بہار کی سیاست کو اکثر لوگ پیچیدہ مانتے ہیں۔ لیڈروں اور پارٹیوں کے بارے میں پیش گوئی آسان نہیں ہوتی۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں جنتا دل یونائٹیڈ اور بی جے پی ایک ساتھ نہیں تھے مگر بعد میں دونوں نے ساتھ مل کر حکومت بنالی۔ جنتا دل یونائٹیڈ نے بی جے پی کے ساتھ حکومت بنانے کے لیے کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل کا ساتھ چھوڑ دیا لیکن اس بار الیکشن کے پہلے سے ہی جنتادل یونائیٹڈ بی جے پی کے ساتھ ہے، البتہ ان کی اتحادی پارٹی لوک جن شکتی پارٹی نے ایک الگ سا موقف اختیار کیا ہے۔ اسے بی جے پی سے تو کوئی عار نہیں، البتہ جنتا دل یونائٹیڈ کا ساتھ منظور نہیں۔ اس سلسلے میں چراغ پاسوان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم نریندر مودی اوروزیر داخلہ امت شاہ کو وہ اپنا لیڈر مانتے ہیں، اس لیے ان کے نام پر وہ ووٹ مانگیں گے۔ لیکن دوسری طرف بہار بی جے پی کے نائب صدر راجندرسنگھ کو انہوں نے اپنی موجودگی میں لوک جن شکتی پارٹی میں شامل کیا۔ یہ بات بی جے پی کو یہ سمجھا دینے کے لیے ناکافی نہیں کہ چراغ چاہتے کیا ہیں۔ پھر چراغ کے یہ کہنے سے کہ ’اس بار بہار میں نتیش سرکار کے خلاف لہر چل رہی ہے۔‘ صرف جنتا دل یونائٹیڈ کے نقصان کا خدشہ نہیں رہے گا، بی جے پی کو بھی اس طرح کی باتوں کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے، چنانچہ بی جے پی ذرائع سے آنے والی خبر کے مطابق، ’لوک جن شکتی پارٹی سے واضح لفظوں میں کہہ دیا گیا ہے کہ پارٹی کے کسی بینر، پوسٹر یا تقریر میں وزیراعظم نریندر مودی، امت شاہ یا بی جے پی کا نام نہیں لیا جانا چاہیے۔ دونوں پارٹیاں بہار میں الگ الگ چناؤ لڑرہی ہیں۔ ایسی صورت میں انہیں بی جے پی لیڈروں کے نام کے استعمال کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔‘
گزشتہ3اسمبلی انتخابات پر نظر ڈالی جائے تو سب سے زیادہ ووٹ فیصد بی جے پی کا بڑھا ہے۔ 2005اسمبلی انتخابات میں اسے 15.65فیصد ہی ووٹ ملا تھا، 2010 میں 16.49 فیصد اور 2015کے اسمبلی الیکشن میں اسے 24.4فیصد ووٹ ملا۔ اس طرح 2005سے 2015تک آتے آتے بی جے پی کے ووٹ بینک میں 8.75فیصد کا اضافہ ہوگیا۔ بات اگر کانگریس کی کی جائے تو 2005میں اسے 6.09فیصد، 2010میں8.37فیصد اور 2015میں 6.7فیصد ووٹ ملے تھے یعنی 2005سے 2015کے 10سال میں اس کے ووٹ فیصد میں 0.61فیصد کا اضافہ ہوا۔ اسی طرح راشٹریہ جنتا دل نے 2005اسمبلی انتخابات میں 23.45، 2010میں18.84اور 2015میں 18.4فیصد ووٹ حاصل کیے تھے یعنی 2015کے مقابلے پچھلے اسمبلی الیکشن میں اس کا 5.05فیصد ووٹ کم ہوچکا تھا مگر ان چاروں پارٹیوں کے مقابلے سب سے زیادہ خسارے میں لوک جن شکتی پارٹی رہی تھی۔ 2005اسمبلی الیکشن میں اسے 11.10فیصد ووٹ ملے تھے، 2010میں 6.74اور 2015میں صرف4.08 فیصد ووٹ ملے تھے یعنی 10سال میں اس کے ووٹ فیصد میں 7.02فیصد کی کمی آگئی۔ 2005میں اسے جتنے ووٹ ملے تھے، 2015میں اس کا آدھا ووٹ بھی اسے نہ ملنا چراغ پاسوان کے لیے واقعی باعث تشویش ہوگا۔ یہ بات ان کی فہم سے بالاتر نہیں ہوگی کہ لوک جن شکتی پارٹی کا یہ گھٹتا ہوا ووٹ فیصد اتحاد کرنے کے باوجود ہے، اس لیے غالباً وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان کی پارٹی تنہا کتنے ووٹ حاصل کرسکتی ہے مگر جس طرح انہوں نے اچانک تیور دکھانے شروع کیے، بی جے پی کی حمایت اور جنتا دل یونائٹیڈ کی مخالفت کرنی شروع کی، اس سے یہ سوچنے پر مجبور ہونا نامناسب نہ ہوگا کہ کہیں اصل مقابلہ بی جے پی اور جنتا دل یونائٹیڈ کے درمیان ہی تو نہیں؟ نتیش خود ایک منجھے ہوئے سیاستداں ہیں، وہ جانتے ہیں، کب انہیں کیا کہنا ہے، کب کون سا پالا بدلنا ہے، اس سے بہار اسمبلی انتخابات کے بارے میں دعوے سے کچھ کہنا آسان نہیں ہے، البتہ یہ بات ضرور اہمیت کی حامل ہے اور اس پر توجہ دی جانی چاہیے کہ سیاست صرف پارٹی کے مفاد کے لیے نہ ہو، ریاست کے مفاد کا خیال ضرور رکھا جائے۔
[email protected]
بہار کی سیاست
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS