چیتن بھگت
ہندوستان میں زندگی مشکل ہے۔ آپ کی پیدائش کے وقت ماں کو اچھا اسپتال پانے سے لے کر، آپ کے اسکول کالج میں ایڈمیشن لینے، نوکری پانے، گھر خریدنے اور بارش سے بچنے تک، ایک عام آدمی کی زندگی بہت مشکل ہے۔ اس وجہ سے مایوسی، پریشانی، غصہ، غمگین ہونا ہندوستانی زندگی کا حصہ ہے۔ اسی لیے جب کوئی ذہنی صحت پر چرچہ کرتا ہے اور ڈپریشن یا اینگزائٹی سے نبردآزما لوگوں کا خیال رکھنے کی بات کرتا ہے تو زیادہ تر ہندوستانی کہتے ہیں آپ فضول باتیں کررہے ہیں۔ اسے ہندوستانی ایسے ہی زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ پھر اگر یہ مسئلہ بھی ہو تو علاج کیسے ہو؟ اس کی شکایت کرنے والا کمزور، بیکار اور ہارنے پر بہانا بنانے والا کہلاتا ہے۔
ہندوستان کے ان جذبات کو بغیر سمجھے، ہمارے موجودہ مینٹل ہیلتھ ایمبیسڈر اپنا پیغام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’ذہنی صحت دیگر بیماری کی ہی طرح ہے‘ یا ’میرے ساتھ دوہراؤ کہ ڈپریشن حقیقت ہے‘۔ اس سے ہندوستانی حیران ہوجاتے ہیں۔ ان کے لیے تو بیماری کا مطلب ڈینگو، ٹی بی، کینسر یا ذیابیطس ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہے کہ ذہنی صحت کے ہندوستانی سفیر صرف امریکی ماڈل کی نقل کررہے ہیں۔ وہ ان کے سلوگن تک کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہندوستان میں نہیں چلتا۔ یہی وجہ ہے کہ سوشانت سنگھ راجپوت کے ذریعہ نفسیاتی دوائیں لینے، اس کے مسئلہ کا علاج کررہے ڈاکٹروں کی گواہی اور ڈاکٹروں کی کئی ٹیموں کے ذریعہ اس کی موت کو خودکشی بتانے کے باوجود پورے معاملہ پر چرچہ میں ہم ذہنی صحت پر بات کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ اس کالم کا مقصد اس مسئلہ پر کوئی ٹھوس رائے دینا نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ جانچ پوری ہونے دی جائے کیوں کہ سوشانت کی موت کی ایک قومی گونج ہے، اس لیے یہ ذہنی صحت کے ایشو پر تفصیلی چرچہ کا مناسب وقت ہے۔ پہلی بات ذہنی صحت اہم ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر چار میں سے ایک شخص کو کبھی نہ کبھی ذہنی صحت کی دقت ہوتی ہے۔ ملک میں بھی گورنمنٹ اسپانسرڈ منینز (Government sponsored minions) کے مطالعہ کے مطابق ملک میں ہر 10میں سے ایک شخص کو ذہنی صحت و ہر 20میں سے ایک کو ڈپریشن کی شکایت ہے۔ اس لیے ہندوستانیوں کا کہنا ہے کہ ہماری دادی-نانی تو ڈپریس نہیں ہوتی تھیں، حقیقت سے منھ چرانا ہے۔
زندگی میں سبھی کبھی نہ کبھی پریشان، مایوس یا فکرمند ہوتے ہیں۔ یہ کوئی خرابی نہیں ہے۔ خرابی تب ہوتی ہے، جب یہ جذبات تیز ہوتے ہیں، ختم نہیں ہوتے اور زندگی متاثر ہونے لگتی ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب یہ جذبات ہفتوں، مہینوں اور سالوں رہتے ہیں۔ اس کی تیزی اور مدت ہی اسے خراب بناتی ہے۔ ایسے لوگوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے انہیں مدد ملے۔ زیادہ تر ہندوستانی کہتے ہیں کہ ذہنی صحت تو کچھ ہے ہی نہیں۔ یہ کہنا بھی غلط ہے کہ ذہنی صحت کا مسئلہ دیگر بیماریوں کی طرح ہے۔ ذہنی صحت کے مسئلہ کو ڈس آرڈر(خرابی) کہتے ہیں، بیماری نہیں۔ کئی بار یہ ڈس آرڈر ہی ہوتا ہے، اگر یہ صرف زندگی کی کوالٹی کو متاثر کرے۔ لیکن اگر آپ کام نہیں کرپاتے، خوشی محسوس نہیں کرتے، گھل مل نہیں پاتے تو مدد کی ضرورت ہوسکتی ہے۔
حالاں کہ دیگر بیماریوں سے الگ ذہنی صحت کی دقت میں مدد کئی طریقوں سے آسکتی ہے۔ متعدی امراض میں ہم اینٹی بایوٹک لے کر صحت مند ہوجاتے ہیں۔ ذہنی صحت کے مسئلہ کے لیے توجہ ایک آپشن ہے۔ ماہر تھیریپسٹ بھی مدد کرتے ہیں۔ وہ پتا لگاسکتے ہیں کہ اس حالت کی وجہ کیا ہے: خراب نوکری، زبردست نقصان، کوئی رشتہ یا کریئر جس سے دور ہونے کی ضرورت ہے تاکہ مسئلہ حل ہو۔ کئی مرتبہ صرف تھیریپی کام نہیں کرتی تو دھیان کرسکتے ہیں۔ نفسیاتی دھیان الگ ہے۔ وہ دماغ کی کیمسٹری پر کام کرتا ہے۔ اس لیے یہ زبردست نگرانی میں ہی ہو۔ علاج وقت لیتا ہے، دوائیں علامات کو مینج کرتی ہیں، بیماری کو نہیں۔آپ اچانک انہیں لینا بند نہیں کرسکتے۔ کئی دواؤں کا غلط استعمال ہوسکتا ہے، وہیں کئی سے خودکشی کے خیال جیسے برے اثرات ہوتے ہیں۔ چرچہ کے لیے یہ موضوع بہت وسیع ہے اور میں ماہر بھی نہیں ہوں۔ نفسیاتی علاج کوئی رام بان نہیں ہے اور اس میں خطرے بھی ہیں۔ یہی بات ذہنی بیماری کے حامیوں کو بتانی چاہیے۔ دوا کئی بار ضروری ہوتی ہے، لیکن اسے آخری متبادل کے طور پر بہت احتیاط سے لینا چاہیے۔
سوشانت سنگھ راجپوت کی موت کے معاملہ میں ذہنی صحت پر ایک اہم چرچہ چھوٹ گئی ہے۔ کووڈ-19 و معاشی دباؤ کی وجہ سے اس سے جڑے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ جب کہ ہمیں ذہنی صحت پر ایسے حالات بنانے کی ضرورت ہے، جس سے لوگ کھل کر اس پر بات کریں۔ ہندوستان کو ذہنی صحت کے تئیں حساس بنانا سوشانت کو ایک بہتر خراج عقیدت ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ انہوں نے خود اسے کبھی ختم نہ ہونے والی سازش کی کہانیوں کے مقابلہ میں زیادہ اہمیت دی تھی۔
(بشکریہ: دینک بھاسکر)
[email protected]