سووگیا جین
اس بات پر کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا کہ پوری دنیا کے بچوں میں تغذیہ کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں یہ مسئلہ زیادہ ہے۔ حالاں کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے دنیا کے تمام ملک بچوں میں تغذیہ کی کمی کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی سے کام کررہے تھے اور ایسا ہوپانے کا ایک سبب یہ سمجھا جارہا ہے کہ عالمی معاشی ترقی سے یہ گنجائش بنی۔ لیکن تمام کوششوں کے باوجود کوئی بہت حوصلہ افزا نتائج دیکھنے کو نہیں ملے۔ پھر موجودہ عالمی کسادبازاری اور وبا نے بچوں پر تغذیہ کی کمی کی آفت کا اندیشہ مزید بڑھا دیا۔ اس بات کی تصدیق گزشتہ پندرہ روز میں اقوام متحدہ کے دو بڑے افسران کے بیانات سے بھی ہورہی ہے۔ یہ دو افسر ہیں اقوام متحدہ کی سیاسی سربراہ روزمیری ڈیکارلو اور اقوام متحدہ کے انسانی امور کے سربراہ مارک لوکاک۔ لوکاک نے اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کو آگاہ کیا ہے کہ کورونا بحران نے معاشی طور سے کمزور ممالک کی ہیلتھ کنڈیشنس پر بہت برا اثر ڈالا ہے۔ لہٰذا ان ممالک میں غریبی اور بھکمری میں اضافہ ہوگا، شہریوں کی اوسط عمر کم ہوجائے گی اور تعلیم کی حالت خراب ہوجائے گی۔ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ بچوں کی اموات کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔ ظاہر ہے، یہ خدشات فضول نہیں ہیں۔ حال میں آئی ایک رپورٹ کے مطابق کورونا آنے کے بعد سے دنیا میں ہر ماہ کم و بیش دس ہزار بچے صرف بھوک سے مررہے ہیں۔ معاشی کسادبازاری کے سنگین ہونے پر یہ اعدادوشمار مزید خوفناک ہوسکتے ہیں۔
اگر ہندوستان کے تناظر میں اسے دیکھیں تو اس وقت معاشی کسادبازاری کا سب سے گھنا سایہ ہمارے اوپر ہی ہے۔ ماہرین نے یہ حساب لگاکر بھی بتادیا ہے کہ موجودہ مالی سال کے باقی بچے 6ماہ میں بھی ہندوستانی معیشت میں بہتری کے آثار نہیں ہیں۔ ویسے بھی اس سال کی پہلی سہ ماہی میں گروس ڈومیسٹک پروڈکٹ(جی ڈی پی) میں صفر سے بھی 23.9فیصد کی گراوٹ کے بعد معاشی حالت کو لے کر مخمصہ میں رہنے کا کوئی سبب نہیں بچا ہے۔ دوسری جانب کورونا ابھی بھی اپنی انتہائی حالت میں پہنچا نہیں ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بحران کے دور میں آگے کیا کرنا ضروری ہوگا؟ بالخصوص حالات سے نبردآزما ہونے کے لیے ترجیحات طے کرنی ہی پڑیں گی اور فوری و طویل مدتی منصوبے فوراً بنانے پڑیں گے۔ بیشک فوری منصوبوں میں ملک میں کام دھندوں کو پٹری پر لانا پہلا کام ہوگا۔ لیکن طویل مدتی منصبوں میں آنے والی نسل کا خیال رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ ظاہر ہے اس کے لیے ملک کے بچوں کی صحت کو اس آفت سے بچانا اتنا ہی ضروری ہے۔
بچوں میں تغذیہ کی کمی کے محاذ پر دنیا میں کتنا بھی کام کیوں نہ ہوا ہو، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اپنے ملک میں آج بھی پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 8لاکھ 80ہزار بچے ہر سال مررہے ہیں۔ ان میں 69فیصد بچوں کی موت صرف تغذیہ کی کمی کے سبب ہوتی ہے۔ یہ اعدادوشمار یونیسیف کی رپورٹ اسٹیٹ آف ورلڈس چلڈرن، 2019کے ہیں۔ حالاں کہ حکومت ان اعدادوشمار کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتی نظر آتی۔ اس کا جواز ہوتا ہے کہ گزشتہ کچھ دہائیوں سے بچوں کی نشوونما کے اشاریہ میں بہتری آئی ہے۔ بیشک گزشتہ 30-40 سال کے دوران کی تمام حکومتوں نے بچوں پر زیادہ خرچ کرکے حالات کو کچھ سنبھالا ہے۔ اسی دوران اسکولی بچوں کے لیے لنچ کی عالمی شہرت یافتہ اسکیم پر عمل درآمد بھی ہوا۔ گزشتہ دہائی میں فوڈ سیکورٹی قانون نے بھی کافی اثر ڈالا۔ اس کا راست اثر بچوں میں تغذیہ سے جوڑا جاسکتا ہے۔
لیکن ادھر کچھ برسوں میں جس طرح سے معاشی تنگی میں اضافہ ہوا ہے، اس سے اس طرح کے منصوبوں کو اور زیادہ باثر بنانے کے کام میں رکاوٹیں آئی ہیں۔ کئی سہ ماہیوں سے جس طرح سے ملک کی مالی حالت گراوٹ پر ہے، اس کا اثر بچوں میں تغذیہ کی کمی کے مسئلہ سے نمٹنے کے منصوبوں پر پڑا ہے۔ ادھر مسلسل بڑھتی آبادی زیادہ حکومتی خرچ کا مطالبہ کررہی ہے۔ غورطلب ہے کہ دنیا کی چھٹی سب سے بڑی معیشت ہونے کے باوجود ہم بھکمری کے گلوبل انڈیکس میں بہت ہی تشویشناک درجہ میں ہیں۔ بھکمری کے گلوبل انڈیکس میں 117ممالک میں ہمارا نمبر 102واں ہے۔ یعنی ملک کی موجودہ مالی حالت کے مدنظر یہ ماننے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے کہ بچوں میں تغذیہ کی کمی کا مسئلہ مزید بڑاہوتا جانے والا ہے۔
جہاں تک بچوں اور نوعمروں کے لیے فلاحی منصوبوں کا سوال ہے تو یہ بھی طے ہے کہ اس کے لیے مناسب مقدار میں رقم درکار ہوگی۔ البتہ حکومت کے طرفدار ماہر ایک ہی بات نکال کر لائیں گے کہ اگر معاشی محاذ کو سنبھال لیا جائے یعنی پہلے مجموعی ملکی پیداوار میں اضافہ کرلیا جائے تو اس کے بعد سب ٹھیک ہوجائے گا۔ لیکن اس کا جواب بھی دیا جانا چاہیے کہ مالی حالت میں بہتری کا کام لمبا کھنچنے والا ہے۔ اس محاذ پر گزشتہ دو سال سے ہم جس طرح سے مسلسل نیچے آتے جارہے ہیں، اس کے مدنظر آنے والے سال دو سال میں کسی کرشمہ کی امید بے معنی ہے اور تب تک مستقل نقصان ہوجائے گا۔ اس میں سب سے بڑا اندیشہ بچوں کی ایک بھری پوری نسل کے نشوونما سے محروم یا کمزور ہوجانے کا ہے۔ یہ ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
ہم کتنا بھی ثابت کرتے رہیں کہ معاشی محاذ کو فتح کرنے سے تمام محاذ خود بہ خود فتح ہوجاتے ہیں، لیکن کیا یہ دیکھا جانا ضروری نہیں ہے کہ اقتصادی ترقی کیا اور کتنی قیمت چکا کر حاصل ہوگی۔ یہ وقت توجہ دینے کا ہے کہ ملک میں اقتصادی ترقی کے لیے سرمایہ کاری میں اضافہ پہلی شرط ہے۔ اب تک کا تجربہ ہے کہ پروڈکٹیو کاموں میں سرمایہ کاری کے چکر میں سماجی ضرورت سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ بچوں اور کم عمروں کے لیے فلاحی کام اکثر اسی لیے پیچھے چھوٹ جاتے ہیں کیو ںکہ اس سے فوراً سرمایہ کی تشکیل نہیں ہوتی۔ لیکن ماہرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کو یاد دلاتے رہیں کہ یہ بچے اور نوعمر ہی مستقبل کے سرمایہ کار ہیں۔ اگر تھوڑے وقت کے لیے بھی اس طبقہ کو نظرانداز کیا جاتا ہے تو یہی سمجھا جانا چاہیے کہ ہم مستقبل کی قیمت پر حال گزار رہے ہیں۔
بچوں اور نوعمروں کے لیے فلاحی منصوبوں پر خرچ میں اضافہ کی وکالت کرنے والوں کو پختہ دلائل بھی تیار کرنے ہوں گے۔ جواز دے کر یہ سمجھانا پڑے گا کہ ایسے خرچ کا ایک فوری فائدہ بھی ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ جب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ہندوستانی معیشت کے سامنے موجودہ مسئلہ بازار میں ڈیمانڈ کم پڑجانے سے آیا ہے تو کیا یہ یاد نہیں دلایا جاسکتا ہے کہ بچوں اور نوعمروں کے تغذیہ، صحت اور تعلیم پر زیادہ سرمایہ لگا کربھی پیسہ شہریوں کی جیب میں ہی پہنچتا ہے۔ اس سے بازار میں ڈیمانڈ خود بہ خود بڑھتی ہے۔حکومت کو اگر اپنی سرمایہ کاری کے لیے کوئی سیکٹر منتخب کرنا ہو اور معاشی سرگرمیوں کو اچانک تیز ہوتے دیکھنا ہو تو بچوں اور نوعمروں کے فلاحی منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد کرنا ایک متبادل کیوں نہیں ہوسکتا ہے؟
البتہ کچھ لوگ بحث کرسکتے ہیں کہ پیسے آئیں گے کہاں سے؟ جولوگ پیسے کی تنگی کی دلیل دیتے ہیں، ان سے سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ پیداوار میں اضافہ کے لیے سرمایہ کہاں سے آئے گا؟ اور کیا اب تک ایسی ہی سرمایہ کاری کرکے دیکھ نہیں لیا گیا؟ بچوں پر خاص طور پر ان کے تغذیہ اور صحت پر خرچ کرنے کے لیے راست ان کی جیب میں پیسے ڈالنے سے بہتر طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے؟
(بشکریہ: جن ستّا)