محمد فاروق اعظمی
ہاتھرس کی گڑیا(فرضی نام) کے ساتھ ہونے والی واردات نے ایک بار پھر سے پورے ہندوستان کو ظلم اور درندگی کے خلاف صف بستہ کردیا ہے۔ ملک کی دوسری ’نربھیا‘ کو انصاف دلانے کیلئے حزب اختلاف، سول سائٹی، خواتین کی رضاکار تنظیمیں اور انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں سڑکوں پر اتر کر احتجاج کررہی ہیں۔
خواتین کی حفاظت کے تعلق سے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ حزب اختلاف کی جانب سے اترپردیش کی یوگی حکومت سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اترپردیش کی یوگی حکومت میں خواتین اور بچیوں کے ساتھ مجرمانہ واقعات میں روز افزوں اضافہ ہورہاہے۔درندگی کے ایسے انسانیت سوز واقعات پیش آرہے ہیں کہ ماضی میں اس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ جنسی استحصال اور قتل کی سفاکانہ کارروائیاں معمول بن چکی ہیںاور ریاست ایک ایسے جنگل کا روپ دھار گئی ہے جہاں درندوں کابول بالا ہے۔ستم تو یہ بھی ہے کہ سفاک درندوں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر انہیں بے رحمانہ اور عبرت ناک سزائیں دلانے کی بجائے خود پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے واقعے سے ہی انکار کرجاتے ہیں۔ اس صورتحال میں ریاست میں نظم و نسق پر سوال اٹھنالازمی ہے۔
دیکھاجائے تو عورتوں کے خلاف تشدد اور جنسی جرائم کے معاملے میں اترپردیش اکیلا نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں خواتین کے ساتھ حیوانیت کے واقعات لگاتار سامنے آرہے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو(این سی آر بی) کے تازہ دستیاب ڈیٹا کے مطابق گزرنے والے سال 2019 میں خواتین کے خلاف جرائم کے4,05,861معاملات پیش آئے تھے۔2018کے مقابلے میںخواتین کے خلاف جرائم میں7.3% اضافہ ہوا ہے۔ڈیٹا کا تجزیہ ہندوستانی تہذیب کا یہ ننگ اجاگر کرنے والا ہے۔ ڈیٹا کے مطاق ’درگا‘، ’لکشمی‘ اور ’کالی‘ کی پوجاکرنے والے اس ملک میں ہر 16 منٹ پر کہیں نہ کہیں عورتوں کوبے آبرو کیا جارہا ہوتا ہے اورہر چوتھے منٹ پر کوئی نہ کوئی شادی شدہ عورت اپنے سسرال والوں کے ہاتھوں مظالم کا شکار ہورہی ہوتی ہے۔ روزانہ 88عورتیں آبروریزی کا شکار ہوتی ہیں۔ 2019 میں رپورٹ ہونے والے آبروریزی کے کل 32,033واقعات میں سے11فیصد میں ملک کی دلت خواتین کو اونچی ذات کے لوگوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا ہے۔آبروریزی کے واقعات سب سے زیادہ راجستھان اورا ترپردیش میں پیش آتے ہیں۔ دستیاب ڈیٹا کے مطابق راجستھان میں گزشتہ سال آبروریزی اور اجتماعی آبروریزی کے 6000 واقعات سامنے آئے تھے، اسی مدت میں اترپردیش میں 3,065عورتوں کو ہوس کا نشانہ بنایاگیاتھا۔یہ بھی جگ ظاہر ہے کہ سیکڑوں، ہزاروں ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں جو سرخیاں نہیں بن پاتے ہیں۔
ایسے معاملات سرخیوں میںآنے کے بعد پورے ملک میں وقتی طور پر اشتعال کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ حکمراں جماعت کے خلاف حزب اختلاف کے حملے تیز ہوجاتے ہیں۔ کچھ قانون بنائے جاتے ہیں اور بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں۔پھر گزرتے وقت کے ساتھ لوگ بھول جاتے ہیں اور پہلے کی طرح واقعات میں پھر تیزی آجاتی ہے۔قانون سازی اور سزاکے باوجودبھی ایسے معاملات کم نہیں ہوتے ہیں۔2012میں دہلی میں ہونے والے نربھیاآبروریزی اور قتل معاملے کے بعد بھی یہی صورتحال پیدا ہوئی تھی۔ مسلسل ایک مہینہ تک لوگوں کاجم غفیر سڑکوں پرا حتجاج اور مظاہرہ کرتارہا، پورے ملک سے قندیل جلوس نکالے گئے تھے۔آج 8برس بعد گڑیا(فرضی نام) کے معاملے میں پھر وہی عوامی اشتعال دیکھاجارہاہے۔
انسانیت کو بے توقیر کر جانے والے دہلی کے نربھیا معاملہ کے بعد نئی قانون سازی بھی کی گئی تھی، مجرموں کو عبرتناک سزا کا اعلان کیاگیاتھا۔ عورتوں کی عزت و حرمت محفوظ رکھنے اور ان میں تحفظ کا احساس پیدا کرنے کیلئے کئی پروجیکٹ شروع کیے گئے تھے۔اس کیلئے ایک خطیر رقم کے ساتھ باقاعدہ’ نربھیا فنڈ‘ تشکیل دیا گیا تھی۔ ایسے میں یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ اتنا سب کچھ کیے جانے کے باوجود بھی ان معاملات میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ کیوں ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس کی واحد وجہ خواتین کی حفاظت کے سلسلے میں حکمرانوں کا غیر سنجیدہ رویہ ہے۔ سیاسی پارٹیاں ایسے معاملات کو اپنے فائدہ کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ ان کے پیش نظر خواتین کی حفاظت سے زیادہ سیاسی فائدہ ہوتا ہے اور جب سیاسی فائدہ حاصل ہوجاتا ہے تو خواتین کی حفاظت کے بلند بانگ دعوے کرنے والے منظرنامہ سے غائب ہوجاتے ہیں، سیاسی ہنگامے اورطوفان تھم جاتے ہیں۔اس کا ایک ثبوت ’ نربھیافنڈ ‘ بھی ہے۔وزارت داخلہ کے محکمہ معاشی امور کی دیکھ ریکھ میں2015میں تشکیل دیے گئے اس فنڈ کا مقصد خواتین کے تحفظ سے متعلق پروجیکٹ پرعمل درآمدتھا جن میں متاثرین کی مالی امداد، ان کیلئے ٹیکنالوجی پر مبنی آن کال سہولت، ایمرجنسی فون ہیلپ لائن امداد، متاثرین کو معاوضہ، خواتین کے خلاف جرائم کی روک تھام اور خواتین پولیس والنٹیئر جیسی اسکیمیں شامل تھیں۔ اس کیلئے 100کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے جس میں ریاستوں کو ان کا حصہ الاٹ کیاگیاتھا۔پانچ برس گزر جانے کے باوجود زیادہ تر ریاستوں نے اس رقم میں سے پھوٹی کوڑی کا بھی استعمال نہیں کیا ہے۔کچھ ریاستوںمیں فنڈ کی 40فیصد رقم بھی خرچ نہیں ہوئی ہے۔
گزشتہ سرمائی اجلاس کے راجیہ سبھا میں حکومت نے جو ڈیٹا پیش کیا ہے، اس کے مطابق اس فنڈ کے ایمرجنسی رسپونس سپورٹ سسٹم کیلئے الاٹ کی جانے والی رقم کو ایک درجن سے زیادہ ریاستوں نے چھوا تک نہیں یعنی اس سمت میں ان ریاستوں میں کوئی کام نہیں کیا گیا۔ان ریاستوں میں اترپردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ، گجرات، ہریانہ، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، منی پور، میگھالیہ، اڈیشہ، سکم، تری پورہ، مغربی بنگال اور دہلی کی ریاستیں شامل ہیں۔ اسی طرح اس فنڈ کے ذیل میں آنے والے سینٹرل وکٹم کمپن سیشن فنڈ کو بھی اترپردیش، مہاراشٹر، میگھالیہ، منی پور، ناگالینڈ، اڈیشہ، پنجاب، راجستھان، سکم، تلنگانہ، تمل ناڈو اور تری پورہ نے استعمال نہیں کیا۔اس فنڈ کی رقم آبروریزی کی شکار ہونے والی متاثرین کی بازآبادکاری میں استعمال کی جاتی ہے۔لیکن یہ اسکیم ان ریاستوں میں چلائی ہی نہیں گئی۔ اسی طرح خواتین اوربچوں کے خلاف سائبر جرائم سے نمٹنے کیلئے اس فنڈ میں خطیر رقم مختص کی گئی ہے لیکن ریاستوں کا یہ حال ہے کہ انہوں نے اس پر نظراٹھا کر بھی نہیں دیکھا ہے۔ جب کہ ہر سال رقم الاٹ ہونے کی وجہ سے یہ رقم بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔
خواتین کے ساتھ درندگی جیسے معاملات کی روک تھام میں ریاستوں اور حکومتوں کا جب یہ رویہ ہو تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ملک سے اس طرح کے جرائم ختم ہوجائیں گے۔ ہنگامہ آرائی، شورشرابہ اور الزام و جوابی الزام کے ذریعہ عورتوں کی بے حرمتی کے واقعات پر قابو نہیں پایاجاسکتا ہے۔ضرورت ہے کہ ایسے معاملات میں فوری انصاف مہیا کیاجائے اور گناہگاروں کو نشان عبرت بنانے کے ساتھ ساتھ تحفظ خواتین کیلئے بنائی جانے والی اسکیموں کو کسی حیلہ جوئی کے بغیر زمین پراتارا جائے اورا نہیں نافذ کیا جائے۔
[email protected]