فیصد کے ساتھ ڈونالڈٹرمپ پر 10پوائنٹ سے زیادہ آگے نکلتے نظر آرہے ہیں۔ سال 2016میں ٹرمپ کو ووٹ کرنے والے 80فیصد سے زیادہ لوگ ان کی دوبارہ واپسی نہیں چاہتے۔ الیکشن میں فرق پیدا کرنے والی ریاستوں کے 75فیصد ووٹروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ امریکی صدر کے عہدہ کے وقار کے مطابق برتاؤ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
انتخابی ماحول کے باوجود گاہے بگاہے ٹرمپ خود بھی اس کی مثال دیتے رہتے ہیں۔ سابقہ صدر براک اوباما کو جیل بھیجنے، سابقہ امیدوار ہلیری کلنٹن کو ’روسی سازش والی تھیوری‘ کے نتیجے بھگتنے جیسے غیرذمہ دارانہ بیان ٹرمپ کی شبیہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کورونا سے ٹھیک ہونے کے بعد ٹرمپ نے اپنی پہلی ملاقات میں کیبنٹ کے سینئر افسران کو اپنے مخالفین کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کرنے یعنی ٹرمپ کے مطابق ’ٹھیک سے کام نہ کرنے‘ پر سب کے سامنے پھٹکار بھی لگائی ہے۔
حزب اختلاف کی ہی طرح دوسرے امریکی یہ سمجھ رہے ہیں کہ الیکشن جیتنے کے لیے ٹرمپ اس مرتبہ کسی بھی سطح تک جاسکتے ہیں۔ کئی مواقع پر ٹرمپ خود کہہ چکے ہیں کہ اس مرتبہ کے الیکشن دھاندلی سے جیتے جائیں گے اور اگر نتیجے ان کے خلاف گئے تو اقتدار کی منتقلی ’پرامن‘ نہیں ہوگی۔ ایسا بھی خدشہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ڈیموکریٹک گڑھ سمجھی جانے والی ریاستوں میں قانون کے افسران کی تعیناتی سے الیکشن کو متاثر کرنے کی کوشش کرے گا۔ اندازے لگائے جارہے ہیں کہ ووٹنگ کے بعد اسی رات لاکھوں پوسٹل بیلٹ کی رائے شماری سے قبل ہی ٹرمپ اپنی جیت کا اعلان کرسکتے ہیں۔ ٹرمپ سے متعلق ’یقین‘ کی سطح اتنی گرچکی ہے کہ ایسی بھی قیاس آرائیاں ہیں کہ ہار ٹالنے کے لیے ٹرمپ کورونا وبا کی آڑ لے کر الیکشن کو ٹال سکتے ہیں۔ حالاں کہ امریکہ کے پیچیدہ انتخابی عمل کے سبب ٹرمپ کے لیے اکیلے ایسا فیصلہ لینا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ امریکی کانگریس کے دائرۂ اختیار والا علاقہ ہے اور ویسے بھی امریکہ کی 22سال کی تاریخ میں ایسا موقع صرف ایک بار سال 1845میں ہی آیا ہے جب الیکشن اپنے طے شدہ وقت پر نہیں ہوپائے۔
اس لیے کورونا کے سبب الیکشن ٹلنے کا خدشہ بھلے ہی مخالفین کا اسٹنٹ ثابت ہو، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ٹرمپ اور اقتدار کے درمیان اگر کوئی ایک وجہ سب سے بڑی ثابت ہوگی تو وہ کورونا سے نمٹنے میں ان کی ناکامی ہی ہوگی۔ امریکہ گزشتہ چار ماہ سے کورنا کے معاملوں میں ’دنیا کا سِرمور‘(سربراہ) بنا ہوا ہے۔ ٹرمپ کو ملاکر 78لاکھ سے زیادہ امریکی کورونا انفیکشن کے شکار ہوچکے ہیں، جب کہ موت کے اعدادوشمار 2لاکھ کے پار جاچکے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ کے ایک سروے میں 62فیصد لوگوں نے کہا ہے کہ کورونا سے متعلق ٹرمپ کی ’ہلکی‘ سوچ کے سبب امریکہ کو بڑی قیمت چکانی پڑی ہے۔ ٹیکساس، فلوریڈا، اریزونا جیسی کورونا سے سب سے زیارہ متاثر ریاستوں میں گزشتہ مرتبہ ٹرمپ کی حمایت کرنے والے 78فیصد لوگ صرف اسی وجہ سے انہیں دوبارہ ووٹ نہیں کریں گے۔
کورونا سے متعلق ریپبلک اور ڈیموکریٹ حکمرانی والی ریاستوں میں تقسیم کی سوچ بھی ٹرمپ کو خاصا نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس کے علاوہ نسلی امتیاز، آب و ہوا میں تبدیلی، امریکہ فرسٹ کی پالیسی کے سبب باقی دنیا بالخصوص یوروپی ممالک سے بگڑتے تعلقات، چین سے متعلق ڈھلمل رویہ، روسی صدر پتن جیسے ’تاناشاہ‘ کو بار بار اپنا رول ماڈل بتانا جیسی کئی باتیں امریکی ووٹروں کو ٹرمپ سے دور کررہی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ میں اس طرح کا ٹرمپ مخالف ماحول بنانے میں ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کا کوئی خاص ہاتھ نہیں نظر آرہا۔ پانچ دہائیوں سے سیاست میں سرگرم ہونے کے باوجود آج بھی زیادہ تر امریکیوں کی طرح باقی دنیا بھی انہیں براک اوباما کے نائب صدر کے طور پر ہی جانتی ہے۔ لیکن ٹرمپ کو مل رہے تمام چیلنجز کے ساتھ ہندنژاد لوگوں میں گہری پکڑ بائیڈن کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔
امریکہ میں اس مرتبہ 18لاکھ ہندنژاد ووٹ ڈالیں گے۔ فلوریڈا، پینسل وینیا اور مشی گن جیسی ریاستوں میں تو ان کے ووٹ فیصلہ کن بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے ٹرمپ اور بائیڈن خیمہ انہیں اپنے پالے میں لانے میں مصروف ہے۔ ٹرمپ نے اس کی پہچان اپنی سابقہ انتخابی مہم میں ہی کرلی تھی، جب انہوں نے ہندوؤں کے لیے اپنے ’پیار‘ کا عوامی طور پر اظہار کیا تھا۔ گزشتہ ایک سال میں ٹرمپ ’ہاؤڈی مودی‘ اور ’نمستے ٹرمپ‘ جیسے دو بڑے مواقع پر ہندنژاد لوگوںمیں انتہائی مقبول ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ نظر آئے ہیں۔ ہندنژاد امریکیوں سے ٹرمپ کا کوئی بھی خطاب وزیراعظم مودی کے ساتھ ان کی دوستی کے ذکر کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ ان کی انتخابی مہم میں وہی نعرے-سلوگن سنائی دیتے ہیں جو وزیراعظم مودی کی انتخابی مہم کا حصہ تھے۔
لیکن ٹرمپ کی یہ تمام کوششیں بھی رنگ نہیں لاپارہی ہیں۔ حال میں ہوئے اے پی آئی سروے سے پتا چل رہا ہے کہ اس مرتبہ صرف28فیصد ہند نژاد ٹرمپ کے ساتھ کھڑے ہیں، جب کہ دو تہائی بائیڈن کو حمایت دیتے نظر آرہے تھے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں پہلی یہ کہ ہندوستان سے متعلق ٹرمپ صرف ’آسمانی‘ بیان بازی ہی کرتے رہے ہیں، انہوں نے ہندوستان یا ہندنژاد لوگوں کے لیے کبھی کوئی ’زمینی‘ کوشش نہیں کی ہے۔ دوسری وجہ ہے بائیڈن کی ہندوستان حامی لیڈر کی شبیہ جو عام طور پر ڈیموکریٹ لیڈروں کی پہچان رہی ہے۔ ہندوستانی ماں کی بیٹی کملا ہیرس کو نائب صدر کے عہدہ کا امیدوار بناکر بائیڈن نے اس سوچ کو مزید پختہ کردیا ہے۔
ہندوستان-امریکہ تعلقات میں شدت سے متعلق ان کی 14سال پرانی پیش گوئی ہندنژاد لوگوں میں کافی چرچہ میں ہے۔ سال 2006کے ایک انٹرویو میں بائیڈن نے کہا تھا کہ ان کا خواب ہے کہ سال 2020میں دونوں ملک سب سے قریبی تعلقات والے ملک بنیں۔ اس وقفہ میں بائیڈن نے خود مسلسل اس سمت میں کئی کوششیں بھی کی ہیں۔ 1998میں ایٹمی تجربہ کے بعد امریکہ نے ہندوستان پر سخت معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں۔ بائیڈن نے انہیں ہٹانے کے لیے سال 2001میں اس وقت کے صدر جارج بش کو خط لکھا تھا۔ سال 2008میں ہند-امریکی ایٹمی معاہدہ میں ان کا بڑا رول رہا تھا۔ امریکی نائب صدر رہتے ہوئے سال 2013میں جب بائیڈن ہندوستان کے دورہ پر آئے تھے، تب بھی دوطرفہ تعلقات کو انہوں نے نسلوں کو متاثر کرنے والی شراکت داری بتایا تھا۔ حالاں کہ کشمیر میں دفعہ 370ہٹانے، آسام میں این آرسی نافذ کرنے جیسے ہندوستان کے اندرونی ایشوز سے متعلق بائیڈن کا رُخ ہندوستان کے لیے خاطرخواہ نہیں رہا ہے۔
لیکن تاریخ اس طرح کے کئی واقعات سے مل کر بنتی ہے۔ ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ 1971میں امریکہ کے ریپبلکن صدر رچرڈ نکسن نہ صرف پاکستان کے ساتھ کھڑے تھے، بلکہ چین کو بھی اپنے خیمے میں لانے کی سازش رچ رہے تھے۔ ریپبلکن صدر رونالڈریگن نے بھلے ہی افغانستان سے اس وقت کے سوویت یونین کو بے دخل کرنے کے لیے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو مضبوط کیا ہو، لیکن کشمیر اور پنجاب میں اس کی کارگزاریوں کی قیمت آج بھی ہندوستان چکا رہا ہے۔ ریپبلکن ڈونالڈٹرمپ کی ہی حکومت میں امریکہ سے تجارتی معاملات میں ہندوستان کو مل رہے فیورڈنیشن کے فائدے محدود کرنے کا کام ہوا ہے۔
دوسری طرف ڈیموکریٹ اوباما رہے، جو اپنی مدت کار میں دو مرتبہ ہندوستان کا سفر کرنے والے پہلے امریکی صدر بنے، جنہوں نے اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل میں ہندوستان کی ممبرشپ کے دعوے کو طاقت دی اور ہندوستان کے ساتھ ایک اہم دفاعی معاہدہ بھی کیا۔ اس سے پہلے کے ڈیموکریٹ صدر بل کلنٹن کے دور میں بھی ہند-امریکی تعلقات میں گرم جوشی رہی تھی۔
ڈیموکریٹ پارٹی کی انتخابی مہم سے اب تک یہ سمجھ بنی ہے کہ ہندوستان کو آتم نربھر(خودکفیل) بنانے کے وزیراعظم کے خواب کو پورا کرنے میں جوبائیڈن موجودہ حکومت سے زیادہ مفید ثابت ہوں گے۔ بائیڈن نے معاشی اصلاحات اور کھلے پن کے ساتھ ہی ورلڈ سپلائی چین میں ہندوستان کی حصہ داری میں اضافہ سے متعلق مثبت رُخ دکھایا ہے۔ ایچ-1بی اور فیملی ویزا معاملہ سے متعلق بھی بائیڈن ہندوستانی نظریہ سے زیادہ باہمی تعاون کی باتیں کررہے ہیں۔ ہندوستانی نظریہ سے اہم چین اور پاکستان کے مسئلہ پر اقتدار بدلنے پر بھی امریکہ بھلے اپنی پالیسیوں سے زیادہ تبدیلی نہ لاسکے، پھر بھی وہ ٹرمپ کے مقابلے زیادہ بھروسہ مند ساتھی ثابت ہوسکتے ہیں۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
کس کا ہوگا امریکہ؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS